تحریر: انصار عباسی۔۔
الیکشن کب ہوں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر ایک کا اپنا اپنا ہے۔ لیکن میں الیکشن اسی سال اکتوبر، نومبر میں دیکھ رہا ہوں۔ جب عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو میں اُس کے خلاف تھا اور اس کی وجہ میں نے بار ہا بیان کی کہ اگر نواز شریف کو غلط طریقے سے نکالا جانا غلط تھا تو عمران خان کو غلط طریقے سے نکالا جانے کیسے درست ہو سکتا ہے۔؟ میں نے فروری کے مہینے میں اپنے ایک کالم میں یہ لکھا تھا کہ ’’سیاستدان پھر استعمال ہو رہے ہیں؟‘‘ البتہ میں عمران خان کے بیرونی سازش کے بیانیہ سے متفق نہ پہلے تھا اور نہ آج ہوں۔
میری یہ بھی رائے تھی کہ عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے دیں کیوں کہ اگر اُن کو نکالا گیا تو بارہ چودہ سیاسی جماعتوں پر مبنی اتحادی حکومت سیاسی استحکام نہیں دے سکے گی ، حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو جائیں گے اور ہمیں پھر بھی نئے الیکشن کی طرف ہی جانا پڑے گا۔جب موجودہ حکومت قائم ہو گئی اور معاشی مسائل ،جن کی بنیاد عمران خان حکومت نے جاتے جاتے رکھی تھی، سامنے آنا شروع ہو گئے تو میری یہ رائے تھی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے تک اب نئے الیکشن کا فیصلہ نہ کیا جائے تاکہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے بچ جائے۔تاہم میرا ہمیشہ یہی خیال رہا کہ الیکشن اسی سال ہو سکتے ہیں۔ عمران خان تو شروع سے ہی نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ آئی ایم ایف کے معاہدہ کا بھی انتظار نہیں کرنا چاہتے ۔ جبکہ موجودہ حکومت نے معاشی میدان میں مشکل ترین فیصلہ کیے اور اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ الیکشن آئندہ سال اکتوبر میں ہی ہوں گے اور اس سال الیکشن نہیں ہو سکتے۔
پنجاب میں 17 جولائی کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی بڑی کامیابی اور ن لیگ کی بدترین شکست نے سیاسی عدم استحکام کومزید بڑھا دیا جس کا بہت بُرا اثر ملکی معیشت پر پڑا اور ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ روز بروز گرنا شروع ہو گیا اور آج ایک ڈالر 230روپے کا ہو چکاہے ۔ معاشی ماہرین ان حالات سے انتہائی پریشان ہیں جبکہ سیاسی عدم استحکام بھی بڑھتا ہی چلا جا رہا جس میں عدالتی فیصلوں اور اُن سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بھی کافی کردار ہے۔ اسی دوران، میں نے گزشتہ روز ذرائع کے حوالے سے ایک خبر دی کہ اسٹیبلشمنٹ حکومتی اتحاد اور عمران خان کی تحریک انصاف کو ایک ساتھ بٹھا کر سیاسی و معاشی بحران پر فیصلہ کرنے کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے جس کے لیے سوچ بچار ہو رہا ہے۔ یہ خبر دیتے ہوے میں نے یہ رائے بھی دی کہ پاکستان میں اسی سال اکتوبر میں الیکشن ہو سکتے ہیں۔ میری اس خبر پر ہر قسم کے تبصرے ہونا شروع ہو گئے۔ کچھ صحافی دوستوں نے فوج کے ترجمان کے حوالے سے میری خبر کی تردید کرنے کی کوشش بھی کی لیکن میں اپنی خبر پر کل بھی قائم تھا اور آج بھی قائم ہوں۔
میرے اس خبربریک کرنے سے پہلے ن لیگ کے طلال چوہدری نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر یہ کہا کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو جلد الیکشن کی طرف مت دھکیلا جائے ۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاستدانوں کو سیاسی فیصلے کرنے دیں۔ میری خبر طلال چوہدری کی پریس کانفرنس کے بعد بریک ہوئی اور میں اب بھی سوچ رہا ہوں کہ طلال چوہدری کی اس پریس کانفرنس کا بیک گراونڈ کیاہے۔ آیا جو میری خبر تھی اُس کے بارے میں حکومت کو پہلے سے کوئی اطلاع تھی؟
بہرحال حکومت اور اس کے اتحادی کہتے ہیں کہ اُنہیں کسی صورت اس سال الیکشن قبول نہیں اور یہ کہ وہ آئندہ سال اکتوبر میں ہی الیکشن کروائیں گے۔ عمران خان اسی سال الیکشن کروانے کے مطالبے پر ڈٹے ہوے ہیں۔ اب اسٹیبلشمنٹ کیا کرے گی، حکومت و اپوزیشن کی سیاسی حکمت عملی کیا ہو گی یہ تو آنے والے دنوں اور ہفتوں میں واضح ہو جائے گا لیکن میں آج بھی اسی سال اکتوبر نومبر میں الیکشن دیکھ رہا ہوں اوراس کی بڑی وجہ معاشی عدم استحکام ہے۔ پنجاب اسمبلی کے حالیہ ضمنی الیکشن کے بعد عمران خان کی سیاست نے بہت طاقت حاصل کر لی لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان کی معیشت پر پڑ رہا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ میں کیوں سمجھتا ہوں کہ الیکشن اکتوبر نومبر میں ہو سکتے ہیں۔؟ پہلے تویہ کہ پنجاب کے الیکشن نتائج کے بعد ویسے ہی حکمراں اتحادی جماعتوں کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا کہ وہ حکومت چلاتی رہیں۔
اس صورتحال میں ویسے ہی ملک کو نئے الیکشن کی طرف جانا چاہئے تاکہ سیاسی و معاشی استحکام حاصل ہو سکے۔ لیکن سب سے اہم بات جو اس سال اکتوبر نومبر میں الیکشن کے انعقاد کی وجہ بن سکتی ہے وہ خراب معیشت ہے۔ میری ذاتی رائے میں معیشت کی خرابی کا تسلسل فوری الیکشن کا سبب بنے گا، جسے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہاں اگر اتحادی حکومت اس سال الیکشن کو روکنا چاہتی ہے تو پھر اُسے معیشت کو ہر حال میں سنبھالا دینا پڑے گا، روپے کی ڈالر کے مقابلہ میں گراوٹ کو روکنا اور اُسے ریورس کرنا پڑے گا۔
ورنہ مہنگائی کے طوفان کے ساتھ معاشی بحران اتنا سنگین ہو سکتا ہے کہ پھر اسے کوئی بھی نہیں سنبھال سکے گا۔ ویسے اگر حکومت اور اپوزیشن کو واقعی پاکستان کا خیال ہے تو اپنے اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر پاکستان کی معیشت کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے ایک ساتھ بیٹھ جائیں۔ یہ مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔(بشکریہ جنگ)