تحریر: عامر خاکوانی۔۔
ونود مہتا نامور بھارتی صحافی اور مشہور میگزین آئوٹ لک کے بانی ایڈیٹر تھے۔ ان کی خودنوشت ’’لکھنو بوائے ‘‘نے بڑی پزیرائی حاصل کی۔ ونود مہتاکا شمار دلیر، بااصول اورڈٹ جانے والے ایڈیٹروں میں کیا جاتا ہے۔ اپنے چالیس سالہ صحافتی تجربے کی روشنی میں انہوں نے نوجوان صحافیوں کے لئے چند مشورے تحریر کئے ۔
ونود مہتا سوال اٹھاتے ہیں: ’’کیا صحافی کو انقلابی ہونا چاہیے؟ ونود کے خیال میں یہ خیال رومانوی ہونے کے باوجود غیر عملی ہے۔ آپ کسی بڑے کاز کے لئے کام کرنے والے انقلابی ہیں یا کسی خاص ایجنڈے کے بغیر انقلابی مزاج رکھتے ہیں، دونوں صورتوں میں ایسی انقلابی رومانویت سے دور رہیں۔ریڈیکل ازم کا بھی ٹکٹیں جمع کرنے کی طرح خاص وقت اور جگہ ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ نوجوانی میں کسی نے کوئی انقلابی پمفلٹ لکھا ہو، مگر وقت کے ساتھ اسے آگے بڑھ جانا چاہیے ۔ جرنلزم میں ایسے شوریدہ سروں یا سرپھروں کےلئےجگہ نہیں ۔ ایک بات البتہ سمجھناضروری ہے کہ چی گویرا ٹائپ ہٹ اینڈ رن قسم کی صحافت کی ضرورت نہیں ، مگر اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ آپ روایتی گھسی پٹی سوچ کے غلام بن جائیں۔ اہم طاقتور لوگ جب صبح اٹھتے اور اخبار پڑھتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ ان کے موقف کی تصدیق ہو، اسے چیلنج نہیں کیا جائے۔ آپ کو مگر یہ چیلنج کرنا چاہیے ۔ صحافیوں میں بھیڑ چال کا رواج ہے،کوئی ایک کچھ کرے تو سب پیروی کرتے ہیں۔ ایک اچھے صحافی کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس نے کب ان کا حصہ بننا ہے اور کب اکیلا شکار کرنا ہے۔
ونود مہتا آگے چل کر دو ممتاز مغربی لکھاریوں کی کوٹیشن دیتا ہے، پہلی کے مطابق ، جس موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں، اس پر روایتی نقطہ نظر جان لیں اور پھراپنی تحریر میں اس کے خلاف دلائل دیں۔ دوسری کوٹیشن دلچسپ ہے، ’’جب شک میں ہوں تب حملہ آور ہوں۔‘‘ کیا سیاستدان اور صحافی دوست ہوسکتے ہیں؟ونود مہتا کا جواب نفی میں ہے، مگر ان کے مطابق جارج اورویل (اینمل فارم ناول کے مصنف)بننے کی ضرورت نہیں، وہ جب ٹربیون اخبار کے بک ایڈیٹر تھے تو کتاب کی تقریب رونمائی میں شریک نہیں ہوتے تھے کہ مصنف سے ملاقات دیانت دارانہ تبصرے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ ونود مہتا آگے جا کر نکتہ اٹھاتے ہیں کہ سیاستدانوں اور صحافیوں دونوں کا ایجنڈا ایک دوسرے سے نہایت مختلف بلکہ متضاد ہے۔ سیاستدان بیشتر اوقات حقائق یا سچ کو توڑموڑ کر،کچھ خفی کچھ جلی انداز میں پیش کرتے ہیں جبکہ صحافی کا کام ہے جہاں تک ممکن ہو سچ سامنے آئے۔ اس لئے سیاستدانوں سے قربت کے بجائے اہم یہ ہے کہ آپ سچ کے کتنے قریب ہیں؟
کیا ایک صحافی کو اپنا استعفاجیب میں ڈال کر پھرنا چاہیے؟ونود مہتا کے خیال میں یہ بہت مشکل سوال ہے، آپ کی ایک فیملی ہے جس کے اخراجات برداشت کرنے ہیں، گھر کا کرایہ، یوٹیلیٹی بلز، بنک کی قسطیں وغیرہ وغیرہ۔ تاہم ایک دیانت دار صحافی کی زندگی میں کم از کم ایک موقعہ ایسا آتا ہے جب وہ ایسا کرنے کا سوچتا ہے۔ ونود مہتا یہاں پر مشورہ دیتا ہے کہ آپ سب ایڈیٹر، فیچر رائٹر، رپورٹر، فوٹوگرافر ، اسٹنٹ ایڈیٹر یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کو اپنے کام میں بہترین ہونا چاہیے۔ میڈیا کے تمام تر مسائل اور نئے آنے والے بے تحاشا نوجوانوں کے باوجود آج بھی کوالٹی ایک نایاب صفت ہے۔ اپنے آپ کو بہتر کرنے کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ آج بھی میں کوئی اچھی تحریر دیکھوں تو اسے دو بار پڑھتا ہوں۔ پہلی بار اس کی کوالٹی جانچنے جبکہ دوسری بار اس کے انداز تحریر اور مہارت کو بغور دیکھنے کے لئے۔اس لئے یقین رکھیں کہ اگر آپ ایک بہترین صحافی ہیں تو آپ بے روزگار ہوسکتے ہیں، مگر یہ مدت مختصر ہوگی کیونکہ مارکیٹ میں اچھے صحافی کی شہرت بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور کوئی نہ کوئی ضرور آپ کی مہارت سے استفادہ کرنا چاہے گا۔
اگر غلطی ہو جائے تب صحافی کو کیا کرنا چاہیے؟ ونود مہتا کے خیال میں بعض اوقات صحافی خود کو بےعیب اور پرفیکٹ سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس رفتار سے خبریں آتی ہیں، ان پر کام ہوتا،فائنل ٹچ دیا جاتا ہے، اتنے مختصر وقت میں پرفیکٹ کام کرناممکن نہیں۔ اخبار ہے ہی نامکمل، عجلت میں کئے گئے کام کی پراڈکٹ ۔حتیٰ کہ مضامین، تجزیے ، کالم ، اداریے وغیرہ بھی بہت بار نہایت عجلت میں ،ڈیڈ لائن پریشر کے تحت لکھے جاتے ہیں۔ آپ کے پاس مکمل ڈیٹا نہیں، اعداد وشمار چیک کرنے کا وقت نہیں مل پاتا، حتیٰ کہ لفظوں کی املا درست کرنا بھی مسئلہ ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ کرشمہ ہی ہے کہ فائنل پراڈکٹ (اخبار یا ٹی وی نیوزبلیٹن)کا تاثر اتنا برا نہیں ، وہ خاصا موثر ہوتا ہے۔ کوئی صحافی مکمل اور خامیوں سے پاک نہیں، اس حقیقت کو سب سے پہلے ذہن میں لے کر چلیں۔ نیویارک ٹائمز جیسا اخبار جو اپنی خبر کی تحقیق کے لئے کئی مراحل پر مشتمل پراسیس اختیار کرتا ہے، اس نے بھی عراق جنگ کے حوالے سے بالکل غلط اور بے بنیاد معلومات فراہم کیں،۔وہ صدر بش کے وائٹ ہائوس ٹیم کے ہاتھوں استعمال ہوگئے اور اس پر نیویارک ٹائمز کو بعد میں اپنے قارئین سے معذرت کرنا پڑی۔اصول یہ ہے کہ غلطی ہو تو اسے تسلیم کریں۔ چھپانے یا کمزورعذرتراشنے کے بجائے مانیں۔ اپنے قارئین سے واضح الفاظ میں معذرت کریں۔ البتہ صحافی کو غلطیاں دہرانی نہیں چاہیں۔ میرے حساب سے تین سال میں ایک آدھ غلطی کی گنجائش بن سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
صحافی کو اپنی انا کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے؟ ونود مہتا کے خیال میں اسے تالے میں بند کرکے رکھ دینا چاہیے۔ صحافیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غلطیوں کی نشاندہی کریں اور اسے کیسے ٹھیک کیا جائے، اسی وجہ سے کچھ صحافی مستقل قسم کے ناصح بن جاتے ہیں۔ بعض ایڈیٹر سمجھتے ہیں کہ وہ ملک چلارہے ہیں یاقوم کے لئے ایجنڈا سیٹ کر سکتے ہیں۔ ایڈیٹر(اور کالم نگار) بھول جاتے ہیں کہ ان کے دھماکہ خیز ادارئیے اور دھواں دھار کالم زیادہ سے زیادہ تیس منٹ کی زندگی رکھتے ہیں ۔ اس کے بعد اخبارکھڑکیوں کے ٹوٹے شیشوں کو ڈھانپنے کے کام آتے ہیں۔یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ہم صحافیوں کا سماج میں کچھ اثرہے مگر اس سے کہیں کم جتنا ہم تصور کرتے ہیں۔ایک بڑے مغربی صحافی نے کہا تھا ،’’صحافی شراب سے زیادہ خودپسندی کے ہاتھوں برباد ہوتے ہیں۔‘‘ ہم صحافی میچ میں بہترین سیٹ حاصل کرتے ہیں ،یہی کافی ہے، جمہوریت کے کھیل میں ہم کھلاڑی نہیں ، اپنا کردار سمجھ لینا چاہیے ، اسے مکس کرنا مصیبت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔
کیا صحافی کو اپنا سٹائل بہتر کرنے پر وقت اور پیسہ صرف کرنا چاہیے؟ونود مہتا لکھتے ہیں کہ ایسا ضرور کرنا چاہیے ۔آپ کسی بھی زبا ن میں لکھتے ہوں، اس میں مہارت حاصل کرنا لازم ہے۔ ایک زمانے میں سب ایڈیٹر اپنے رپورٹر کی خبر میں اس کے اسلوب کی دلکشی کا جائزہ ضرور لیتے تھے۔ اب حالات بدل گئے ہیں، مگر آج بھی ایک اچھی سٹوری اگر بہترین طریقے سے لکھی گئی ہو تو اس کا تاثر بہت بڑھ جاتا ہے جبکہ ایک بڑی سٹوری کمزور اسلوب کی وجہ سے غیر موثر ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کسی بڑے ناول نگار کا اسلوب اپنا لیں یا بڑی مرصع نثر لکھیں جس میں مشکل مترادفات ہوں۔ نہیں اس کے بجائے مشہور ادیب ہیمنگوئے کے الفاظ یاد رکھیں کہ سیدھے سادے الفاظ ہی بہترین ہوتے ہیں۔ آپ کی زبان سادہ اوردلچسپ ہونی چاہیے۔ خوش ونت سنگھ اس پر خاص توجہ دیتا تھا کہ اس کی تحریر زیادہ سے زیادہ رواں اور قابل مطالعہ ہو۔ اسی وجہ سے خوشونت کو ناپسند کرنے والے بھی اسے پڑھتے ضرور تھے۔ ادب میں ممکن ہے کوئی مشکل اور ثقیل نثر کے باوجوداپنا کام چلا لے، مگر مین سٹریم صحافت میں یہ عیاشی ممکن نہیں۔ لکھنے والے کو اپنے پہلے فقرے سے قاری کو انوالو کر لینا چاہیے۔ اس لئے تحریرکا آغاز بہت توجہ اور محنت سے اچھا بنا کر لکھنا چاہیے۔ اگر اپنے پہلے پیرے میں قاری کو گنوا بیٹھے تو سب کچھ ضائع ہوگیا۔ ونود مہتا نے معروف برطانوی صحافی، مصنف جارج اورویل کا دلچسپ اقتباس نقل کیا، اورویل لکھتے ہیں ’’ دو باتیں ایسی ہیں جو کسی لکھنے والے کے لئے قاتل ہیں۔ کٹر روایتی پن لکھنے والے کے لئے تباہ کن ہے، چاہے رائٹ ونگ یا لیفٹ ونگ دونوں انتہائوں کا سخت روایتی پن تحریر کو بے رنگ اور بے کشش، مصنوعی بنا دیتا ہے۔تحریر کی دوسری سب سے بڑی خامی اس میں دیانت داری کا فقدان ہے۔اگر کسی کی اصل سوچ اور جس کا وہ پرچار کرنے لگا ہے، اس میں فرق ہے تب مصنف اپنی تحریر میں گھسی پٹی اصطلاحات اور بلند بانگ الفاظ استعمال کر کے اسے مصنوعی بنا دے گا۔جیسے کسی کتاب پر فرمائشی تبصرہ یا کالم لکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، ایسی تحریر کمزور ہی ہوتی ہے۔ ونود مہتا کے مطابق اچھا لکھنا کسی سکول میں نہیں سیکھا جا سکتا، بہت بار اپنے وجدان پر بھروسا کرنا پڑتا ہے، تاہم جارج اورویل نے لکھنے والے کے لئے چند اصول وضع کئے، ان میں سے سب سے اہم یہ کہ اگر آپ کے پاس اپنی بات کہنے کے لئے مختصر جملہ ہے تو اس کی جگہ کبھی طویل جملہ استعمال نہ کریں۔لکھنے کے بعد اگر کسی لفظ کو کاٹا جا سکتا ہے تو اسے ضرور کاٹ دیں۔ پامال الفاظ اور جملے استعمال نہ کریں۔(بشکریہ نائنٹی ٹو)۔۔