تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
یہ طے ہے کہ عمران خان ہر قیمت پر نومبر سے پہلے دوبارہ وزیراعظم ہاؤس پہنچنا چاہتے ہیں۔ان کے لیے یہ ایشو اب سیاسی زندگی موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ نومبر سے پہلے دوبارہ وزیر اعظم نہیں بنتے تو پھر وہ 2023ء کا الیکشن شاید نہ جیت پائیں اور پھر انہیں 2028ء تک انتظار کرنا پڑے گا اور کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ ان پانچ برسوں میں تحریک انصاف کے ساتھ کیا ہو اور حالات کہاں جا پہنچیں۔
دوہزاراٹھائیس سے یاد آیا کہ ہمارے دوست زلفی بخاری، علی زیدی اور چند دیگر وزرا اکثر یہ بات کہتے پائے جاتے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت مسلسل ددوہزاراٹھائیس تک اقتدار میں رہے گی۔ ایک صاحب نے تو ایک سال پہلے ماریہ میمن کے شو میں بڑا قہقہہ لگا کر کہا تھا کہ دیکھتے جائیں‘ ہم یہ پانچ سال بھی پورے کریں گے اور اگلے پانچ سال بھی ہمارے۔ آج وہی صاحب غائب ہیں۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ان کا متبادل کسی کے پاس نہیں ہے‘ لہٰذا وہی وزیر اعظم رہیں گے۔ اب ان کی جگہ ایک اور وزیر اعظم ان کی کرسی پر بیٹھا ہے اور خان صاحب خود سڑک پر پہنچ چکے ہیں۔
سیاست کھیل ہے انتظار کا۔ اس کا کہ آپ کتنا لمبا انتظار کر سکتے ہیں۔ عمران خان نے بائیس برس انتظار کیا اور صلہ پا لیا‘ لیکن حکومت چلانے کیلئے نہ ان کے پاس ٹیم تھی نہ تجربہ۔ کوئی ایک بھی ٹھنڈے دماغ کا بندہ ان کے قریب نہ تھا جو ایک فاسٹ باؤلر کو ٹھنڈا رکھتا کہ سیاست کوئی فاسٹ باؤلنگ نہیں کہ ایک بال پر چھکا لگ گیا تو اگلی بال پر باؤنسر دے مارو۔
عمران خان نے شروع سے ہی سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی پارلیمنٹ کو سیریس نہ لیا‘ جہاں سے وہ بہت سیکھ سکتے تھے۔ خود کئی دفعہ صحافیوں کے سامنے تسلیم کیاکہ ان کی ناتجربہ کاری کا انہیں نقصان ہوا۔ مان لیتے ہیں کہ انسان سب کچھ نہیں جانتا ہوتا اور وقت کے ساتھ سیکھتا چلا جاتا ہے‘ مگر ہمارے ہاں سیکھنے کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ کرپشن اور دونمبری ہمیں خود پسند ہے۔ ہم وہاں کرپشن یا دونمبری کو ناپسند کرتے ہیں جہاں بندہ ایسا ہو جسے ہم پسند نہ کرتے ہوں۔ وہی بات کہ لٹیرا مرضی کا ہو۔
عمران خان کو وزیر اعظم بننے سے پہلے اور بننے کے بعد بڑے قریب سے دیکھا۔ دونوں میں بہت فرق تھا۔ اپوزیشن کے دنوں کا عمران خان مشکل سے مشکل سوال تحمل سے سننے والا تھا۔ کبھی جارحانہ انداز نہ اپنایا‘ لیکن وزیر اعظم بن کر وہ سوال کرنے والے سے ناراض ہوتے تھے۔ وہ بہت کچھ کر سکتے تھے لیکن نہ بیوروکریسی کی ٹیم سلیکٹ کر سکے نہ سیاسی ٹیم بنا سکے۔ پنجاب میں جس طرح آئی جی اور چیف سیکرٹری لیول کے عہدیدار مسلسل ٹرانسفر کئے گئے وہ اپنی جگہ ایسا کام ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ عمران خان کو پہلے دن سے ہی سیاسی اور پارلیمنٹ کے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنے چاہئیں تھے‘ لیکن وہ سیاسی ایشوز اور معاملات کسی اور پر چھوڑ کر آرام سے مزے لے رہے تھے۔ تین سال تک طاقتور لوگ ہی ان کے سیاسی ایشوز سنبھالتے رہے اور ان کی ملاقاتیں اپوزیشن لیڈروں سے ہوتی رہیں۔ یوں ان طاقتور لوگوں اور عمران خان کی اپوزیشن کے درمیان ایک انڈرسٹینڈنگ ڈویلپ ہوتی چلی گئی اور وہ ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے۔ جب مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ درپیش تھا تو ان کے براہ راست رابطے ہوئے تاکہ ووٹ لیے جا سکیں اور ہاؤس کے اندر ترمیم کروائی جا سکے۔ اب سوچئے کہ آپ کسی جیل میں بیٹھے بندے کے پاس ووٹ مانگنے جائیں تو وہ جواباً آپ سے کیا مانگے گا؟ ظاہر ہے رہائی مانگے گا اور وہی کچھ ہوا کہ مبینہ طور پر نواز شریف کو بدلے میں لندن بھیجا گیا اور اس پورے عمل کی منظوری خان صاحب نے خود دی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن نے ان کے خلاف سازش کی۔ یہ کیسے نہ ہوتا جب آپ نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے راستہ دیا کہ جیل میں قید نواز شریف سے مل کر انہیں منا لیں۔ اگر آپ نے پاورز استعمال کرنی تھیں تو اس وقت کرتے‘ سٹینڈ لیتے۔
