تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، ویسے تو ’’نان سینس‘‘ انگریزی کا لفظ ہے جس کا مطلب عام طور پر’’ بکواس‘‘ کے معنوں میں لیا جاتا ہے، ویسے اگر کوئی واہی تباہی باتیں کرے، واہیات، لغویات یا بے ہودہ گوئی کرے تب بھی اسے آپ انگریزی میں نان سینس کہہ سکتے ہیں۔لیکن اگر آپ لاہور میں ہوں تو ’’نان‘‘ کھانے والی ایک قسم کی روٹی کا نام سمجھا جاتا ہے، اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ لاہوریوں میں ’’نان ۔سینس‘‘ زیادہ ہے، گوجرانوالہ بھی کسی سے کم نہیں کیوں کہ وہ تو ہے ہی پہلوانوں کا شہر۔۔ باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔ جس انسان میں ’’نان‘‘ کا بے انتہا ’’سینس‘‘ ہو،اسے نان سینس کہاجاسکتا ہے۔باباجی نے پھر اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور میں نان کی درجنوں اقسام پائی جاتی ہیں،لیکن لاہوری اسی پر لپکتے ہیں جس کا ذائقہ اچھا ہے،اسی لیے لاہوریوں کا ’’نان‘‘ سینس بہترین ہے۔ باباجی کے حساب سے دیکھا جائے تو ملک کا ہر غریب ہی نان سینس ہے کیوں کہ وہ ہمہ وقت نان کے چکر میں رہتا ہے، صبح گھر سے نان کے حصول کے لیے محنت مزدوری کے لیے نکلتا ہے،رات کو گھر واپس لوٹتا ہے، سرائیکی وسیب کے معروف شاعر شاکر شجاع آبادی کا ایک شعر اسی حوالے سے ہے کہ ۔۔۔بہتر حور دے بدلے گزارا ،ہک تے کرگھنسوں۔اکہتر حور دے بدلے اسکوں رج کے روٹی دے۔۔باباجی کے فلسفے کے مطابق، ملک بھر کی شادی شدہ خواتین کو بھی نان سینس کہاجاسکتا ہے کیوں کہ انہیں ہر وقت ’’نان نفقے‘‘ کی پڑی رہتی ہے۔ہم بھی جب تک لاہور میں رہے،نان سینس ہی رہے، کیوںکہ گھر والوں اور احباب کی طرف سے ہر بار فرمائش آتی تھی کہ کراچی واپسی پر نان خطائی ضرور لانا۔۔ ہماری ایک بہت ہی بری عادت ہے، چاول سے ہمارا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، گھنٹہ ڈیڑھ کے بعد پھر بھوک ستانے لگتی ہے۔ اسی لیے بریانی ہویا پلاؤ، جتنا بھی کھاؤ، بھوک پھر بھی ضرور لگتی ہے۔سالن ہو یا قورمہ، ترکاری ہو یا دال، ہمارا پیٹ روٹی ہی سے بھرتا ہے۔ امیر غریب ہرایک کا گزر روٹی پر ہے۔ روٹی اکثر پورے کھانے کی نمائندگی کرتی ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ۔۔ آؤ روٹی کھالو۔۔ یامیں روٹی کھا کر آیا ہوں۔۔ تو اس سے مراد کھاناہی ہوتا ہے۔ہمارے ایک دوست کی ہارڈویئر کی بڑی شاپ ہے، ہم کبھی کبھار وہاں گپ شپ کے لیے بیٹھ جاتے ہیں، وجہ یہ بنتی ہے کہ ہمارا گھر مرکزی بازار سے بہت قریب ہے، اس لیے جب چھٹی ہو،دوست فون کرکے اپنے پاس بلالیتے ہیں۔ ایک روز ہم اپنے دوست کی دکان پر بیٹھے تھے، چائے کادور چل رہا تھا کہ ایک نوجوان فقیر نے صدا لگائی، دکان کے ملازم نے فوری طور پر پانچ کا سکہ اس کی طرف بڑھایا۔ ہم ذرا دور بیٹھے تھے ،اس سے قبل کہ آواز لگاکرمنع کرتے ،ملازم اسے بھیک دے چکاتھا، وہ برابروالی دکان پر چلاگیا، ہم نے ملازم سے کہا،فقیر کو آواز دے کر یہاں بلاؤ۔ جب تک فقیر واپس آتا ہم نے دوست سے درخواست کی کہ ۔۔تجھے ایک ہیلپر کی ضرورت تھی،دکان کے لیے اسے رکھ لے۔۔دوست نے ہامی بھرلی۔فقیر واپس آیاتو۔ہم نے اس سے کہا، نوکری کروگے۔ کہنے لگا، کتنے پیسے دوگے۔ دوست نے اسے پیسے بتائے اور ساتھ ہی آفر کی کہ دوپہر کی روٹی ہماری طرف سے ملے گی۔۔ فقیر نے صاف انکار کردیا۔ ہم نے وجہ جاننی چاہی تو وہ نوجوان فقیر بڑی معصومیت سے کہنے لگا۔ آپ جو پیسے دے رہے ہیں، روٹی دوگے سالن کیا میں روزاپنے پیسوں سے خریدوں گا۔۔ یہ کہہ کر فقیر تو چلا گیا، لیکن ہمارے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر گیا۔۔ سیدھے سادے نان نے بھی وقت کے ساتھ بہت ترقی کی ہے اور آج مختلف قسم کے نان ہمیں میسر ہیں۔ لیکن نان کا پکانا گھروں میں مشکل ہے کیونکہ یہ تندور کی چیز ہے اور تندور میں پکائی جاتی ہے۔عہد مغلیہ کے مرقے الوان نعمت اور نسخ شاہجہانی میں نان بنانے کی مختلف تراکیب کا ذکر ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ نان کی قسمیں پلاؤ کی تراکیب سے کم نہیں۔ مغل شیرینی پسند تھے۔ اس لیے بیشتر نان میٹھے ہوا کرتے تھے۔ میٹھا اور نمکین مزا ایران کے کھانوں کا اصل مزا ہے۔۔کوئٹہ اور پشاور میں تو ’’نان بائی‘‘ بھی ایک ایسا بڑا شعبہ ہے جس سے ہزاروں لوگ منسلک ہیں، آئے دن روٹی کی قیمت میں اضافے کے لیے ہڑتال کی جب خبر پڑھتے ہیں تو نان بائیوں کا ذکر لازمی ملتا ہے۔ایک نان بائی نے ایک وکیل سے پوچھا اگر کسی کا کتا میری روٹیاں کھا جائے تو اس کا ہر جانہ مجھے کیا وصول کرنا چاہیے؟ وکیل نے کہا۔’’دو روپے۔‘‘ نان بائی نے کہا!’’جناب کا کتا ہی آج میری روٹیاں چٹ کر گیا ہے۔ ازراہ کرم دو روپے عنایت فرما دیجئے۔‘‘ وکیل نے کہا۔۔ ’’میرے مشورے کی فیس دس روپے ہے دو روپے تم کاٹ کر بقایا آٹھ روپے مجھے دے دو۔‘‘ ایک خان صاحب لاہور میں ایک ہوٹل میں بیٹھا،کھانا آرڈر کیا،ویٹر آرڈر کیا ہوا کھانا لے آیا،نان کی بجائے چپاتی دیکھ کے خان بھنا کے بولا۔۔یہ کاپی کا صفحہ کس نے پھاڑ کے چنگیر میں رکھ دیا ہے۔ویٹر نے سمجھایا کہ۔۔یہ چپاتی ہے۔خان صاحب بولے۔۔یہ تو ہم سو بھی کھالے تو ہمارا پیٹ نہیں بھرے گا۔ہوٹل منیجریہ تکرار سن رہا تھا،قریب آیا اور بولا۔۔خان سو روٹیاں تو کوئی نہیں کھاسکتا، اگر آپ کھاسکتے ہیں تو آپ کو دس ہزار روپے انعام بھی دیں گے اور کھانے کے پیسے بھی نہیں لیں گے۔۔بس پھر کیا تھا۔۔خان صاحب نے چیلنج کو دل پہ لے لیا، ڈٹ گئے واللہ اب ہم سو روٹی کھاکے دکھائے گا۔۔طے پایاکہ زمین پر لائن لگاکرروٹی کی تعداد لکھی جائے گی۔خان صاحب ایک روٹی کھاتے،زمین پر لائن لگادیتے،ویٹر روٹی لاتا گیا، خان صاحب کھاتے گئے۔۔منیجر نے ویٹر سے پوچھا تو پتہ چلا کہ خان صاحب نوے روٹی کھاچکے ہیں،اب منیجر کو اپنی شرط کی فکر لگ گئی۔ویٹر سے کہا کہ ۔۔روٹی رکھ کر لائن ڈالنے کے بجائے مٹاتے جاؤ، ویٹر نے ایسا ہی کیا۔خان صاحب نے دیکھ لیا، غصے سے کھڑے ہوئے اور دوبارہ سے لائن کھینچ دی، ہوٹل منیجر کو تو موقع مل گیا۔۔اس نے ’’رولہ‘‘ ڈال دیا، خان صاحب تم ایک روٹی کھاکے دو لائنیں ڈال رہے ہو۔۔ خان صاحب نے لاکھ قسمیں کھاکریقین دلانے کی کوشش کی کہ ایسا نہیں ہے، ایک روٹی کھاکے ایک ہی لائن لگائی جارہی ہے، ہوٹل منیجر نہیں مانا۔خان صاحب نے غصے سے ساری لکیریں مٹاتے ہوئے کہا۔۔پھر سے گنتی شروع کرو۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ ایک سچا دوست وہ ہے جو تب آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے جب دوسرے چھوڑ کے جارہے ہوں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