تحریر: امجد عثمانی۔۔
جواب دہی کا سبق یہی ہے کہ عہدے پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا تاج ہوتے ہیں۔۔۔اور اس سے بھی مہکتی بات کہ عہدے نہیں “عہد وفا” زندہ رہتا اور کسی کو زندہ رکھتا ہے۔۔۔لاہور پریس کلب کی نائب صدارت نے ہاتھ پیر ہی باندھ دیے تھے۔۔۔2024کے پہلے دو مہینے پنجاب کی نگران حکومت کیخلاف نیوز روم کا مقدمہ سڑک پر بھی لڑا اور قلمی محاذ پر بھی۔۔۔۔باقی دس مہینے کچھ لکھا ہی نہیں گیا۔۔۔دس مہینے گویا دس سنگ میل ہی تھے بلکہ کوہ گراں۔۔۔۔اتنے بھاری کہ قلم مہر بہ لب ہو گیا۔۔ قرطاس کے بوسے بھول گیا۔۔۔پھونک پھونک کر چلنا پڑا کہ کہیں سفر رائیگاں نہ جائے۔۔۔۔سوچ سوچ کر لکھنا پڑا کہ کہیں میرے لکھے کی وجہ سے لاہور پریس کلب معتوب نہ ٹھہرے۔۔۔اچھا ہوا کہ یہی میرا مینڈیٹ بھی تھا۔۔۔عہدے سے عہدہ برا ہوتے ہی گویا امان مل گئی۔۔۔الفاظ کو زبان مل گئی۔۔۔ملک میں کہیں پریس کلب کے انتخابات ہو رہے تو کہیں یونین کا چنائو۔۔۔صحافیوں کی سیاست کے ہنگام مجھے لاہور کے وضع دار صحافی قائد جناب راجہ اورنگزیب اور خود دار رہنما جناب خالد چودھری یاد آگئے۔۔۔صحا فتی سیاست میں دونوں ہی کیا اصول پسند آدمی تھے۔۔۔۔میری خوش بختی کہ میں ٹھہرا طفل مکتب اور مجھے دونوں کی مجلس ملی اور خوب ملی۔۔۔سنا نہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ صحبتیں مزاج بدل دیتی ہیں:
پسر نوح با بداں بہ نشست
خاندان نبوتش۔۔۔۔۔ گم شد
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میرا تھوڑا بہت سیاسی مزاج ہے تو ایسے لوگوں کی مجلس کا فیض ہے۔۔۔۔صحافیوں کے امام جناب نثار عثمانی سے فیض یاب پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر جناب راجہ اورنگزیب سے ادب و احترام کا رشتہ تھا۔۔۔میں ان کی مجلس میں اتنا بیٹھا کہ بقول میم سین بٹ کہ ان کی دیکھا دیکھی میرے بال سفید ہو گئے اور میرا شمار بزرگوں میں ہونے لگا۔۔۔۔۔راجہ صاحب بڑے ہی رقیق القلب تھے۔۔۔۔ملک گیر صحافتی یونین فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے شاندار ماضی اور شرمناک حال کا تقابل کرتے تو ان کی آواز رندھ جاتی اور آنکھیں بھیگ جاتیں۔۔۔۔2016میں حج پر جانے سے پہلے انہوں نے لاہور میں ایک زبردست دستخطی مہم چلائی اور فیڈرل یونین کے اتحاد کے لیے جناب رحیم اللہ یوسفزئی اور جناب ضیا الدین کی سربراہی میں قائم کمیٹی کو تجاویز بھی پیش کیں۔۔۔وہ پر امید تھے کہ” پشاور اجتماع” پی ایف یو جے دھڑوں کو متحد کرنے کیلئے سنگ میل ثابت ہوگا مگر واپسی پر یونین میں ایک اور دھڑے کے جنم کا سن کر رنجیدہ ہوگئے۔۔۔میں نے ان کے چہرے پر آنسوئوں کی لکیر دیکھی۔۔۔!!بہر کیف میرا ان سے عہد وفا مرتے دم تک بلکہ بعد از مرگ بھی نہیں ٹوٹا۔۔۔۔۔فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق رہنما جناب خالد چودھری بھی ایسے ہی اصول پسند تھے۔۔۔۔دو ہزار پانچ چھ کی بات ہے۔۔۔