عمران خان کا اس بات پر فخر کرنا اور ان کے حامیوں کا نعرے مارنا کہ سب خان کے خلاف ہیں اور وہ کوئی غیرمعمولی کام کررہے ہیں، درست نہیں۔ آپ جتنے بھی عوام میں مقبول ہو جائیں ریاستی اداروں کے خلاف چل کر وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ ایک اچھا سیاستدان بڑی سمجھداری سے اپنی سیاسی لڑائی چنتا ہے کہ کس سے لڑنا ہے اور کس کے تیز بال کو Well left کرکے وکٹ کیپر کے پاس جانے دینا ہے۔ ہر بال پر شاٹ نہیں کھیلا جاتا‘ لیکن عمران خان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر بال کھیلنے والی ہوتی ہے اور یوں وہ آخری بال تک لڑنے کا نعرہ لگاتے رہے اور خود کو وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ سے باہر نکلوا بیٹھے۔ مان لیا کہ وہ ہزاروں لاکھوں افراد کو اسلام آباد لے آئیں گے اور ہو سکتا ہے وہ کئی ماہ دھرنا دے کر بیٹھے رہیں‘ لیکن کچھ بھی نہ ہوا تو پھر کیا کریں گے؟ مطلب الیکشن نہ ہوئے‘ جو آپ چاہتے ہیں‘ تو پھر آپ کیا کریں گے؟ اگر دیکھا جائے تو 2014ء والے دھرنے میں طاہرالقادری صاحب کی ورک فورس کے علاوہ بھی بہت کچھ ان کے حق میں تھا‘ بلکہ کہا جاتا ہے کہ ایک اہم شخصیت کو باقاعدہ وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ لینے بھی بھیجا گیا تھا۔
وہ 126 دن اسلام آباد بیٹھے رہے لیکن حکومت کو مجبور نہ کر سکے کہ وہ نئے الیکشن کروائے۔ انہیں پھر بھی پورے چار سال انتظار کرنا پڑا۔ اب جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ امریکہ ان کے خلاف ہے، یورپ خلاف ہے، برطانیہ خلاف ہے، الیکشن کمیشن خلاف ہے، میڈیا خلاف ہے‘ کچھ اہم ادارے ان سے خوش نہیںتو ایسے میں وہ کیسے حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں کہ انہیں اکیلے اہمیت دے کہ ان کی فرمائش پر نئے الیکشن کرا کے انہیں نومبر سے پہلے وزیر اعظم بنوا دے؟
وہ سمجھتے ہیں کہ صرف عوام ہی ان کے ساتھ ہیں‘ لیکن کیا اکیلے عوام کچھ کر سکیں گے؟ جی بالکل عوام کر سکتے ہیں۔ اگر وہ اسلام آباد میں کئی ماہ تک بیٹھ جائیں‘ تو حکومت مجبور ہو گی کہ وہ ان کی بات سنے‘ لیکن اگر حکومت 2014ء والی پالیسی اپناتی ہے کہ عمران خان اور ان کے حامیوں کو بیٹھا رہنے دو‘ کسی کو کچھ نہ کہو اور انہیں اگلے سال الیکشن تک تھکنے دو تو پھر خان صاحب اور ان کے حامی کیا کریں گے؟ عوام کے پاس دو ہی آپشن ہوں گے کہ وہ احتجاج ریکارڈ کروا کے گھروں کو لوٹ جائیں اور اگلے الیکشن کی تیاری کریں یا پھر ہنگامے‘ توڑ پھوڑ شروع کر دیں‘ شہر بلاک ہو جائیں اور حکومت مجبور ہو جائے کہ الیکشن کروائے اور نومبر سے پہلے عمران خان وزیر اعظم ہوں اور نیا چیف لگائیں۔ اب یہاں پر عمران خان کی سمجھداری کا امتحان ہو گا کہ اگر انہیں اس سال نومبر سے پہلے مرضی کا الیکشن نہیں ملتا تو پھر وہ اگلے الیکشن کا انتظار کرتے ہیں یا ہنگاموں کا آپشن لیتے ہیں۔
اس سارے عمل میں یہ بھی نہ بھولیں کہ ہجوم کو سنبھالنے کے لیے پولیس اور دیگر ادارے موجود ہوں گے۔ پچھلی بار ہدایت تھی کہ طاہرالقادری اور عمران خان کے شرکا پر لاٹھی چارج نہ کیا جائے‘ آنسو گیس نہ پھینکی جائے۔ اس بار تو ایسی سہولت ملنے کے امکانات نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کے حامیوں اور پولیس میں ٹکرائو ہو گا جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ ہو سکتا ہے عمران خان کی مقبولیت بڑھتی جائے لیکن یہ اکیلی مقبولیت انہیں وزیر اعظم ہاؤس تک نہیں لے جا سکتی۔ عمران خان نومبر سے پہلے وزیر اعظم ہاؤس پہنچنا چاہتے ہیں‘ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں وزیر اعظم ہاؤس سے نکالا ہی شاید اسی نومبر کی وجہ سے گیا تھا۔ بھلا وہ لوگ جنہوں نے نومبر کی وجہ سے نکالا وہ آپ کو نومبر سے پہلے واپس آنے دیں گے؟(بشکریہ دنیانیوز)۔