تحریر: زکریامحی الدین
(میر ابراہیم پر لکھے گئے شخصی خاکے کے بعد مجھے بہت فون آئے۔ کسی نے کہا کہ مجھے جیو میں نوکری چاہئے کسی نے کہا کہ میرا کوئی مفاد وابستہ ہے جس کی جیسی سمجھ ۔میڈیا میں اور وہ بھی ملک کے سب سے بڑے سمجھے جانے والے چینل میں ،میں نے ایک دھماکہ خیز دور گزارا ہے۔ اب تو ٹی وی چینلوں کی حالات بری اور عزت دو ٹکے کی بھی نہیں مگر جس زمانے کی میں بات کررہا ہوں اس وقت میڈیا کی خاصی عزت اور ملک میں بہت کچھ ہو رہا تھا ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیونکہ میں نے بہت سارے ایسے لوگوں کے ساتھ قریبی کام کیا ہے تو کیوں نا ان کے شخصی خاکے لکھے جائیں ؟ یہ اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے)۔۔
شاداب بہت خبیث آدمی ہے۔ خبیث اس لئے نہیں کہ وہ کسی کو نقصان پہنچاتا ہے یا کوئی دفتری سیاست کرتا ہے ۔ خبیث اس لئے کہ اس میں سے شہد ٹپکتا ہے۔ گاڑھا اور میٹھا ۔ اب آدمی کیا کرے علاوہ اس شہد میں لتھڑ جانے کے علاوہ؟؟؟ یہ محبت کا شہد ہے جس کا چھتا شاداب طیب ہے۔ شاداب سے میری ملاقات جیو میں میرے پہلے دن ہی ہو گئی تھی۔ ہم ایک ہی شعبہ میں تھے۔ شاداب آپریشن دیکھتا تھا ۔ چھوٹا قد ، گول مٹول خاص طور پر اس کے گال جو ٹیوب لائیٹ کے نیچے چمکتے تھے۔ مجھے وہ پہلی نظر میں بہت اچھا انسان لگا کیونکہ وہ میری غصے کی حالت میں مجھے سائڈ پر لے کر سمجھاتا تھا ۔ یہ اس کی ایمانداری کی دلیل تھی کیونکہ اسے کیا پڑی تھی کہ میں جو پہلے دن سے اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے چکر میں تھا کو سمجھاتا پھرے۔ پھر شاداب نے یہ کردار اپنے ذمہ لے لیا ۔ میں جانتا ہوں کہ کئی دفعہ نا صرف مالک نے بلکہ کئی سینئر لوگوں نے بھی مجھے قابو کرنے کی ذمہ داری شاداب کو دے دی تھی۔یہ میری نہیں شاداب کی بڑائی ہے۔۔۔میری تو برائی تھی۔
شاداب آپریشن دیکھتا تھا اور انتھک محنت کرتا تھا ۔ اس کے پاس پٹاری میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہوتا تھا ۔ پھر مجھے اس کی عادت ہو گئی ۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ میں تپا ہوا شاداب کو ڈھونڈھتا ہوا اس تک پہنچا اور کہا ۔۔۔او یار۔۔۔شدوبھائی۔۔۔اس سے آگے شاداب سنبھال لیتا تھا ۔۔ابے آرام سے بیٹھ جا ۔۔کیا ہوا ؟ کے بعد گفتگو شریفانہ حدود میں آجاتی تھی۔ ہمارا شعبہ توڑ دیا گیا ۔ میں ، شاداب اور بدر اپنے اپنے شعبوں کے سربراہ بنا دئے گئے۔ مگر او یار شدو بھائی۔۔۔کبھی ختم نہیں ہوا ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک معروف صاحب کو جیو انٹر ٹینمنٹ کا ایم ڈی بنا کر لایا گیا ۔ ان کی شہرت کچھ خراب سی سنی گئی ۔ ایک انتہائی اہم شعبہ کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے مجھے بلایا ۔ ابھی میں سیٹ سے اٹھا ہی تھا کہ شاداب کا فون انٹر کام پر آیا۔۔۔مجھ سے مل کر جانا ان کے پاس۔ میں تھوڑا تزبزب کا شکار ہوگیا کہ وہ بھی بلا رہے ہیں یہ کہ رہا ہے کہ مجھ سے مل کر جانا ۔ مگر میں نے شاداب پر بھروسہ کیا ۔ اور اس نے ایک ہی جملہ بولا ۔۔۔اپنا سر فریج میں دے دے۔ اس ایک جملے نے اس میٹنگ کا جو میری ایم ڈی صاحب سے ہونی تھی کا رخ بدل دیا ۔ میں نے واقعی سر فریج میں دے دیا ۔
شاداب کے شعبے میں کئی ایسے افراد کو میں جانتا ہوں جن پر شاداب کے احسان ہیں ۔ مگر یہ سب احسان فراموش ہیں ۔ کیونکہ جیو سے نکالے جانے کے بعد ان سے ایک صاحب سے میں رابطہ میں رہا ۔ ان کو شاداب نے اپنے گھر میں رکھا تھا جب یہ کچھ مسائل کا شکار تھے۔ان صاحب کے منہ سے شاداب کے لئے علاوہ غلاظت کے بعد ازاں کچھ نہیں نکلا ۔ ہر شخص اپنے گھر کا پتا خود دیتا ہے۔
جیو سیاست کا اکھاڑہ تھا ۔ اب کا پتا نہیں ۔ مگر میں ایمانداری سے بتا رہا ہوں کہ نا شاداب سے میرا کوئی مفاد وابستہ ہے میں نے اسے کبھی اس قسم کی تگڑم بازی میں ملوث نہیں پایا ۔یہ ایک جانب ہو کر کام کرنے کا عادی تھا ۔ ایک قلعہ تھا جس پر اس کی توپیں نصب تھیں جو حملہ کی صورت میں گولہ باری کرتی تھیں ۔ اس قلعہ کی فصیل سے گزرنے کی اجازت کم ہی لوگوں کو تھی اور ان میں سے سب سے اہم آدمی نے میری معلومات کے مطابق ۔۔۔قلعہ میں سرنگ ہی لگانے کی کوشش کی ہے۔ جیو سے الگ ہونے کے بعد مجھے ذاتی حیثیت میں سب سے زیادہ تکلیف شاداب سے بچھڑنا تھا ۔ مجھے اس کی عادت سی ہوگئی تھی مگر خیر ہر چیز کا ایک اختتام ہوتا ہے۔ اب تعلق بس کبھی کبھی کے واٹس ایپ یا کبھی کبھی کی مختصر سی فون پر گفتگو رہ گئی ہے۔ میں بھی میڈیا سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔اور سچ تو یہ ہے کہ میری شہر گیر شہرت کی وجہ سے مجھے کوئی بلاتا ہے نی کوئی میڈیا والا پوچھتا ہے ۔۔علی عمران کو پتا نہیں کیا غلط فہمی ہے میرے بارے میں وہ میرا لکھا لگا دیتا ہے۔
شاداب طیب اب جیو کے ایک چینل کا سربراہ ہے۔۔۔ایم ڈی۔۔مگر آج بھی جب میں اسے فون کرتا ہو اور تکلف سے اسے مخاطب کرتا ہو شاداب صاحب کہ کر ۔۔۔شدو اگلے سیکنڈ اپنی اسی ٹون میں آجاتا ہے۔۔جو مجھے یاد بھی ہے اور پتا بھی۔ خوش رہو شدو بھائی ۔۔۔تم ان چند انگلیوں پر گنے جانے والے لوگوں میں سے ایک ہو ۔۔جن سے میں پیار کرتا ہوں۔۔۔۔(زکریا محی الدین)