تحریر: جاوید چودھری۔۔
میں آج سے دس گیارہ سال پہلے بیلجیئم سے ہالینڈ جا رہا تھا‘ راستے میں ڈیل فٹ نام کا خوب صورت ٹائون آیا‘ ہم دو لوگ تھے‘ دوپہر کے وقت ہم وہاں رک گئے‘ فضا میں نومبر کی خنکی تھی‘ دھوپ اچھی لگ رہی تھی‘ ٹائون ہال کے گرد پتھر کی پرانی تنگ گلیاں تھیں اور ان میں چھوٹے چھوٹے ریستوران تھے۔
ہمارا خیال تھا ٹائون میں رونق ہو گی لیکن اس دن وہاں ہوکا عالم تھا‘ گلیاں‘ بازار‘ ریستوران اور شاپنگ سینٹر پورا قصبہ سنسان اور بے رونق تھا یوں محسوس ہوتا تھا شہر کی کل آبادی کسی آفت کا شکار ہو گئی ہے یا پھر ایمرجنسی میں نقل مکانی کر گئی ہے‘ ہم حیرت سے شہر کے درودیوار پر نظریں پھیرتے رہے لیکن وہاں کیا ہوا ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی‘ ہم جیسے تیسے سیاحتی معلومات کے دفتر پہنچے‘ وہاں ایک خارش زدہ بوڑھا بیٹھا تھا‘ ہم نے اسے سلام کیا۔
اس نے بے زاری سے ہماری طرف دیکھا اور پوچھا ’’ہاں کیا ہے؟‘‘ ہم نے اس سے پوچھا’’ شہر کو کیا ہوا؟ لوگ نظر نہیں آ رہے‘‘ اس نے غور سے ہماری طرف دیکھااور زور سے کہا ’’نک سن‘‘ اور اپنا سر چھاتی پر گرا کر آنکھیں موند لیں‘ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘ بوڑھے کی طرف مڑے اور اس سے پوچھا ’’نک سن کیا ہے؟‘‘ بوڑھے نے سنی ان سنی کر دی اور اسی طرح سر نہیوڑے بیٹھا رہا‘ ہم نے دو تین مرتبہ کوشش کی لیکن کام یابی نہ ہوئی۔
ہم نے بابے پر لعنت بھیجی اور دفتر سے باہر نکل گئے‘ پبلک ٹرانسپورٹ بند تھی‘ ٹیکسیاں اورذاتی کاریں تک نہیں چل رہی تھیں‘ دکانیں بھی کلوزڈ تھیں اور گھروں کے دروازے بھی بند تھے‘ گلیوں اور بازاروں میں ہوم لیس شرابی اور چرسی تک نظر نہیں آ رہے تھے‘ ہمارے لیے یہ صورت حال حیران کن تھی‘ ہمیں وہ شہر ہیروشیما دکھائی دے رہا تھا لہٰذا ہم مایوس ہو کر دی ہیگ کی طرف نکل گئے۔
راستے میں رونق تھی‘ہم سڑک کے کنارے ایک ریستوران میں رکے اور ویٹر کو ڈیل فٹ کی صورت حال بتا کر پوچھا ‘نک سن کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ وہ مسکرایا‘ اس نے کان کے نیچے مکا رکھ کر علامہ اقبال جیسا پوز بنایا اور بتایا ’’ڈونتھنگ‘‘ ہماری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا‘ اس نے انگلی سے ایک منٹ کا اشارہ کیا‘ اندر گیا اور اپنی خاتون مینیجر کو لے آیا‘ ہمارا مینیجر کے ساتھ سودا ہوا وہ ہمیں نک سن کے بارے میں بتائے گی اور ہم اس کی کافی کا بل ادا کریں گے۔
خاتون ہمارے سامنے بیٹھی اور اس نے بتانا شروع کیا ’’ڈچ زبان میں نک سن کا مطلب ہوتا ہے‘کچھ نہ کرنا‘ ہمارے ملک میں پرانی روایت چلی آ رہی ہے ہم جب جسمانی‘ ذہنی اور روحانی طور پر تھک جاتے ہیں تو ہم پورے دن کے لیے نک سن پر چلے جاتے ہیں‘ ہم اس دن کچھ نہیں کرتے‘ دانت‘ منہ اور بال تک صاف نہیں کرتے‘ کھانا نہیں پکاتے‘ بازار نہیں جاتے‘ دفتر یا کام کی جگہ نہیں جاتے‘ واک اور اسپورٹس نہیں کرتے‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو نہیں سنتے‘ فون کو ہاتھ نہیں لگاتے‘ کتاب نہیں پڑھتے‘ گھڑی کی طرف نہیں دیکھتے اور اپنے کتے اور بلی کی کیئر بھی نہیں کرتے حتیٰ کہ کمروں کے پردے بھی نہیں ہٹاتے۔
ہم بس سارا دن سانڈ یا موٹی گائے بن کر لیٹے رہتے ہیں‘ تھک جاتے ہیں تو ایک جگہ سے اٹھ کر دوسری جگہ جا کر لیٹ جاتے ہیں‘ دھوپ میں پڑے رہتے ہیں‘ چھت پر سیدھے ہو جاتے ہیں یا پھر سارا دن بالکونی میں بیٹھ کر اونگھتے رہتے ہیں‘ کھانا بھی آرڈر نہیں کرتے‘کچن میں جو کچھ پڑا ہوتا ہے وہ کھا لیتے ہیں اور بعض اوقات ایک آدھ دن کے لیے کھانا پینا بھی ترک کر دیتے ہیں‘ تنکا بھی دہرا نہیں کرتے‘‘ وہ خاموش ہو گئی۔
ہم نے حیرت سے پوچھا ’’اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولی ’’ہماری بیٹریاں چارج ہو جاتی ہیں‘‘ ہم خاموشی سے سنتے رہے‘ خاتون بولی ’’ہمیںآج کے مشینی دور نے غیر ضروری طور پر مصروف کر دیا ہے‘ ہم ہر وقت بزی رہتے ہیں‘ معاشی دوڑ ایک خوف ناک دوڑ ہے‘ یہ ہمارے اعصاب‘ ہماری زندگی کو کھا ہی رہی ہے لیکن ہم اس کے علاوہ بھی خود کو بلاوجہ تھکاتے جا رہے ہیں۔
ہمارے سماجی سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہم انسان روزانہ اوسطاً دس ہزار حرکتیں کرتے ہیں‘ صبح پلکیں ہلانے سے لے کر رات بیڈ پر لیٹ کر کمبل کھینچنے تک ہم 19 گھنٹے مصروف رہتے ہیں جب کہ قدرت نے ہمیں زیادہ سے زیادہ تین ہزار حرکتوں کے لیے بنایا ہے‘ ہم انسان بنیادی طور پر دنیا کے سست ترین جان دار ہیں‘ انسان کے بچے کو چلنے پھرنے‘ کھانے پینے اور بولنے چالنے کا طریقہ سیکھنے میں اڑھائی سال لگ جاتے ہیں جب کہ باقی تمام جان داروں کے بچے پیدائش کے ایک دو دن بعد خود کو سنبھال لیتے ہیں۔
کتے کا بچہ ایک ماہ میں ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ ہو جاتا ہے‘ یہ اپنا کھانا بھی تلاش کر لیتا ہے اور خود کو گاڑی کے ٹائروں سے بھی بچا لیتا ہے جب کہ ہم انسانوں کے بچے اپنے ماحول کو سمجھنے کے لیے اڑھائی سال لگا دیتے ہیں‘ ہم بنیادی طور پر سست مخلوق ہیں لہٰذا زیادہ ایکٹویٹی ہمیں تھکا دیتی ہے اور ہم بور ہو جاتے ہیں‘ ہمارے سماجی سائنس دانوں نے ہمیں بتایا‘ جانور جب بور ہوتے ہیں یا تھک جاتے ہیں تو یہ سوتے نہیں ہیں‘ یہ بس کسی کونے میں بیٹھ کر جگالی کرتے رہتے ہیں‘ یہ کچھ نہیں کرتے‘یہ نک سن کرتے ہیں چناں چہ انسانوں کو بھی بوریت اور تھکاوٹ کے بعد نک سن کرنا چاہیے اور ہم یہ کرتے ہیں‘ ہم نک سن کے دن سارا دن کچھ نہیں کرتے‘ خاموشی سے پڑے رہتے ہیں‘ وہ خاموش ہو گئی۔
میرے ساتھی نے اس سے پوچھا ’’کیا یہ کوئی نیا تصور ہے‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ہرگز نہیں‘ یہ ہزاروں بلکہ لاکھوں سال پرانا طریقہ کار ہے‘ آپ یاد کریں‘ آپ کے بزرگ فصلیں کاٹنے کے بعد کیا کیا کرتے تھے؟ کیا وہ دو دو‘ تین تین دن لیٹے نہیں رہتے تھے اور کیا لوگ سفر سے واپسی کے بعد دو تین دن کے لیے کمرے میں محصور نہیں ہو جاتے تھے‘ ہم ولندیزی جب صرف جہاز ران تھے تو ہمارے بزرگ لمبے سمندری سفروں سے واپسی کے بعد ہفتہ ہفتہ نک سن میں رہتے تھے‘ یہ لان‘ باغ یا چھت پر لیٹے رہتے تھے اور جب اچھی طرح بحال ہو جاتے تھے تو پھر کام شروع کر دیتے تھے۔
ہماری زندگی میں پھر مشینی دور آ گیا‘ صنعتیں لگیں اور انسان مصروف ہوتا چلا گیا‘ آج ہم اگر کچھ نہ کر رہے ہوں تو بھی ہم دس ہزار کام کرتے ہیں‘ آپ کسی دن صبح اٹھ کر اپنے کام گننا شروع کردیں‘ آپ رات تک اپنی مصروفیات دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ ہم لوگ بدقسمتی سے معاشی ریس کے شکار شخص کو مصروف سمجھتے ہیں‘ ہم اسے مصروف کہتے ہیں جو صبح نو بجے سے پانچ بجے تک دفتر‘ فیکٹری یا دکان میں جھک مارتا ہے جب کہ حقیقت میں ہم آج کے تمام انسان یکساں مصروف ہیں‘ کیا بس کے پیچھے بھاگنا مصروفیت نہیں۔
کیا پردے ہٹانا‘ واش روم صاف کرنا‘ کھڑکیاں دھونا‘ پودوں کو پانی دینا‘ کتے کو ٹہلانا‘ واک کرنا‘ کھانا بنانا‘ جوتے صاف کرنا‘ کپڑے دھوپ میں ڈالنا یا شاپنگ کرنا مصروفیت نہیں‘ یہ بھی کام ہیں اور انسان ان سے بھی تھکتا ہے‘ یہ بھی انسان کو بور اور بے زار کرتے ہیں لہٰذا پھر انسان کو خود کو ٹھیک رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟اسے نک سن یا ڈو نتھنگ کرنا چاہیے ‘ آپ سانڈ کی طرح کچھ بھی نہ کریں بس چپ چاپ آنکھیں موند کر لیٹے رہیں‘ یہ کیفیت انسانی زندگی میں آکسیجن جتنی اہم ہے‘ یہ ہمیں اپنے پائوں پر دوبارہ کھڑا کر دیتی ہے‘‘ وہ دوبارہ خاموش ہو گئی۔
میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ لوگ نک سن اجتماعی طور پر کرتے ہیں‘‘ وہ ہنس کربولی ’’ہم شروع میں انفرادی طور پر نک سن کرتے تھے‘ ہم میں سے جو بھی شخص بور ہو جاتا تھا وہ ایک آدھ دن کے لیے نک سن پر چلا جاتا تھا‘ ہمیں جب اس کی خوبیاں معلوم ہوئیں تو ملک میں گروپس کی شکل میں بھی نک سن ہونے لگا‘ خاندان بھی کرنے لگے اور اب یہ چھوٹے ٹائونزکی روایت بھی بنتا جا رہا ہے بالخصوص صنعتی شہروں یا پھر سیاحتی ٹائونز کی میونسپل کمیٹیاں پورے شہر کے لیے نک سن انائونس کر دیتی ہیں اور اس دن پورا شہر باہر نہیں نکلتا‘ اس سے ماحولیاتی آلودگی بھی کنٹرول ہو جاتی ہے اور لوگوں کا سٹریس لیول بھی نیچے آ جاتا ہے‘‘۔
میں نے پوچھا ’’کیا یہ پورے ہالینڈ میں ہوتا ہے‘‘ اس کا جواب تھا ’’نہیں ابھی بڑے شہر نک سن کی طرف نہیں آئے‘ یہ تحریک سردست چھوٹے قصبوں اور دیہات تک محدود ہے مگر سماجی سائنس دانوں کا خیال ہے وہ دن دور نہیں جب پوری دنیا میں نک سن ہو گا‘ یورپ میں ٹریفک فری یا کارلیس ڈیز منائے جاتے ہیں‘ اس دن کوئی گاڑی سڑک پر نہیں آتی‘ اس سے پالوشن بھی نیچے آ جاتا ہے اور عوام کے اعصاب بھی سکون میں چلے جاتے ہیں‘ مجھے یقین ہے بالکل اسی طرح لوگوں کو جوں جوں نک سن کے فوائد کا علم ہو گا‘ یہ روایت پوری دنیا میں شروع ہو جائے گی‘‘۔
میں یہ واقعہ بھول گیا تھا لیکن کل جب میں اٹھا تو زندگی میں پہلی بار ’’کچھ نہ کرنے‘‘ کا دل چاہا اور میں نے سارا دن لیٹ کر گزار دیا‘ آپ یقین کریں یہ تجربہ زندگی کے تمام تجربات سے زیادہ شان دار تھا لہٰذا آپ بھی زندگی میں کبھی کبھی ’’کچھ نہ کیا کریں‘‘ یہ کچھ نہ کرنا آپ کو سب کچھ کرنے کے لیے توانائی دے گا لیکن آپ یہ یاد رکھیں نک سن ضروری ہے مگر کبھی کبھی‘ آپ اگر یہ روزانہ کریں گے تو آپ حرام خور ہو جائیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس) ۔