روزنامہ آج کل کی اشاعت سے پہلے خبریں میں ہی تھے کہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا ایک الیکشن آگیا۔۔۔مجھے فون کیا اور کہا کہ جناب عارف حمید بھٹی کے ساتھ نائب صدر کے لیے کاغذات جمع کرائو۔۔۔۔۔میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کاغذات جمع کرادیے۔۔۔۔۔۔اگلے دن دفتر پہنچا تو ایک یونین لیڈر ماتم کناں تھے۔۔۔۔۔میں نے کہہ دیا کہ مجھے خالد چودھری نے الیکشن کرنے کا کہا ہے تو ادھر دوڑ لگادی۔۔۔۔چودھری صاحب الیکشن کمیٹی کا بھی حصہ تھے۔۔۔۔دال نہ گلی تو یونین لیڈر نے پتہ کھیلا کہ آپ الیکشن کمیشن میں بھی ہیں اور امیدوار بھی دے دیا۔۔۔چودھری صاحب نے اسی شب مجھے بیڈن روڈ اپنے فلیٹ پر بلایا۔۔۔جناب تنویر عباس نقوی بھی ادھر ہی تھے۔۔۔۔۔چودھری صاحب کہنے لگے کہ آپ واقعی میرے امیدوار ہو اور میں الیکشن کمیشن میں ہوں۔۔۔۔اب آپ کاغذات واپس لے لیں یا میں الیکشن کمیٹی چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔۔میں ان کی دلیل کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے الیکشن سے دستبردار ہو گیا۔۔۔۔دو ہزار نو دس کی بات ہے کہ جناب نجم سیٹھی کی زیر ادارت نکلے روزنامہ آج کل میں ایک شب مجھے انگریزی اخبار کے”اسٹیبلشمنٹ ایڈیٹر” نے کہا کہ آپ سے ایک نشست درکار یے۔۔۔۔۔ہم گلبرگ کے ایک ریستوران میں بیٹھے۔۔۔۔۔۔انہوں نے استفسار کیا کہ اگر خالد چودھری کی جگہ فلاں “دانشور صاحب” کو ایڈیٹر بنا دیا جائے تو۔۔۔۔۔؟میں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ چودھری صاحب کا ایک شاندار صحافتی کیرئیر ہے۔۔۔۔وہ رپورٹر سے ایڈیٹر بنے۔۔۔وہ” ڈیڈ آنسٹ” اخبار نویس ہیں۔۔۔۔وہ میرٹ پر ایڈیٹر ہیں۔۔۔۔بولے “دانشور صاحب”بارے کیا خیال ہے۔۔۔۔۔؟میں نے برجستہ جواب دیا “جسٹ آ وزیٹنگ ہروفیسر”۔۔۔۔وہ مسکرائے اور کہا میرا بھی یہی خیال ہے مگر گورنر سلمان تاثیر کے پی آر او “موصوف” کو مسند ادارت پر “جلوہ افروز” دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔پھر بولے اگر خالد چودھری ایڈیٹر نہ رہے تو ۔۔۔۔؟میں نے کہا ہم لوگ بھی ادھر نہیں رہیں گے۔۔۔۔اگلی شب انہوں نے چیف نیوز ایڈیٹر عامر ندیم سے اسی طرح کی نشست کی اور فیڈ بیک لیا۔۔۔۔۔یوں مائنس چودھری فارمولہ ناکام ٹھہرا اور “دانشور صاحب” کی شیروانی ہینگر پر لٹکی رہ گئی۔۔۔۔سلمان تاثیر کے قتل بعد اخبار ہچکیاں لینے لگا۔۔۔ایک شب دفتر پہنچا تو نیوزروم کے دروازے پر وہی “اسٹیبلشمنٹ ایڈیٹر” ملے۔۔۔کہنے لگے ایک دن ہم لوگوں نے ہی ایڈیٹر بننا ہے۔۔۔۔۔۔۔چانس کبھی کبھی ملتا ہے۔۔۔۔۔۔۔خالد چودھری کے معاملات کافی بگڑ چکے ہیں۔۔۔۔بے رحم چھانٹی ہونے جا رہی ہے۔۔۔۔آپ”ٹیک اوور” کر لیں۔۔۔۔۔میں نے دست بستہ عرض کی حضور والا خالد چودھری تو دور کی بات میں تو جناب طاہر پرویز بٹ اور عامر ندیم کو بائی پاس کرنا بھی” گناہ” سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔کہنے لگے کل تک سوچ لیجیے۔۔۔اگلی شب ملے تو پوچھا کیا سوچا ۔۔۔؟میں نے کہا کل والے بیانیے پر حرف بہ حرف قائم ہوں۔۔۔۔وہ معنی خیز انداز میں مسکرائے اور کہا پھر آپ کی مرضی۔۔۔۔پھر اگلےدن شام سے پہلے کچھ” وعدہ معاف گواہوں” کے سوا خالد چودھری کی پوری ٹیم کی چھٹی ہو گئی۔۔۔بہر کیف خالد چودھری صاحب سے بھی عہد وفا زندگی بھر بلکہ بعد از مرگ بھی نہیں ٹوٹا۔۔۔۔۔چودھری صاحب کے باب میں مجھے جناب تاثیر مصطفے سے ایک “یادگار مکالمہ”بھی یاد آگیا۔۔۔۔کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ میں جناب خالد چودھری اور برادرم فواد بشارت کے ساتھ گاڑی میں کہیں سے آرہا تھا۔۔۔۔۔۔انہوں نے مجھے لاہور پریس کلب کے ساتھ متصل مسجد کے پاس اتارا۔۔۔۔۔گاڑی سے اترتے ہی مجھے نیک نام اخبار نویس جناب تاثیر مصطفی صاحب مل گئے۔۔۔۔۔وہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھ کر آرہے تھے۔۔۔۔۔۔میں نے انہیں سلام کیا تو وہ مسکرا دیے اور بولے آپ کو خالد چودھری صاحب ساتھ دیکھ کر مجھے شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری کے فرزند ارجمند مولانا عبید اللہ انور یاد آجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔میں نے کہا سر میری کیا اوقات اور میرا ان سے کیا تقابل؟؟وہ بولے مولانا عبید اللہ انور کے ایک طرف دائیں بازو اور دوسری جانب بائیں بازو والے ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔آپ کا بھی “وہی حال” ہے۔۔۔۔۔میں نے قہقہہ لگایا اور کہا سر یہ تو میری خوش بختی ہے کہ ہر دو مکتب ہائے فکر کے دوست مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں بھی ان کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں۔۔۔۔میرے نزدیک دایاں بایاں نہیں۔۔۔۔اچھا انسان ہونا اہم ہے۔۔۔اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے فائدے کا سوچے۔۔میں نے اسی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ اختلاف یا اختلاف رائے کیا۔۔مثال کے طور پر خالد چودھری کو ہی لے لیجیے کہ وہ لاہور کے ایماندار ترین اخبار نویس تھے۔۔راجہ اورنگزیب پریس کلب کے ملازمین تک کا خیال رکھتے۔۔اور تنویر عباس نقوی اپنا خسارہ کرکے دوسروں کو فایدہ پہنچاتے۔۔لاہور کے بہترین ایڈیٹر جناب طاہر پرویز بٹ ۔۔۔جناب عظیم نذیر۔۔۔جناب نوید چودھری۔۔۔علی احمد ڈھلوں اور امجد اقبال بھی اس سکول آف تھاٹ کے لوگ ہیں۔۔۔اسی طرح برادرم معظم فخر اور جناب اشرف سہیل کا بھی یہی قبیلہ ہے۔۔ یہی حال خود جناب تاثیر مصطفے اور دستور کے نام سے مشہور ان کے حلقہ صحافت کا ہے۔۔ایک سے بڑھ کر ایک نیک نام۔۔جناب سعید آسی ۔۔جناب اسرار ںخاری۔۔جناب حامد ریاض ڈوگر۔۔استاد گرامی قدر جناب عابد تہامی صحافت کے افق پر یہ وہ قابل رشک لوگ ہیں جن کی امانت اور دیانت کی گواہی آنکھیں بند کرکے دی جا سکتی ہے۔۔۔۔جناب تاثیر مصطفے بھی چلے گئے مگر میرے لیے شاہ جی کے الفاظ سند رہیں گے۔۔۔تاثیر صاحب سے بھی “عہد عقیدت”کبھی نہیں ٹوٹے گا کہ عہدے نہیں عہد وفا ہی انسان کو زندہ رکھتا ہے۔!!!(امجد عثمانی)