تحریر: ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔۔
اسلام آباد پولیس نے سوشل میڈیا پر نفرتوں کے پرچارک 462اکاؤنٹس کو بلاک کرادیا ہے، پولیس کے انسدادِ شدت پسندی یونٹ نے سماج دشمن منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے والے کْل 1522 اکاؤنٹس کی نشاندہی کی ہے ، ابتدائی طور پر بند ہونیوالے اکاؤنٹس میں 65مذہبی منافرت، 47 ملک دشمن پروپیگنڈہ اور 350 اکائونٹس شدت پسندی کا تشہیری مواد پھیلانے میں ملوث تھے، باقی ماندہ اکاؤنٹس کو بھی جلدبلاک کرکے ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی، پولیس نے عوام کو بھی سوشل میڈیا پر منفی سرگرمیوں سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان سمیت دیگر عالمی ممالک کی حکومتیں ایک طویل عرصے سے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں نفرت آمیز مواد کی تشہیر کی روک تھام کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے آج سے دس سال قبل 2014ء میں غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی کے روبرو پیش ہوکر آگاہ کیا تھاکہ اقلیتوں کے خلاف مظالم کی روک تھام کیلئے نفرت آمیز مواد کی تشہیر پر پابندی ضروری ہے، پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کو منظم انداز میں مخالفین کے خلاف نفرتوں کے پرچار کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اورپاکستانی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر افسوسناک حد تک نازیبا زبان کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ آج اگر ہم عالمی سطح پر نظر ڈالیں تو سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے دنیا کا ہر مہذب امن پسند انسان پریشان نظر آتا ہے، امریکہ میںنسلی و مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہیٹ کرائم سے نمٹنے کیلئے امریکی محکمہ انصاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراک سے لائحہ عمل مرتب کرنے کیلئے کوشاں ہے، یورپ میں تارکین وطن کے خلاف نفرت انگیز اقدامات کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں، غزہ تنازع نے ایک مرتبہ پھرعالمی سطح پر ایک مذہبی کمیونٹی کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکا دیے ہیں،بھارت میں شدت پسند عناصر نہتی اقلیتوں کے خلاف حملوں کو منظم کرنے کیلئے واٹس ایپ گروپس سمیت مختلف
سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں، میانمار میں اقلیتی روہنگیا مسلمانوں پر بہیمانہ مظالم پر اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کے صارفین کو نفرت پھیلانے میں ملوث قرار دیا۔ تاہم فیس بک کے بانی مارک زوکربرگ نے بڑھتی ہوئی تنقید کے جواب میں سوشل میڈیا کیلئے عالمی ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی تجویز پیش کردی تاکہ سوشل میڈیا مواد کے حوالے سے قانونی و سماجی ہر پہلو سے باریک بینی سے جائزہ لیکر عالمی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔عالمی برادری میں کینیڈا کا شمار ان مغربی ممالک میں ہوتا ہے جہاں آزادی صحافت کو کوئی بڑا خطرہ درپیش نہیں، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی جاری کردہ سالانہ پریس فریڈم انڈکس رپورٹ 2023میں کینیڈا میں آزادی اظہارِرائے کو تسلی بخش قرار دیا گیا ہے، تاہم سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی روک تھام کیلئے گزشتہ ماہ کینیڈین پارلیمنٹ میں آن لائن ہارم ایکٹ پیش کردیا گیا ہے جسکے تحت انٹرنیٹ پرسوشل میڈیا مواد کے ذریعے شدت پسندی اور متشددانہ دہشت گردی کو ابھارنے سمیت سات آن لائن جرائم کی نشاندہی کی گئی ہے، پارلیمان میں قانون سازی کے بعد ڈیجیٹل سیفٹی کمیشن آف کینیڈا کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو سوشل میڈیااداروں کو چار امور کاپابند کرے گا کہ وہ انٹرنیٹ پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے کم عمر بچوں کو محفوظ رکھیں، چوبیس گھنٹوں کے اندر ناپسندیدہ غیرمہذب مواد تک رسائی بند کریں اور سوشل میڈیا سرگرمیوں کا ریکارڈ رکھیں۔ ڈیجیٹل سیفٹی کمیشن کے تحت محتسب کی تعیناتی بھی کی جائے گی جو سوشل میڈیا کا محاسبہ کرتے ہوئے کینیڈا میں سوشل میڈیا صارفین کی شکایات سنے گا اور غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر سوشل میڈیا اداروںکے خلاف سزائیں بھی سنائے گا، اس حوالے سے کینیڈین ہیومن رائٹس ایکٹ میں ضروری ترامیم بھی متوقع ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج جبکہ آزادی اظہار ِ رائے کے علمبردار مغربی ممالک بھی اپنے معاشرے میں سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ ہوگئے ہیں تو ہمیں بھی پیچھے نہیں رہنا چاہئے، آج اگر ہم نے سوشل میڈیا کے منہ زور عفریت کو لگام نہیں ڈالی تو یہ ہماری اعلیٰ سماجی روایات کو تباہ کرتے ہوئے نظریاتی سرحدوں کو بھی شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا، میری تجویز ہےکہ نیوز ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو لازم کیا جائے کہ وہ اپنے آپ کوباقاعدہ رجسٹرڈ کروائیں اور حکومت کو سوشل میڈیاکے استعمال کو بائیومیٹرک تصدیق شدہ موبائیل فون سمزسے منسلک کرنے پر غور کرنا چاہئے۔(بشکریہ جنگ)۔۔