zindagi pari hai abhi

آن کیم ۔ فیم ۔ کریئر جیم؟

تحریر:  شکیل بازغ۔۔

میں کم و بیش گذشتہ بیس سال سے صحافت سے خود کو زبردستی جوڑ کر معاشرے میں اپنا گرام بڑھانے کی کوشش کرتا رہا۔ کبھی اخبار کا صحافی توپ شے تھا میں تب صحافت اخبار میں سخن نویم کے نام سے کالم لکھ کر خود کو صحافی مانتا تھا۔  جہاں چاہ وہاں راہ باقاعدہ آج سے سترہ سال پہلے مین سٹریم میڈیا میں سیکھنے کا موقع ملا۔ اچھے چینلز میں بڑے لوگوں کیساتھ کام سیکھا اور آہستہ آہستہ مجھے سینئر اینکرز نے بتایا کہ تمہاری اردو بہتر ہے اور میں اسی بات پر پکا ہوگیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معلوم پڑا کہ بہت کچھ سیکھنے کو باقی ہے۔ اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق مجھے منجھے ہوئے اینکرز سے سن کر نئے اینکرز کے تلفظ کی اصلاح کا موقع ملا دھیرے دھیرے میڈیا کے ماحول میں رہتے ہوئے گرومنگ کا پراسیس چلتا رہا۔ سیکڑوں ندی نالے عبور کرنے کے بعد مجھے اس شوق نے آلیا کہ اتنے بچے آڈیشنز کیلئے آتے ہیں بددل ہوکر انہیں واپس جانا پڑتا ہے۔ ادارے میں میں جو سیکھ یا سیکھا رہا ہوں کیوں نہ اسے عوام الناس کیلئے منظم طریقے سے کیا جائے سلمان کیانی تب دنیا نیوز کے بعد میرے ساتھ ہی چینل بدل گئے اور ہمارے چینلز قریب ہونے کی وجہ سے ملاقات طے ہوئی اور ساتھ یہ کہ چونکہ اینکرز رپورٹرز کی ٹریننگ کا کوئی ادارہ نہیں جہاں عرق ریزی سے میڈیا کی ٹریننگ دی جاسکے ہم کریں گے ایسا تاکہ ہمارے سٹوڈنٹس کبھی reject نہ ہوں۔

اکیڈمی کو محدود رکھا دس بارہ سٹوڈنٹس کیساتھ تین ماہ محنت کرکے دو چار کو انکا جنون سکرین پر لے ہی جاتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش تیس سٹوڈنٹس کا نیوز اینکر بننے کا خواب پورا ہوا۔ اور بیسیوں اینکرز ایسے ہیں جنکی آن سکرین گرومنگ میں قلیل سہی لیکن بحیثیت پروڈیوسر اپنا حصہ بقدر جُثہ ڈالا۔

بڑی واہ واہ ہوئی۔ کہا جاتا تھا یہ ہے وہ بندہ جو کوئی بندہ بن کر اس سے سیکھے تو سکرین پہ آہی جاتا ہے۔ سب کا اپنا نصیب ہوتا ہے اسی حقیقت میں ہمیں بھی لوگ کریڈٹ دینے لگے۔

پھر بڑے spectrum میں سوچنے کا وقت آیا کہ میڈیا سٹڈیز یا دیگر سبجیکٹس میں ماسٹرز ایم فِل کرکے بچے آن سکرین آنے کیلئے بے تاب ہوتے ہیں۔ جو آن سکرین ہیں کیا وہ اسے اپنا کریئر بنا کر مطمئن ہیں؟

کروڑوں گھروں میں نظر آنے کا شوق ہلکا نہیں ہوتا۔ معاشرے میں اینکر کو consider کیا جاتا ہے۔ لیکن مالی اعتبار سے اور لائف ٹائم فیوچر کنسرن کریئر کے طور پر دیکھا جائے تو اتنے پڑھے لکھے بچے کیا واقعی تعلیم پہ لاکھوں کروڑوں خرچ کے بعد درست جگہ پر ہیں۔

