تحریر:ایم اے ظہیر
دیکھیئے صاحب درست فقرہ تو یوں ہونا چاہیے کہ،، نیوز روم کی بے حسی،،لیکن مصلحت کی بنا پر نرم الفاظ کا چناؤ کیا گیا اور بے نیازی پر اکتفا کیا گیا۔پریس کلب کے اندر علامتی احتجاج میں فیز ٹو میں پلاٹ کے خواہاں دوستوں کی حاضری تو مایوس کن تھی ہی مگر آج سڑک پر احتجاج میں بھی نیوز روم کے شہزادے یا تو سرد موسم میں گرم بستروں سے چمٹے رہے یا کچھ جفاکش سب ایڈیٹرز اور کاپی ایڈیٹرز دوسری ملازمت کی چکی پیستے رہے۔ دوسری ملازمت والوں کو تو تھوڑی سی رعایت دی جاسکتی ہے(یہ رعایت بھی بس ایک آدھ بار ہونی چاہئیے) جبکہ ایک ملازمت کرنے والے نیوز روم کے لوگ آخر بے حسی کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں ؟ وہ کیوں احتجاج میں شریک نہیں ہو رہے؟ کیا انہیں پلاٹ نہیں چاہئیے ؟پلاٹ کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دینا بھائیو۔اس کے لیے محسن نقلی کے ظالمانہ اور مجنونانہ فیصلے کے خلاف شدید اور سنگین احتجاج کرنا ہو گا ورنہ اپنی چھت کے خواب سے دستبردار ہونا پڑے گا۔حیرت اس بات پر ہے کہ نیوز روم کے لوگوں سے کروڑوں کا پلاٹ چھینا جا رہا ہے مگر وہ پھر بھی پریس کلب میں آ کر احتجاج کرنے پر تیار نہیں۔
مقام اطمینان ہے کہ پریس کلب نے اس سانحہ پر سٹینڈ لیا ہے اور پوری طاقت اور جرات سے محسن نقلی کے فیصلے کو رد کر دیا ہے۔اب ہونا تو یہ چاہیے کہ فیز ٹو کے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے اور اپنے صدر ارشد انصاری کے ہاتھ مضبوط کرتے کہ وہ عارضی وزیر اعلی کے جبڑوں سے ہمارے لیے پلاٹ چھین لیتے۔ہوا اس کے برعکس ہے کہ جن لوگوں کے پلاٹ ہیں وہ خاموشی اور گمنامی کی وادی میں گم ہیں اور صدر ارشد انصاری پیہم اور پے درپے نقلی وزیر اعلی کو للکار رہے ہیں ۔سوچا چاہیے کہ پلاٹ کس نے لینے ہیں ؟ پریس کلب کی باڈی نے یا ہم نے؟
پریس کلب کی باڈی تو جانبازی اور جانثاری کا مظاہرہ کررہی ہے اور وہ لوگ جنہوں نے پلاٹ لے لیے ہیں،وہ بھی صدق دلی سے ہمارے لیے اٹھ کھڑے ہیں اور ہم خود لیٹے ہوئے ہیں۔بتلائیے نا صاحب کہ اس طرح فیز ٹو والوں کو کیسے پلاٹ ملیں گے؟ کیا یہ کلب کی باڈی یا صدر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اتنا بھاری بوجھ اٹھائے اور ہم نازو نعم میں پلے شہزادوں کی طرح محض سوشل میڈیا پر پوسٹیں دیکھتے یا کرتے رہیں؟
لکھ رکھئیے کہ ہمارا صدر ارشد انصاری تبھی ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا جب ہم پوری طاقت سے اس کے دست و بازو بنیں گے۔اگر ہم نے پلاٹ لینے ہیں تو پھر نیوز روم کی مسکین مخلوق اور فوٹو گرافروں اور کیمرہ مینوں کو کھل کر بلکہ ہاتھ اٹھا اور سینہ پھیلا کر اپنے صدر کی پشت پر کھڑا ہونا ہو گا تاکہ وہ حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے مذاکرات کرے اور ہمارا حق لے۔صدر ارشد انصاری کی بہادری پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ ہم جیسے غافل اور سست لوگوں کو پلاٹ دلانے کے لیے سینہ تان کر اور سر اٹھا کر محسن نقلی کے سامنے آن کھڑا ہے۔ اور ہم نیوز روم کے لوگ سہمی سانسوں کے ساتھ تماشا دیکھا کیے۔
محسن نقلی نے جس طرح نیوز روم والوں کو صحافی ماننے سے انکار کیا ہے جس طرح اے پی پی اور پی ٹی وی کو رد کیا ہے اور جس ڈھٹاٹی کے ساتھ فوٹو گرافروں اور کیمرہ مینوں کا حق چھینا ہے۔۔۔۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہم جیسے گونگوں کی چیخوں سے وزیر اعلی کے ایوان دہل جاتے۔ہمارے کمزور ہاتھ شیر کے پنجے کی طرح قوی ہو جاتے۔ہم اتحاد اور اتفاق سے اپنے صدر کے ساتھ کھڑے ہوتے تاکہ کوئی غاصب نگران ہمارا حق چھیننے کی جسارت بھی نہ کرتا ۔لیکن نقلی وزیر اعلی نیوز روم اور فوٹوگرافروں اور کیمرہ مینوں کا حق چھین چکا ہے اور ہم آج بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کسی معجزے یا مسیحا کے منتظر ہیں۔
دوستو نہ کوئی معجزہ ہو گا اور نہ آسمان سے کوئی نجات دہندہ اترے گا۔اگر ہم سب نے اپنی یا اپنے بچوں کی چھت لینی ہے تو اپنے صدر ارشد انصاری کی آواز پر لبیک کہنا ہوگا تاکہ وہ آگے بڑھ کر ہمیں ہمارا حق دلا سکے۔اگر آج ہم پریس کلب کے احتجاج میں شریک نہ ہوئے ،اپنے صدر کے ساتھ دل و جاں سے کھڑے نہ ہوئے تو کون ہمیں پلاٹ دلائے گا؟اب ہمیں کون بتائے کہ نیوز روم کے لوگو تم نرم گرم بستر پر سوئے پڑے ہو جبکہ سورج سوا نیزے پر نکل آیا ہے۔
مری اور آپ کی دو دو ملازمتیں یا حد سے زیادہ بے حسی یا نہایت سستی ہمارے کس کام کی۔آسماں پر چمکتے ستارے اور سردیوں میں نکلا سورج کس کام کا اگر ہماری جیب اور جھولی خالی ہو۔ہم میں سے اکثر صحافی نقاد واقع ہوئے ہوئے ہیں۔کیڑے نکالنا،حوصلہ شکنی کرنا یا خواہ مخواہ بات بگاڑنا کوئی ہم سے سیکھے۔ہم سب بے زار ہو کر نومبر دسمبر میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ الیکشن سٹنٹ ہے۔کہاں ہے اب الیکشن سٹنٹ؟کیا نیوز روم کے صحافیوں اور فوٹو گرافروں کو پلاٹ نہیں چائیے؟ کیا ہمیں اپنے بچوں کا مستقبل عزیز نہیں ؟ اگر نہیں تو پھر سوئے رہیے اور اگر بچوں کا مستقبل پیارا ہے تو کلب کے احتجاج تک گھروں یا دفتروں کو جانے کی بجائے کلب کو ہی گھر اور دفتر سمجھیے اور نقلی وزیر اعلی کے خلاف اک حشر اٹھا دیجیے۔محسن نقلی صور اسرافیل پھونک چکا اور سمحھیے قیامت آ گئی ہے۔(ایم اے ظہیر)۔۔