press club mein free medical eye camp kal hoga

نیوز روم کا مقدمہ۔۔

تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔

نیوز پیپر ہو یا نیوز چینل۔۔خبر، قرطاس ابیض پر نقش چھوڑے یا لہروں کے دوش پر سات سمندر پار اڑان بھرے۔۔اس کے لیے نیوز روم کی “مہر تصدیق”لازم ہے۔۔شہر میں ان دنوں پنجاب کی نگران سرکار کے   ایک “متنازع فرمان” کا شہرہ ہے۔۔اور وہ یہ کہ “حاکم وقت” نے “فتویٰ” دیا ہے کہ نیوز روم کے لوگ صحافی نہیں؟یہ اس”بدعہد” عہد کا سب سے بڑا مذاق ہے۔۔!جناب مجید نظامی اور جناب ضیا شاہد ہوتے تو اس “عبوری فکر” کے “بخیے” ادھیڑ دیتے۔۔نیوز روم کا “مقدمہ” لڑتے۔۔حیرانی ہے کہ اکابرین صحافت کی نشانی جناب مجیب الرحمان شامی اس سرکاری  درفنطنی ” پر ابھی تک کیوں مہر لب ہیں؟؟ “نقطہ نظر” پیش کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟؟؟ لاہور کے بڑے ایڈیٹر جناب عظیم نذیر اور جناب سعید اختر اس بات کی تصدیق کرینگے۔۔دو دہائی پہلے تب روزنامہ خبریں کا سورج “نصف النہار” پر تھا اور اس کے بانی جناب ضیا شاہد” اوج کمال” پر تھے۔۔خبریں کا نیوز روم پاکستان کا سب سے بڑا نیوز روم تھا۔۔نیوز روم کیا ایک چھت تلے “میڈیا سٹی” تھا۔۔لیکن عالم گیر سچائی یہ ہے کہ ہر دن کے “سورج” کو ڈھلنا ہے اور ہر “کمال” کو زوال ہے۔۔رہے نام اللہ کا!!!میں نے خبریں کے اس عروج کے زمانے میں بھی دیکھا کہ سخت گیر ضیا شاہد نیوز روم کو “مقدم” مانتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے۔۔نیوز روم اتنا با اختیار تھا کہ وہ سنگل کالم سرخی میں بھی مداخلت نہ کرتے۔۔کبھی نیوز روم میں آتے تو کہتے کہ آپ لوگوں کا وقت بہت قیمتی اور کام بہت حساس ہے،مجھے دیکھ کر کھڑے نہ ہوا کریں۔۔ دھیمے مزاج کے مدبر مدیر جناب نجم سیٹھی کا بھی یہی انداز دیکھا۔۔کہنے کا مطلب ہے کہ کسی بھی میڈیا ہائوس میں نیوز روم کو “محتسب” کا درجہ حاصل ہوتا ہے لیکن شو مئی قسمت کہ آج صحافت کا یہ اہم ترین شعبہ خود “کٹہرے”میں کھڑا ہے۔۔کاش پنجاب کے صحافی وزیر اعلی صحافی کی “انوکھی تعریف”وضع کرنے سے پہلے اپنے سنجیدہ اور فہمیدہ گروپ ایڈیٹر جناب نوید چودھری سے ہی مشورہ کرلیتے تو یہ تنازع جنم نہ لیتا۔۔۔یہ “ہنگامہ” برپا نہ ہوتا۔۔

 ہزار باتوں کی ایک بات جو کام لاہور پریس کلب کے صدور و سیکرٹری  ارشد انصاری. اعظم چوہدری۔ محسن گورایہ شہباز میاں. سرمد بشیر سیکرٹریز عبدالمجید ساجد۔ نعمان یاور۔ افضال طالب۔ زاہد چوہدری .زاہد عابد۔ بابر ڈوگر سمیت دیگر نہ کر سکے وہ ہمارے  نگران وزیر اعلی اور ان کے حواریوں نے کر دکھایا ۔۔۔۔

 حضور یہ ایک قسم کی سکروٹنی ہی کی گئی ہے ماضی میں ہر گروپ نے بلا تفریق اپنے الیکشن جیتنے کے لئے اندھا دھند ممبر شپ کی اور پلاٹ سیاست کر پروان چڑھایا۔۔ روزنامہ تانگہ۔ روزنامہ بوتل۔ روزنامہ ماچس سمیت بہت ساری پھودو قسم کی ایجنسیز اور دیگر ہفت روزہ اور ماہانہ میگزین جو صرف دیوار اور سلیٹ پر چھپتے ہیں کو بھی ممبر شپ دے کر صحافی بنا دیا گیا پھر پلاٹ کا لالچ دے کر یہ تعداد بڑھتے بڑھتے 2200 سے تجاوز کر گئی ۔۔۔ اب جب کلب والے سکروٹنی نہیں کر رہے تھے کسی نے تو اس گندگی کو صاف کرنا ہے ۔۔ لہذا بہتر یہی ہے کلب کی سکروٹنی کر کے پھر صحافیوں کا مقدمہ لڑا جائے ۔۔انشاء اللہ فتح صحافی کمیونٹی کی ہی ہو گی۔۔(امجد عثمانی،نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں