تحریر: محمد نوازطاہر۔۔
دنیا جانی بھی ہے اور فانی بھی، جانی دنیا حسین ہے یا فانی ، یہ فیصلہ رہنے دیتے ہیں ۔ اسی حقیقت کو مانتے ہیں کہ جانی بھی ہے اور فانی بھی ، فنا نے جان کو آن لینا ہے ، ابھی بھی، کبھی بھی ، فلکِ صحافت پر چمکنے والے ستارے ہمارے ساتھی، دوست جان پہچان والے کئی جا گذر گئے جس طرح عید الاضحی کے روز عارف نظامی حکمِ ربی پر لبیکِ اجل کہہ گئے ۔ عارف نظامی کے انتقال کی خبر آج کے دن کی پہلی اور بڑی خبر تھی ، ہر اطلاع ، خبر کا الفاظ اور جذبات میں ایک ردِ عمل ہوتا ہے، اطلاع پاتے ہی الفاظ”نظامی صحافت کا باب بند ہوا“ اُبل پڑے ۔
پاکستان سے چودہ ماہ چھوٹے عارف نظامی صحافت کے شعبے میں بھی ایک طرح کے” چھوٹے پاکستان “تھے ۔ اس کی تصدیق ان کے ساتھ اور سائے میں کام کرنے والے احباب مختلف اوقات میں کرتے رہے ہیں ، کچھ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ،وہ عارف نظامی سے سینئر اور کچھ استاد کا درجہ رکھتے تھے جن میں طارق اسماعیل ( المعروف پا طارق اسماعیل ) اور انور قدوائی قابلِ ذکر ہیں ، جنہوں نے ساتھ کام کیا ان میں ایم اے نیازی ، جمیل انجم مفتی( مرحوم) جلیل الرحمان ،مبشر بخاری ، نئے دور کے لڑکوں میں اقتدار گیلانی ، مبشر حسن شامل ہیں، عامر متین ، رانا جواد ، اشرف میلکم بھی انھی میں شامل ہیں جنھوں نے عارف نظامی کے سائے میں کام سیکھا ، کیا ،کرکے دکھایا اور دکھا رہے ہیں بلکہ آج کے دور کے استاد اور بحیثیت تجزیہ کاررہنما ہیں ، اکتوبر سنہ انیس سو اڑتالیس میں نوائے وقت کے بانی حمید نظامی کے ہاں مستقبل کا روشن خیال صحافی پیدا ہوا، اور آج اکیس جولائی سنہ بیس ہزار اکیس کو ہسپتال میں خالقِ حقیقی سے جاملا، پون صدی کا یہ سفر اگر چہ کسی دشواری اور جدوجہد کا نہیں خوشحالی کا تھا البتہ ساٹھویں دہائی میں انہیں پہلی بار جدوجہد سے حقیقی واسطہ پڑا جس میں انہوں نے سونے کا چمچ لیکر پیدا ہونے والوں کی طرح ہمت ہارنے کے بجائے اپنے اندر کا رپورٹر اور ایڈیٹر بیدار کیا ، جدوجہد کی اور نوائے وقت گروپ سے الگ اسی عمارت میں ’پاکستان ٹوڈے ‘ کا اجراءکیا ۔ ان تمام ساتھیوں کو اپنے ادارے میں لے گئے جن کے بارے میں خیال تھا کہ انہی کی طرح نوائے وقت ، نیشن کی سیڑھیوں سے اتاردیے جائیں گے جیسے انہیں اتارا گیا ، ۔ انتقا ل کی خبر سن کر میرے ذہن کی سکرین پر وہ منظر پھر سے پرانی فلم کی طرح سامنے آگیا جب نوائے وقت کے مال اور عارف نظامی کے حقیقیچچا مجید نظامی ( مرحوم ) نے انہیں نیشن سے سبکدوش کردیا تھا اور وہاں سے شائد گھر نہیں گئے تھے، سیدھے لاہور پریس کلب آگئے تھے ، تب انہی کے شاگرد اور نیشن کے چیف رپورٹر سرمد بشیر پریس کلب کے صدر تھے ، ان کا دکھ اور غم غلط تو نہیں ہوسکا تھا البتہ درد بانٹا ضرور گیا تھا اور وہ کچھ ہلکا محسوس کرنے لگے تھے، وہیں پر انہوں نے اپنا اخبار شروع کرنے کا ابتدائی اعلان بھی کیا اور سرمد بشیر نے انہی ا ساتھ دینے کا وعدہ بھی کیا تھ اور اس پر عمل بھی کیا تھا لیکن بعد میں وہملک چھوڑ کر امریکہ جابسے، مجھے عارف نظامی سے اپنا مکالمہ بھی یاد آگیا ، میں نے انہیں مشورہ بھی دیا اور مختلف اوقات میں ان کے دور میں جمیل انجم مفتی کی طرح ملازمت سے سبکدوش کردئے جانے والے ساتھیوں کی ان کے ادارے سے سیڑھیاں اترنے کی کیفیت بھی یاددلائی ، میں انہیں درخواست کے انداز میں مشورہ دیا تھا کہ اب جبکہ انہیں سیڑھیاں اترنے اور کرب محسوس کرنے کاعملی تجربہ ہوچکا اور درد کا احساس بھی ہوا ہوگا تو جب اپنا ادارے شروع کریں تو کسی کو اجرت کی عدم ادائیگی اور سیڑھیاں اترنے کا کہتے ہوئے اپنا آج کا یہ درد ضرور محسوس کریں ، انہوں نے مسکرا کرخندہ پیشانی سے ”ضرور، ضرور‘ جواب دیا تھا ،یہ الگ بات کہ بعد میں یہ ”ضرور ضرور ‘ بے معنی ثابت ہوا اور ان کا اخبار بھی اب جس پوزیشن پر ہے اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں، اخبار کے لئے درکار سرمایہ موجودہ حالات میں پیدا کرنا آسان نہیں ، ان کے بھی نہیں ہوگا ، لیکن آج داد تو دینا لازم ہے کہ انہوں نے نامساعد مالی حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔
عارف نظامی کے انتقال کی خبر کے ساتھ ان کی موت کا سبب ہارٹ اٹیک لکھا تھا کچھ احباب کا خیال ہے کہ انہیں کینسر تھا، مرض جوبھی تھا درد اور دکھ اس سے گہرا تھا وہ تھا نیشن سے بیدخلی کا ، ایک ایسے بیٹھے کی ولدیت چھن جانے کا جسے بڑی توجہ اور محنت سے پالا گیا ہو، مجھے عارف نظامی کے چہرے پر ایڈیٹر دی نیشن والے عارف نظامی کی مسکراہٹ اور رونق کبھی دکھائی نہیں دی تھی حالانکہ وہ تین ماہ ہی سہی اطلاعات کے محکمے کے وفاقی (نگران کابینہ میں ) وزیر بھی رہے،ان کا دل کا مرض بھی نیشن تھا اور کینسربھی نیشن تھا،
انتقال کی خبر سننے کے بعد جب میں ریڈیو پر کرنٹ افیئرز کا پروگرام کرنے پہنچا تو ظاہر ہے عارف نظامی کے بارے میں بات ہونا بھی لازم تھا ، میرے ساتھ خالد قیوم تجزیہ کار تھے جنہھوں نے عارف نظامی کی زندگی باخبری ، تعلقات اور رپورٹنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے ہوئے ان کی ایک خبر کا حوالہ دیا ، یہ وہ خبر تھی جو نوائے وقت نیشن میں عارف نظامی کے نام کے ساتھ شائع ہوئی تھی جس روز بینظیر بھٹو کی حکومت صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کی تھی ۔ مجھے ان لمحوں پر نوائے وقت کا وہ ضمیمہ بھی یاد آیا جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے کچھ دیر کے بعد مارکیٹ میں آگیا تھا ، میں ان صاحب سے مل چکا ہوں جنہوں نے یہ ضمیمہ رات گئے تیار کرکے رکھ لیا تھا ، یہ ضمیمہ اس وقت ہی تیار کرلیا گیا تھا جس وقت نوائے وقت معمول کے مطابق تیار ہورہا تھا یعنی شام کو ،جس کی رات ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کی آخری رات تھی ،خالد قیوم جب عارف نظامی کی خبر کا حوالہ دے رہے تھے تو میں براڈ کاسٹنگ پروٹوکول کے تحت آن ایئر یہ تبصرہ نہیں کرسکتا کہ جس طرح عارف نظامی اپنی دوست بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کئے جانے کی سازش سے آگاہ تھے ویسے ہی ان کے چچا مجید نظامی بھی زوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر عملدرآمد سے پہلے سے ہی آگاہ تھی ، بی بی سی کے مارک ٹیلی کو ایک خاص سوچ کے تحت اس کا کریڈٹ دیا گیا تھا، ویسے بھی ان دنوں پاکستان میںچوبیس گھنٹے کی نشریات نہیں ہوا کرتی تھیں اور شرائع ابلاغ بھی جنرل ضیاءالحق کے تابع تھے۔
عارف نظامی عامل صحافیوں اور مالک صحافیوں دونوں میں یکساں احترام اور تعلقات رکھتے تھے، ان میں کچھ تھوڑی بہت خلیج پاکستان ٹوڈے شروع کرنے کے بعد ڈاﺅن سائزنگ سے ضرور پیدا ہوئی لیکن احترام میں فرق نہیں آیا یہ ان کا امتیاز رہا۔
لاہور سے جنگ کے اجراءسے قبل نجی اشاعتی اداروں میں اپنے وقت میں نوائے وقت بادشاہ رہا اور صحافت میں مجید نظامی شہنشاہ، جب بھی کوئی نیا اخبار آتا تو مجید نظامی (مرحوم ) ایک جملہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اب صحافت نہیں بچتی،صحافت خطرے میں ہے ،ہم نوجوان لوگ مجید نظامی مرحوم کے اس فقرے پر ہنسا کرتے تھے باہم تبصرے کیا کرتے تھے کہ خطرہ صحافت نہیں نوائے وقت اور شہنشاہیت کو ہوسکتا ہے کیونکہ نئے اداروں میں کھپت ہوگی اجرت بہتر ہوگی اور مقابلہ ہوگا جو نظامی صاحب کو پسند نہیں( ہمارا نوجوان صحافیوں کا کھلنڈرا گروپ تھا سنہ انیس بانوے یا شائد ترانوے میں پریس انسٹیٹیوٹ میں کورٹ رپورٹنگ پر تین روزہ ورکشاپپ ہوئی تو اس میں مجید نظامی بھی مہمانِ خصوصی تھے ہم نے انہیں یہ ”ؒلطیفہ“سنا دیا جسے سب سے زیادہ اُس وقت کے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس میاں محبوب احمد نے زیر لب مسکرا کر سب سے زیادہ انجوائے کیا ، ویسے نظامی صاحب بھی ناراض نہیں ہوئے ، البتہ ناگواری ہم نے ان کی پیشانی پر پڑھ لی تھی ) ، لیکن ہوا وہی جو مرحوم فرمایا کرتے تھے ، اس وقت اخبارات اخبار نہیں رہے ، محض مراسلے بن کر رہ گئے ، دیگر وجوہ اپنی جگہ لیکن اہم وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر اخبارات(میڈیا ہاﺅسز) خاص سوچ ، مفادات اور مفادات کے تحفظ کے لئے شروع کیے گئے ہیں ، خبر اور اخباری، تقاضے ، صحافتی مواد ان کی ضرورت نہیں رہا ، جب روزنامہ پاکستان شروع ہوا تو اس پر گلہ کیا جاتا تھا کہ یہ کیا اخبار ہوا جس میں محکمہ صحت کے حوالے سے کوئی خبر ہی نہیں چھپ سکتی کیونکہ اخبار کے بانی اکبر علی بھٹی ادویات کا کاروبار کرتے تھے ، اب ہر میڈیا ہاﺅس کا کوئی نہ کوئی کاروبار ہے ، ریاستی اداروں اورمیں میڈیا ہاﺅس کے سیٹھ کے دوست تعلقدار ، دوست یاربھی ہیں ، صحافتی مواد کی گنجائش کیسے بنے ؟ لہٰذا نظامی صاحب جو فرمایا کرتے تھے ، درست ثابت ہوا، ہاں ا! البتہ جب دی نیشن شروع ہوا اور عارف نظامی کو مدیر بنایا گیا تو نظامی صاحب نے تب یہ نہیں کہا تھا کہ نئے اخبار آنے سے صحافت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ، عارف نظامی نے نوائے وقت کی پالیسی سے ہٹ کر دی نیشن کو پروگریسو اخبار بنانے کی بھرپور کوشش کی، ان کی یہ کوشش بعد میں ان کی بیماری کا سبب اور پھر وہ نوائے وقت نیشن کا درد دل میں لئے بھی اپنے چچا مجید نظامی کے پیچھے جہانِ عدم رخصت ہوگئے، اب نظامی خاندان میں کوئی صحافی نہیں رہا اور نظامی صحافت کا باب بلکہ کتاب ہی بند ہوگئی ، اللہ ان کی بشری خطائیں معاف فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے (محمد نوازطاہر)۔۔
