تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
پنجاب کی نگران حکومت نے آخر کار صحافی کی “من گھڑت”تعریف میں “تحریف” سے رجوع کرتے ہوئے نیوز روم کو رپورٹنگ کے برابر صحافت کا اہم شعبہ تسلیم کر لیا۔۔۔۔۔یہ لاہور پریس کلب کی “بڑی فتح” ہے کہ معتبر صحافتی ادارے نے “مائنس نیوز روم فارمولے” کو رد کر دیا تھا جس پر عبوری حکومت کو “نئی صحافتی سکیم” میں نیوز روم کے لیے پہلے پندرہ فیصد اور پھر تیس فیصد کوٹے کا اعلان کرنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ نیوز روم کی بھی فتح ہے کہ صحافت کے پس پردہ کارکن پہلی بار اپنے حق کے لیے میدان میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔۔۔۔۔۔خاکسار نے ان دس پندرہ دنوں میں چار پانچ بلاگز پر مشتمل ایک سیریز لکھی جس کی تلخیص پیش خدمت ہے۔۔۔۔۔۔اکتیس جنوری کو “نیوز روم کا دفاع”کے عنوان سے لکھا ک سوچتا ہوں کہ صحافتی افق پر”دمکتے ستارے” بھی ہوتے تو بجھ سے جاتے کہ وہ نیوز روم سے ابھرے تھے اور دو ہزار چوبیس کے الیکشن کی نگران پنجاب حکومت نےانہیں “کوچہ صحافت “سے ہی خارج کرنے کا “فتویٰ ” دیدیا۔۔۔۔۔میری مراد شہ سرخیوں کے “سرخیل”جناب سید عباس اطہر۔۔۔۔جناب جواد نظیر اور جناب تنویر عباس نقوی ہیں۔۔
کیا ہی باکمال اخبار نویس اور کالم نویس تھے۔۔۔۔!!یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بہترین ایڈیٹرز نے ہمیشہ نیوز روم سے ہی جنم لیا۔۔۔۔۔ کبھی نیوز روم میں سب ایڈیٹر سے چیف نیوز ایڈیٹر ایک” سفر “ہوا کر تا تھا۔۔۔۔۔تب کہیں جاکر ایڈیٹر کی “منزل” ملتی تھی۔۔۔نیوز روم سے
کئی رپورٹرز نے بھی ایسا “نکھار ” پایا کہ ان کے دم قدم سے گلستان صحافت کا موسم نکھر گیا”۔۔۔شومئی قسمت کہ یہ “پیرا شوٹرز “کا عہد ہے اور “ڈائریکٹ حوالدار” کی طرح “براہ راست” کنٹرولر نیوز ۔۔۔۔۔اور۔۔ڈائریکٹر نیوز۔۔۔۔اترتے ہیں۔۔۔۔۔۔!!بہر حال پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ جناب محسن نقوی سے نیوز روم کو “ملال” رہے گا۔۔۔۔۔۔نیوز روم ہی نہیں میگزین۔۔۔اداریہ نویس
کالم نگار ۔۔۔ٹی وی پروڈیوسرز اور اسائنمنٹ ایڈیٹرز بھی ان سے “نالاں”رہیں گے۔۔۔۔انہوں نے سرکاری ذرائع ابلاغ یعنی پی ٹی وی ریڈیو اور اے پی پی کو بھی “ناراض” کر دیا۔۔۔۔سال ہا سال سے دشت صحافت کی “سیاحی” کرنے والے صحافیوں کو لگا یہ “گہرا گھائو” شائد ہی کبھی بھر پائے۔۔۔۔!!! دو ہزار بائیس کے اوائل میں پی ٹی آئی دور حکومت میں جرنلسٹس پروٹیکشن بل کے نام پر بھی صحافی کی اسی طرح کی “تعریف” گھڑی گئی جس میں فوٹو گرافر اور کیمرا مین کو “دائرہ صحافت” سےخارج کر دیا گیا ۔۔۔تب اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوٹو گرافر کیمرا مین کو “صحافی” قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ قانون اس بارے میں مکمل طور پر واضح ہے کہ کون صحافی ہے؟ کیمرا مین اور فوٹو گرافر کا کام رپورٹر سے بھی اہم ہے۔۔۔ ایک تصویر اور وڈیو سے زیادہ مؤثر کوئی تقریر نہیں ہو سکتی۔۔۔۔پھر عمران حکومت کا نام نہاد ” تحفظ بل “منہ کے بل جا گرا۔۔۔۔پنجاب کے نگرانوں کا صحافیوں میں تقسیم کا منصوبہ بھی تحلیل ہو جائے گا۔۔۔۔۔پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس۔۔صحافی کی تعریف طے کر چکی ہے اور یہی صحیح تعریف ہے۔۔۔۔ پی ایف یو جے کی وضع کردہ تعریف کے مطابق روزناموں، ہفتہ ناموں، ماہ ناموں، نیوز ایجنسیوں نیوز ٹی وی چینلوں میں کام کرنے والے “قلم مزدور” ہیں۔۔پی ایف یو جے کے مطابق ” ورکنگ جرنلسٹ” بھی صرف وہ کہلائے گا جس کا گزر بسر صحافت سے ہونے والی
آمدنی پر ہو۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ جب آئین قانون اور صحافتی دساتیر میں صحافی کی تعریف طے ہے تو پھر طے شدہ ضابطے سے چھیڑ چھاڑ کیوں؟رہے پنجاب کے معتبر صحافتی ادارے۔۔۔ لاہور پریس کلب کے بارے میں پنجاب کے “نگران تخت نشینوں” کے منفی ریمارکس تو بقول غالب صرف
یہی عرض ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم، کہ تو کیا ہے؟
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے ؟؟؟؟
اسی روز “جناب رئوف کلاسرا کے کالم سے نیوز روم کے بارے میں شاندار قتباس پیش کیا جس میں انہوں نے سوشل میڈیا کا نوحہ کہتے ہوئے لکھا کہ اخبار اور ٹی وی چینل پر تو کوئی روکنے والا ہوا کرتا تھا۔۔۔۔۔ایڈیٹر تھا۔۔۔۔۔۔ نیوز ایڈیٹر، سب ایڈیٹر، بیوروچیف تھے جو کسی بھی خبر کو شائع کرنے سے پہلے ہر زاویے سے اس کی تصدیق کرتے۔۔۔۔۔۔بارہ گھنٹے کا وقت ہوتا تھا خبر چھپنے کا لہذا ہر قسمی احتیاط برتی جاتی۔۔ایڈیٹر کا رعب تھا۔۔۔۔رپورٹر کو علم تھا کہ نا صرف اخبار کی عزت خطرے میں ہے بلکہ اگر اس کی اپنی خبر غلط نکل آئی تو مستقبل تباہ، نوکری ختم ہو جائے گی اور وہ کسی کو منہ دکھانے قابل نہیں رہے گا۔۔۔۔۔۔یوں ایک پروفینشل گرومنگ ہوتی تھی لیکن سوشل میڈیا ایج میں لوگ یو ٹیوب کے خود ہی مالک بن گئے۔۔۔۔خود ہی ایڈیٹر۔۔۔۔نیوز ایڈیٹر۔۔۔سب ایڈیٹر اور بیورو چیف ٹھہرے اور معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔۔۔۔۔۔۔!!!کلاسرا صاحب نے درست فرمایا۔۔۔۔۔۔ نیوز روم ریفائنری ہے جس کے بغیر کچرا ہی پھیلے گا ۔۔۔۔!!!!
پچیس جنوری کو “نیوز روم کا نوحہ”کے زیر عنوان بلاگ میں لکھا کہ روزنامہ مشرق کے گروپ ایڈیٹر برادرم جناب اشرف سہیل نے خوب کہا کہ پنجاب کی نگران حکومت کی “امتیازی سکیم”صحافیوں کے لیے پلاٹس کے بجائے “پہچان”کا مسئلہ بن گئی ہے۔۔۔۔۔۔اس “تلخ موضوع”پر ان کا وی لاگ لاجواب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روزنامہ پاکستان کے ایگزیکٹو ایڈیٹر جناب ایثار رانا نے بھی اپنے ٹی وی پروگرام میں نیوز روم کے صحافیوں کا رلا دینے والا نوحہ کہا ہے۔۔۔۔۔۔ایسا نوحہ وہی کہہ سکتا ہے جس نے صحافیوں کی کسمپرسی دیکھی ہو بلکہ ایسی کسمپرسی بھگتی ہو۔۔۔اشرافیہ، چاہے وہ افلاسیہ سے ترقی پاکر ہی “اشرافیہ”ٹھہری ہو۔۔۔۔ کو کیا خبر کہ “افلاسیہ” کی بھوک اور ننگ کیا ہوتی ہے؟؟”اقتداریہ” کا المیہ ہی یہ ہے کہ وہ “خمار اقتدار”میں سب اخلاقی اقدار تک بھول جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یادش بخیر۔۔۔۔!عمران خان کے دور اقتدار کے آخری دنوں میں مجھے ایک”صاحب اقتدار” کے نیم خواندہ “صاحب زادے”کا فون آیا کہ یہ ہنگامہ کیوں برپا ہے؟؟؟میں نے گزارش کی کہ سب مہنگائی کے طوفان کا کیا دھرا ہے۔۔۔۔۔موصوف فلسفہ جھاڑنے لگے کہ مہنگائی نہیں یہ عالمی سازش ہے۔۔۔۔۔۔میں نے کہا بھیا آپ کے” ابو جی” سال ہا سال سے اقتدار میں ہیں۔۔۔۔۔آپ لوگوں کو کیا علم کہ آٹے دال کا کیا بھائو ہے۔۔۔؟؟؟تھوڑا صبر کیجیے جب جناب کے “ابوجی” “ایوان” سے اپنے” دیوان خاص” لوٹیں گے اور جناب کو اپنی جیب سے آٹا خریدنا پڑے گا پھر پتہ چلے گا مہنگائی کیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟جناب نگران وزیر اعلی صاحب آپ تو اعلی تعلیم یافتہ صحافی ہیں۔۔۔۔بلکہ بڑے صحافتی ادارے کے مالک بھی ہیں۔۔۔۔آپ کو بھی آج نہیں تو کل” اپنے گھر” یعنی میڈیا ہائوس لوٹنا ہے۔۔۔۔۔وہاں نیوز چینل اور نیوز پیپر کے نیوز روم میں کیسے قدم رکھیں گے۔۔۔۔نیوز روم کے “غیر صحافیوں” سے کیسے ہاتھ ملائیں گے۔۔۔آنکھیں چار کرینگے؟؟؟؟
تئیس جنوری کو “نیوز روم کا مقدمہ”کے نام سے لکھا کہ نیوز پیپر ہو یا نیوز چینل۔۔۔۔۔۔خبر، قرطاس ابیض پر نقش چھوڑے یا لہروں کے دوش پر سات سمندر پار اڑان بھرے۔۔۔۔اس کے لیے نیوز روم کی “مہر تصدیق”لازم ہے۔۔۔۔۔شہر میں ان دنوں پنجاب کی نگران سرکار کے ایک “متنازع فرمان” کا شہرہ ہے۔۔۔…..۔اور وہ یہ کہ “حاکم وقت” نے “فتویٰ” دیا ہے کہ نیوز روم کے لوگ صحافی نہیں؟یہ اس”بدعہد” عہد کا سب سے بڑا مذاق ہے۔۔۔۔۔!!جناب مجید نظامی اور جناب ضیا شاہد ہوتے تو اس “عبوری فکر” کے “بخیے” ادھیڑ دیتے۔۔۔۔۔نیوز روم کا “مقدمہ” لڑتے۔۔۔۔۔حیرانی ہے کہ اکابرین صحافت کی نشانی جناب مجیب الرحمان شامی اس
” سرکاری درفنطنی ” پر ابھی تک کیوں مہر لب ہیں؟؟ “نقطہ نظر” پیش کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟؟؟ لاہور کے بڑے ایڈیٹر جناب عظیم نذیر اور جناب سعید اختر اس بات کی تصدیق کرینگے۔۔۔۔دو دہائی پہلے تب روزنامہ خبریں کا سورج “نصف النہار” پر تھا اور اس کے بانی جناب ضیا شاہد” اوج کمال” پر تھے۔۔۔۔۔خبریں کا نیوز روم پاکستان کا سب سے بڑا نیوز روم تھا۔۔۔۔۔نیوز روم کیا ایک چھت تلے “میڈیا سٹی” تھا۔۔۔۔۔لیکن عالم گیر سچائی یہ ہے کہ ہر دن کے “سورج” کو ڈھلنا ہے اور ہر “کمال” کو زوال ہے۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا!!!میں نے خبریں کے اس عروج کے زمانے میں بھی دیکھا کہ سخت گیر ضیا شاہد نیوز روم کو “مقدم” مانتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے۔۔۔۔۔نیوز روم اتنا با اختیار تھا کہ وہ سنگل کالم سرخی میں بھی مداخلت نہ کرتے۔۔۔۔کبھی نیوز روم میں آتے تو کہتے کہ آپ لوگوں کا وقت بہت قیمتی اور کام بہت حساس ہے،مجھے دیکھ کر کھڑے نہ ہوا کریں۔۔۔۔۔دھیمے مزاج کے مدبر مدیر جناب نجم سیٹھی کا بھی یہی انداز دیکھا۔۔۔۔۔کہنے کا مطلب ہے کہ کسی بھی میڈیا ہائوس میں نیوز روم کو “محتسب” کا درجہ حاصل ہوتا ہے لیکن شو مئی قسمت کہ آج صحافت کا یہ اہم ترین شعبہ خود “کٹہرے”میں کھڑا ہے۔۔۔۔۔کاش پنجاب کے صحافی وزیر اعلی صحافی کی “انوکھی تعریف”وضع کرنے سے پہلے اپنے سنجیدہ اور فہمیدہ گروپ ایڈیٹر جناب نوید چودھری سے ہی مشورہ کرلیتے تو یہ تنازع جنم نہ لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ “ہنگامہ” برپا نہ ہوتا!!
بیس جنوری کو پلاٹ فار آل کے عنوان سے پہلے بلاگ میں لکھا کہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ”نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے صحافیوں کے لئے پلاٹ سکیم کا اعلان کیا گیا ہے جس میں اب تک سامنے آنے والی تفصیلات پر بعض سوالات موجود ہیں۔۔۔ خاص طور پر نیوز روم کے کاپی ایڈیٹرز،سب ایڈیٹرز،اسائنمنٹ ایڈیٹراورپروڈیوسرز کو بھی اس سکیم میں یکسر انداز کرنے اور فہرستوں کی فراہمی کے طریقہ کار پر تشویش ہے۔۔۔۔۔ اس صورتحال پر لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کا ہنگامی اجلاس اتوار 21 جنوری دن 3.00بجے طلب کیا گیا ہے اس اجلاس میں پلاٹ سکیم کی جزئیات پر آئندہ لائحہ عمل طے کیا جا ئے گا تاکہ پلاٹ فار آل کے سلوگن کے تحت تمام پروفیشنل صحافیوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔۔۔۔لاہور پریس کلب نے نئی صحافی سکیم پر درست سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا میڈیا ہائوسز کے “بیک بون” شعبے نیوز روم کے لوگ صحافی نہیں؟؟؟؟کیا میڈیا ہائوسز کے” رابطہ کار “شعبے اسائنمنٹ ڈیسک کے لوگ صحافی نہیں۔۔۔۔؟؟؟کیا میڈیا ہائوسز کے “شہ دماغ”شعبے کے پروڈیوسرز صحافی نہیں۔۔۔۔؟؟؟
ہمارے خیال میں پنجاب کی نگران حکومت نے اپنے فیصلے سے رجوع نہ کیا تو یہ وطن عزیز کی صحافتی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ٹھہرے گا۔۔۔۔۔۔ بہرکیف لاہور پریس کلب۔۔۔ صدر جناب ارشد انصاری کی قیادت میں صحافتی کمیونٹی کے ساتھ کھڑا ہے اور پلاٹ فار آل کے سلوگن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔۔!!مکرر عرض ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے صحافی کی من گھڑت تعریف میں تحریف سے رجوع کر کے نیوز روم کا رپورٹنگ کے برابر اہم ترین شعبہ تسلیم کر لیا۔۔۔۔یہ لاہور پریس کلب کی جیت ہے۔۔۔۔یہ نیوز روم کی بھی فتح ہے۔۔۔۔۔!!!!
نوٹ:نیوز روم سٹافر “انگریزی اصطلاح” ہے۔۔۔۔یہ نگران وزیر اطلاعات کے منصب پر فائز انگریزی اخبار نویس جناب عامر میر ہی بتا سکتے ہیں کہ “سٹافر”کا دائرہ کار کیا ہے؟؟؟(امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