میرا جواب ہے نہیں

اب بتاتا ہوں کیوں

چینلز نے بڑے بڑے بُرج الٹ دیئے۔ نیوز چینلز کو سستے اور قابل قبول چہرے اب چاہیئیں۔ کانٹینٹ پر گرپ اردو لکھنے کی سوجھ بوجھ یا وہ تمام parameters جو ایک نوکری پیشہ شخص کو اینکر بنا دیتے ہیں وہ اب نہیں چاہیئیں۔ شکل کچھ بہتر ہے بول لیتا/ لیتی ہے۔  بٹھا دو سکرین پہ سیکھتے سیکھتے سیکھ جائے گی۔ میرے سامنے کئی ایسے چہرے ہیں جو بارہ بارہ سال میں سیکھ نہیں پائے۔ وجہ یہ کہ زندگی چل رہی ہے چلنے دو۔ خود کو گروم کیوں کریں ادارہ ہمیں وقت پر تنخواہ ہی کب دیتا ہے۔ بیزاری۔ ایک جیسی روٹین اور مستقبل کا no target نوے فیصد اینکرز کو پانچ سے آٹھ سال کے دوران گھر بٹھا دیتا ہے۔ پھر اتنا وقت ضائع کرنے کے بعد میڈیا کو برا بھلا کہتے ہوئے کوئی اپنا کام دھندا شروع کرلیتے ہیں۔ شاید دو فیصد ہی ایسے ہیں جنہوں نے متبادل سوشل میڈیا پہ ثابت کیا کہ ان میں دم بھی ہے اور انکا اینکرنگ میں مقام کیساتھ علم بھی ہے۔  اینکرز جو میڈیا کو سمجھ جاتے ہیں وہی آگے نکل جاتے ہیں۔ ککھ نہیں معلوم سیکڑوں اینکرز کو کہ اپنی وقعت کیسے بڑھائیں ادا ماند پڑجاتی ہے نئی ادائیں رکھنے والے مات دے جاتے ہیں۔ شعور آگہی علم بلند مقام پر لے جاتا ہے۔

زندگی شوق میں ضائع کرنے کیلئے نہیں ملی۔ اگر آپ پہلے دو سال میں ادارے اور سکرین پہ اپنا مقام نہیں بنا پائے۔ اپنے اندر آگے بڑھنے کیلئے بلا کا جنون پیدا نہیں کرپائے خود کو مطالعے کی عادت نہیں دے پائے۔ مستقبل کیلئے خود کو solo program anchor بنانے کا ٹارگٹ نہیں set کرپائے تو خود کو لاش ہونےتک مت گھسیٹیں۔ سکرین اتنی بڑی سعادت نہیں کہ مردہ ہونے تک خود کو اس چکی میں پیسا جائے۔

میں جانتا ہوں جو روزانہ دس پندرہ کالمز پڑھنے والے کتابوں میں کھوئے رہنے والے اپنی شخصیت کو نکھارنے والے سترہ سال بعد بھی سکرین پر پورے وقار سے اپنا پروگرام کررہے ہیں۔ یہ بھی بس enter ہوئے تھے نیوز میں۔ پھر انہوں نے اپنی عزت نفس کا ذمہ دار خود کو ٹھہرایا۔

ایک غیر معروف پروگرام تین تین سال تک کرتے رہنا کوئی کمال نہیں۔ جنہیں نوٹس کرنا چاہیئے اگر انہوں نے ابھی تک آپ کو نوٹس نہیں کیا تو بھئی راہیں اور بھی ہیں اس ضد میں مرنے کے سوا

اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ میڈیائی زندگی میں اگر آپ کچھ نہیں بن پائے تو قصور آپکا ہے۔  میں بددل نہیں کررہا۔ میں محنت جنون اور ٹارگٹ سیٹنگ کا کہہ رہا ہوں۔ وہ جیسے بلال احمد اعوان کہتے ہیں آپ ڈاکٹر ہیں یا شہر کے سب سے اچھے ڈاکٹر ہیں۔ اب تو جو پہلے دن سکرین پر بٹھا دیا گیا چینل اسے بھی اینکر کہہ دیتا ہےاور وہ اسی زعم میں مارا جاتا ہے۔

 اسے خود معلوم کرنا ہے کہ حقیقت میں اینکر کسے کہتے ہیں۔   نہیں اگر آپ دل یزداں میں نہیں کھٹکتے تو آپ کچھ نہیں۔ بس سیکڑوں کی طرح عام سے شخص ہیں جو ٹی وی پہ دیگر کی طرح نظر آجاتے ہیں۔

جو کرو خود کو بتادو کہ ہاں I did it the way it should be.

کل گلی کا گٹر صاف کرنے والا آیا پندرہ سو لیئے اس نے۔ میں نے پوچھا روز کتنے کما لیتے ہو بولا چار پانچ ہزار بن جاتا ہے۔

لاکھ تک کی آمدن اب سویپر کی ہے۔ اینکر کی تنخواہ دس سال بعد دس لاکھ نہیں تو قصور کس کا ہے؟(شکیل بازغ)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں