media ki barbaadi ab bhugto

نگراں وزیراعلیٰ کی تقرری، فساد کا آغاز

تحریر: ناصر جمال۔
یہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی تقرری نہیں ہے۔ اس ملک میں فساد کا آغاز ہے۔ نئے انتخابات، اپنے انعقاد سے پہلے ہی مشکوک ہوچکے ہیں۔ اگر یہ الیکشن کمیشن کا متفقہ فیصلہ ہے تو پورا الیکشن کمیشن ہی متنازعہ ہو چکا ہے۔ وہ آج ہی پی۔ڈی۔ ایم ۔ کی دو تہائی اکثریت کا ایڈوانس نوٹیفیکیشن جاری کردے۔اب کون سا الیکشن اور کونسی غیرجانبداری بچی ہے سلطان سکندر جیسے لوگ، ریاستوں کو ’’ہڑپ‘‘ کرجاتے ہیں۔ مگر کیا کریں، وہ عمران خان کا ہی حسن انتخاب ہیں۔ انھیں چاہئے کہ وہ اپنے ’’سالا شریف‘‘ عامر احمد علی کو ابھی سے چیف سیکرٹری پنجاب مقرر کروادیں۔ تاکہ سارا ٹنٹا ہی ختم ہو۔
اس ملک میں میرٹ، ایمانداری، کام اور صلاحتیں، سب سے بڑے” ڈی۔ میرٹس“ ہیں۔ ایک طرف احمد نواز سکھیرا جیسا نیک نامی کا پہاڑ تھا۔ 38سال پر محیط شاندار کیریئر، دوسری جانب ایک ’’بونا‘‘ تھا۔ وہ بھی ’’بونافائیڈی‘‘ بونا، اس کے درجات کیسے بلند ہوئے اور کس کس در کے اس نے خاک چھانی یہ کوئی سٹیٹ سیکرٹ نہیں ہے۔ بچے بچے کو پتا ہے۔ آپ دیکھ لیں۔ اکیسویں صدی میں، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور شوشل میڈیا کی دنیا کے باوجود جیت کس کی ہوئی۔۔شاہد خاقان عباسی کل ہی نے کہا تھا کہ ’’پاکستان کے آئین کو موقع دیں۔ اگر1973کے کے آئین کو،اب ایسے موقع دیاجانا مقصود ہے ۔تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
محسن نقوی کی تقرری، پری پول ریگنگ کا نقطہ آغاز نہیں، ’’اوج ثریا‘‘ ہے۔ پرویز الہی حارث سٹیل مل میں نیب کے ساتھ ان کی پلی بارگیننگ کا رونا رو رہے ہیں۔سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کو بھی اس کا پتا تھا۔اگر نہیں پتہ تھا تو الیکشن کمیشن کو۔محسن نقوی ہماری صحافتی دنیا کا ، ضیاء شاہد جیسا ’’ولن‘‘ ہے۔ جہاں صحافیوں کا کمال طریقے سے استحصال ہوا ہے۔ جو اپنے ورکروں کا وقت پر محنتانہ، نہ دے سکا۔ وہ اس ملک کو اب شفاف اور غیر جانبدار الیکشن دے گا۔
مجھے کسی سیاس جماعت سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔جیسے انہیں پاکستان کے عوام سے ہمدردی نہیں ہے۔مگر میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ سیاسی کھیل میں سب کے لئے برابری کی ساز گار فضا ہونی چاہئے۔آج ہم نےایک ’’نئے‘‘ بنگلہ دیش کی جانب قدم رکھ دیا ہے۔ یہ انتخاب پہلے اس عوام کو تقسیم کرے گا۔ اُس کے بعد، اس ملک کی جڑیں کاٹ کر رکھ دے گا۔ دو نسلوں نے یہ ملک ٹوٹتے ہوئے دیکھا تھا۔ اب میں اور میری نسل بھی ایک اور سقوطِ پاکستان، سیزن ٹو دیکھیں گے۔پنجاب کا انتخاب، محض پنجاب کا انتخاب نہیں ہے۔ یہ آدھا پاکستان ہے۔ 272 میں سے 141 سیٹیں یہاں پر ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پورے پاکستان کو پتا تھا کہ معاملہ اگر الیکشن کمیشن کے پاس گیا تو قرعہ نہیں، نام ہی محسن نقوی کا نکلے گا۔
کبھی عمران خان نے کہا تھا کہ میاں نواز کرکٹ میں بھی ایمپائر کو ساتھ ملا کر کھیلا کرتے تھے۔ پھر عمرانخان خود بھی ایمپائر کے ساتھ مل گئے۔ پھر ایمپائر کسی اور کے ساتھ مل گیا۔۔عمران میاں نواز تو محض کریکٹر ہیں۔ اصل استعارہ اور طاقت تو ”ایمپائر “ہے۔ مگر تحریک انصاف اور اس کے حواریوں کو مان لینا چاہئے کہ وہ سیاسی طور پر انتہائی بُرا کھیلے ہیں۔ پی۔ ڈی۔ ایم بھی اُن کی طرح ذات کی گیم کھیل رہی ہے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ مان لینا چاہئے کہ وہ ریاست کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کھو چکی ہے۔ وہ بظاہر خود کو ’’نیوٹرل‘‘ کہہ رہی ہے۔ مگر اُسے معلوم نہیں ہے کہ اس کی 75 سالہ پالیسیوں کے سامنے، ایک اور ’’یوٹرن‘‘ آگیا ہے۔ آج ملک اگر مکمل تباہی کے دھانے پر ہے تو اس میں نوے فیصد حصہ اس کا ہے۔ کوئی ہمیں اب ریڈ لائن کراس کرنے کے ڈراوے نہ ھی دے تو بہتر ھے۔ جب بات ریاست کے وجود پر آپہنچی ہے تو پھر کونسی ریڈ لائن، ہم اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر، کلمہ حق بلند کرتے تھے، کرتے ہیں اور کرتےرہیں گے۔ حالانکہ کے برادرم سجاد لاکھا نے چند روز پہلے ہی تو وارننگ لکھی ہے۔
یہ ملک رہنے کے قابل رہ نہیں گیا۔ ہم مجبور ہیں۔ ہمیں کسی اور ملک نے لینا نہیں۔ بھارت ہم جا نہیں سکتے۔ اور جانا بھی چاہتے ہیں۔ یہیں کہیں، اپنے بزرگوں کے ساتھ، مٹی کی چادر اوڑھ لیں گے۔ وہ بھی اگر ’’برادران یوسف‘‘ نے جگہ دینے دی۔ وگرنہ کہیں گمنامی کی مٹی ہی سہی۔ صرف اللہ، رسولﷺ اور اپنے بزرگان سے درخواست ہے۔ خاک یہیں کی چاہئے۔ میرا مکہ، مدینہ یہی ہے۔
میری احمد نواز سکھیروں اور ان جیسے بے وقوفوں سے درخواست ہے کہ وہ ابھی بھی وقت ہے۔ کسی اور سمت، رخ کر جائیں۔
یہاں کسی نئی تہذیب، سچ، روایت، نظریئے کا کوئی سورج طلوع نہیں ہونے والا۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کو ایسے نوچتے، نوچتے ایک دن ختم ہوجائیں گے۔ یہاں کی اشرافیہ، اس ریاست کا خون چوسنے کے بعد اس کا گوشت ہڑپ کر جائے گی۔ بچی کچھی ہڈیوں کی کھاد اور ”جیلی“ بنا کر کھا جائے گی۔
غریب کیا، کسی سفید پوش کی زندگی میں بھی کوئی انقلاب نہیں آنے والا۔ اس ملک پر اب ”زومبیز اور ڈریکولاز“ کا راج ہوگا۔ اگر کوئی اپنی نسل کو بچا سکتا ہے تو بچالے جائے۔
کبھی صدر عارف علوی نے دو، دہائیوں قبل کہا تھا کہ ’’یہ ملک رہنے کی قابل نہیں رہ گیا۔ ہم اس ملک میں اس لئے رہتے ہیں کہ یہاں ہمارے اجداد کی قبریں ہیں۔مگر انتہائی معذرت کے ساتھ آپ لوگوں کے قبیلے نے تو ہم سے یہ جواز بھی چھین لیا ہے۔کسی نے چند سال پہلے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ ’’جتنا لُچا، اتنا، اونچا‘‘۔ اس ملک میں جو حالات ہیں۔ پتا نہیں، اس جملے پر ایمان لانے کو دل چاہتا ہے۔بہر حال میں آج تسلیم کرتا ہوں کہ ’’پاکستان بنانا، ہمارے بزرگوں کی غلطی تھی۔ ہم اس قابل نہ تھے اور نہ ہیں۔انھوں نے غلطی کی، آگ اور خون کا دریا پار کرکے یہاں آبسے۔ اب ان کی غلطی کا کفارہ یہ ہے کہ ان کی نسلیں، اس غلطی کا جرمانہ ادا کرتےہوئے، یہیں پر گردنیں کٹوائیں۔ جب لمحے خطا کریں۔ سزا صدیاں پائیں تو، پھر بزرگوں کی خطا کی سزا، نسلیں کیوں نہ ادا کریں۔
پاکستان میں، غریبوں کو مکمل شکست ہوچکی ہے۔ اور یہ 99 فیصد لوگ قبول بھی کرچکے ہیں۔ اسی لئے تو کوئی باہر نہیں نکلتا۔ کوئی آواز بلند نہیں کرتا۔ کوئی حق کی بات نہیں کرتا۔ بغاوت تو دور کی بات، اب تو دل سے بھی بُرا نہیں سمجھتا۔بابائے قوم نے اس ملک کو اسلامی تجربہ گاہ کہا تھا۔ ماشاء اللہ سے ہم نے اس کو ہر لحاظ سے مکمل تجربہ گاہ بنا دیا ہے۔ اس ریاست پاکستان کی لیبارٹری میں فوجی جج، مولوی، سیاستدان، بزنس مین، بابو، صحافی، سب اپنے، اپنے تجربات میں لگے ہوئے ہیں۔مرحوم غفاری صاحب(ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول) کا مشہورِ زمانہ تبصرہ یاد آگیا۔ جب ایک طالب علم نے اصول ارشمیدس کو اصول ’’ارتشمُول‘‘ کہا تو ”بذلہ سنج استاد“ نے خالص پنجابی لہجے میں کہا کہ یہ سینئر ہیڈ ماسٹر کے پوتے، سائنس ٹیچر کے بیٹے ہیں۔ یہ اپنی ’’ماں‘‘ کا نیا فارمولہ ایجاد کرکے لے آئے ہیں۔
آپ بھی انجوائے کریں۔ مجھے بھی انجوائے کرنے دیں۔آئیں، سب اپنے، اپنے، زخموں پر بے بسی کا نمک چھڑکیں۔ آئیں اپنی بے حسی پر بھنگڑے ڈالیں۔ آئیں زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ آئیں قطاردرقطار مقتل گاہ پاک سرزمین کے لہو کی پیاس بجھاتے ہیں۔ 1947 سے آج 2023 تک اپنا پرانا کام جاری رکھتے ہیں۔(ناصر جمال)

ابصارعالم حملہ کیس، ملزمان پر فردجرم عائد نہ ہوسکی۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں