تحریر: فواد رضا۔۔
اٹھو یا قتل ہو۔۔۔فیصلہ تمھارا ہے۔۔سنا ہے کہ زاہد علی نام کا یہ جوان ہم نیوز کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گیا۔۔راوی کہتا ہے کہ انتظامیہ نے حکم دیا کہ یا تو نوکری چھوڑدو یا اسلام آباد منتقل ہو، تیس ہزار تنخواہ تھی، اس میں کراچی میں اپنے گھر میں گزارا محال ہے کجا اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں جاکر رہنا۔ہم نیوز نے وعدہ کیا تھا کہ اسلام آباد جانے والوں کی تنخواہیں بڑھائیں گے۔بیچارا اسی امید پر چلا آیا پر میڈیا مالکان کا وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔تیس ہزار کی قلیل تنخواہ میں اسلام آباد میں رہنااور کراچی میں دو بچے پالنا مذاق ہے کیا؟
لیکن شاید میڈیا مالکان کے لیے یہ سب مذاق ہی ہے۔ سو دباؤ سہتا رہا اور اس سحر کا انتظار کرتا رہا جب تنخواہ بڑھے۔انتظار طویل ہوا اور دل میں ضبط کا یارا نہیں رہا۔۔ ڈاکٹر نے لکھا کہ حرکتِ قلب رک جانے کے سبب موت ہوئی لیکن میں لکھ رہا ہوں کہ اس شخص کا قاتل اس کا ادارہ ہے۔لیکن مجھے شکایت اس ادارے سے نہیں کہ میڈیا کہ تمام اداروں پر میں کئی سال پہلے لخ دی لعنت بھیج چکا۔مجھے شکایت زاہد علی اور اس جیسے دیگر جوانوں سے ہے، نوکری جانے کا خوف اسے ہونا چاہیے جس کی تنخواہ لاکھوں میں ہے۔
کراچی شہر میں میٹرک فیل سمجھ دار نوجوان پچاس سے ساٹھ ہزار روپے ایمانداری سے کما کر اپنے گھر چلا رہے ہیں۔ تمھیں کیوں میڈیا میں رہنے کا آسیب چڑھا ہوا ہے۔۔جو ابھی یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں، اور بیس پچیس ہزار پر کام کررہے ہیں، ان سے گزارش ہے میڈیا میں کچھ نہیں رکھا، اپنی ڈگری کسی الماری میں بند کردو، سیلز کا کام کرلو، بائیکیا چلا لو بھائی، چپس کا ٹھیلا لگا لو۔۔ ایک بار میڈیا کے بجائے کسی اور سمت اپنی توانائی لگا کر تو دیکھو، خدا اگر تمھارے شانہ بشانہ نہ کھڑا ہو تو میرا گریبان پکڑ لینا۔
بس خوف کا بت تم لوگوں نے خود توڑنا ہے ورنہ یہ بت تمھیں توڑ دے گا۔شرم انہیں بھی آنی چاہیے جو یہ سب لکھنے کے لیے مجھے تو کہتے ہیں لیکن خود لکھنے اور کہنے سے ڈرتے ہیں۔انہیں لگتا ہے کہ میرا اب میڈیا میں کچھ نہیں رکھا تو میں لکھ سکتا ہوں، بھائی جب میرا گھر میڈیا سے چلتا تھا میں تب بھی لکھتا تھا اور نہ صرف لکھتا تھا بلکہ اپنے باسز کے منہ پر کہتا بھی تھا۔رزق کسی باس کے نہیں اللہ کے ہاتھ میں ہے، اگر انسانوں کے ہاتھ میں ہوتا تو میری زبان درازی پر مجھے اور میرےبچوں کو بھوکا ماردیا گیا ہوتا۔ابھی بھی وقت ہے، اٹھو !! اپنی تقدیر خود لکھو ، قبل اس کے کہ کوئی تمھارے لیے ایسی کوئی تحریر لکھے۔ (فواد رضا)