تحریر: رحمت اللہ میمن۔۔
نوشھرو فیروز پریس کلب جس کا بانی میں ھوں ۔میں نے اس کلب کو بنانے کے لئے اپنا خون پسینا جلایا أج جس حالت میں ھے دل بھت اداس ھے مجھے افسوس ھے کے دو ٹکے کے عھدے کے لئے اس عوام کے ادارے کو اس طرح بدنام اور ناکارہ بنایا جا رھا ھے معاملہ کیا ھے کس نے شروع کیا کس کس کا قصور ھے کون صحیح کون غلط ھے اس بحث میں پڑنے سے بھتر ھے ھم پریس کلب کو پریس کلب سمجھیں یے کسی کی ذاتی ملکیت یا جائداد نھیں کوئی بھی شخص یا گروھ کسی بھی بہانے سے اس کلب کو اس طرح استعمال کرنے کا حق نھیں رکھتا کیا ھوا کے اگر کوئی پریس کلب میں أکر اپنی پروفیشنل ڈیوٹی سرانجام دے کیا ھوگا کہ اگر کسی بڑے اخبار کے رپورٹر کو اس وجہ سے ممبرشپ سے محروم کیا جائے کے وہ کسی طرم خان کو ووٹ نہیں دے گا۔
یہ رواج لڑائی جھگڑا قبضہ سب جھالت کے دور کی باتیں ھیں پریس کلب نوشھرو فیروز کا آئین میں نے لکھا تھا اور اس وقت کی جنرل باڈی سے منظور کرایا تھا أج تک وہ أئین چل رھا ھے جس کے تحت ایک اخبار یا ادارے کے دو افراد کو ممبرشپ دی جاتی ھے جس کا تعلق نوشھرو فیروز سے ھو کیونکہ یہ کلب نوشھرو کے صحافیوں کے لئے بنایا گیا ھے ھوا کیا ھے کہ غیر متعلقہ افراد کو پریس کلب کی میمبرشپ ھر گروپ نے اپنی خواھشات کے مطابق دی ھوئی ھے جس میں اپنے دوستوں رشتہ داروں کو ممبر بنایا گیا ھے جن کا کوئی حق نہیں بنتا۔ مگر کئی ایسے ورکنگ جرنلسٹ کو ممبرشپ نہیں دی گئی اگر نوشھرو کے ڈان اخبار جنگ اخبار کے رپورٹر کو پریس کلب کی ممبرشپ نہیں دی جاتی تو کس کا قصور ھے ؟یہ سب سوچنا نوشھرو کے صحافیوں کا کام ھے، میں نے جب سے کراچی میں صحافت شروع کی تو نوشھرو پریس کلب کو ورکنگ جرنلسٹ کی الیکشن کرواکے ان کے حوالے کی جس میں علی محمد چنا اور عثمان خانذادہ شامل تھا اس دور میں بھی کچھ غیر صحافی ممبرشپ کی کوشش کرتے تھے مگر ھم نے نہیں دی مرحوم سمیع الوری جنگ کے رپورٹر تھے وہ کبھی پریس کلب کے ممبر نہیں بنے۔میں نے اسکو ھمیشہ کہا کے أپ ممبر بنیں استاد ھیں سینئر ھیں مگر پریس کلب سے دور رھے مگر ھمیشہ ان کو عزت دی مشورہ لیا اب کیا ھے پریس کلب میں ایسے ایسے لوگ ممبر ھیں جن کا صحافت سے تعلق تو نہیں ھاں مگر صحافیوں سے ضرور ھے پریس کلب نوشہروفیروز کے جتنے بھی گروپ ھیں سب کو صحافت کے لئے کام کرنا چاھئے مجھے بلکل اس بات سے اختلاف ھے کہ پریس کلب کی باڈی دوسال کے لئے مقرر ھو اس بات سے بھی اختلاف ھے کے کلب کی رجسٹریشن لیبر ڈپارٹمینٹ میں ھو پریس کلب خود ایک معتبر ادارہ ھے ذیادہ سے ذیادہ انفرمیشن ڈپارٹمینٹ کی Recognation ھو کیوں کے سرکاری گرانٹس کا سورس انفرمیشن کے معرفت ھوتا ھے جس طرح دو گروپوں کی جانب سے ایک دوسرے کے سر پھاڑے گئے ھیں اس سے تو یہ اپنے ادارے کو اور خراب کر رھے ھیں سال 2025 کے الیکشن کے صاف شفاف ھونے پہ شک کیا جاسکتا ھے اور ایسا ھمیشہ ھوتا ھے کراچی پریس کلب میں بھی ھوتا ھے اسکا ایک طریقہ کار ھے مگر یہ بلکل بھی قابل قبول نہیں کہ کوئی اٹھ کی کلب کا تیا پانچا کردے میں دونوں گروپوں کو دردمندانہ اپیل کرتا ھوں کہ اپنے ادارے کو تباہ نہ کریں ۔اگر پریس کلب سیل ہوگیا تو پھر کیا کریں گے، ایسے حالات پیدا نہ کریں، یہ آپ دونوں گروپس کے رہنماؤں پر منحصر ہے،کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کی روش ختم کریں۔
پریس کلب کو عوام کے مسائل کے لئے أواز اٹھانے کی حد تک محدود رکھیں اس کو عیاشی کا اڈہ مت بنائیں لوٹ مار یا بھتہ خوری کے لئے استعمال کرنے والوں کو اپنی صفوں سے باھر نکالیں میں چالیس سال سے صحافت میں ھوں پریس کلب نوشھرو کے بنیاد میں نے اپنے ھاتھوں سے کھدائی کرکے اس کے بنیادوں میں اپنا خون پسینہ شامل کیا ھے سات سال صدر رھا ابھی ذندہ ھوں اس کلب کے کاغذات میرے نام ھیں اس دور میں قائم مقام چیئرمین ٹائون کمیٹی شبیر خانذادہ تھے ان سے میں نے پلاٹ لیکر اس کلب کی بنیاد رکھی تھی اس وقت کیا حالات تھے کس طرح پلاٹ لیا ایک لمبی داستان ھے اور طویل جدوجھد کے بعد یہ پلاٹ لیا تھا آج جو أپ سب ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھے ھیں اس کے پیچھے طویل کہانی ھے جو کوئی نہیں جانتا میرے کراچی شفٹ ھونے کے بعد میرے نام کی تختی اور تصویر کلب سے ھٹائی گئی میرا کیا قصور تھا؟؟۔ کیامیں اس روئیے کا حقدار تھا نوشھرو پریس کلب کا کردار اور ماضی شاندار رھا ھے نوشھرو کے صحافی اس پے فخر کرسکتے ھیں أپ ایسا کردار ادا کرین کے آنے والی نسلیں آپ کو یاد رکھیں کوئی ایک بھی فرد مجھ پے کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا نوشھرو کا واحد صحافی ھوں جس نے اپنے کئی شاگرد پیدا کئے جو صحافت میں اس وقت بھی بڑے نام ھیں مگر ان کو میرا شاگرد کہلاتے ھوئے شرم أتی ھے ، کیا میں نے ان کے ساتھ کچھ برا کیا تھا۔ میں نے صحافت کی أذادی کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں کیا نوشھرو کےصحافیوں کے سر فخر سے بلند نہیں کئے؟ میں نے جو ان کی کلب کا ایک ادنا کارکن حکومت وقت کی أنکھوں میں أنکھیں ڈال کے بات کرتا تھا وہ سوشل میڈیا کا دور ھوتا تو کلپ وائرل ھوتے کہ کس طرح اس دور میں ضیاء کی سخت ترین مارشل لا کے دور میں عوام کی نمائندگی کی ،کس طرح ایم أر ڈی موومینٹ 1983 اور 1986 کی جمھوریت کی تحریک میں صحافت کی جو أج کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اس دور کے لوگ اگر ذندہ ھیں تو گواھی دینگے مگر چھوڑیں میں مزید کیا کہوں ان دوستوں کے لئے جو احسان فراموشی کرتے ھیں ۔ پاکستان کا صحافت کا سب سے بڑا ایوارڈ اے پی این ایس 1993 میں صدر پاکستان فاروق لغاری سے لیا مگر کوئی دھبہ دامن پہ لگنے نہیں دیا وڈیروں یا سرکاری افسروں کی چمچاگیری صحافت کی توھین سمجھتا ھوں جو یہ سب کرتے ھیں وہ اپنا دوبارہ جائزہ لیں میں کبھی کبھی نوشھرو جاتا ھوں تو دوپل کے لئے کلب جاتا ھوں سکون ملتا ھے چاھے أج کے دوست مجھے نہ جانتے ھوں مگر میں سب کی خبر رکھتا ھوں اب میں پریس کلب کے سارے دعویداروں سے اپیل کرتا ھوں کہ میری اس درخواست کو قبول کریں کہ کلب سے غیر متعلقہ افراد کو نکالیں ایکٹو جرنلسٹ کو ممبرشپ دیں پریس کلب ایک ھی بنائیں سب کو اسپیس دیں لڑائی جھگڑے والی سوچ ختم کریں اس ادارے کو نوشھرو کے عوام کے لئے کھولیں ان کے مسائل حل کریں جتنا ھوسکے مظلوم کی فریاد ایوانوں تک پہنچائیں صحافت کو عوام کی امانت سمجھیں۔(رحمت اللہ میمن)۔۔