تحریر: امجد عثمانی۔۔
سو چتا ہوں کہ صحافتی افق پر” دمکتے ستارے” بھی ہوتے تو بجھ سے جاتے کہ وہ نیوز روم سے ابھرے تھے اور دو ہزار چوبیس کے الیکشن کی نگران پنجاب حکومت نےانہیں “کوچہ صحافت “سے ہی خارج کرنے کا “فتویٰ ” دیدیا۔۔۔۔۔میری مراد شہ سرخیوں کے “سرخیل” جناب سید عباس اطہر ۔۔۔جناب جواد نظیر اور جناب تنویر عباس نقوی ہیں۔۔۔۔
کیا باکمال اخبار نویس اور کالم نویس تھے۔۔۔۔!!یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بہترین ایڈیٹرز نے ہمیشہ نیوز روم سے ہی جنم لیا۔۔۔۔۔ کبھی نیوز روم میں سب ایڈیٹر سے چیف نیوز ایڈیٹر ایک” سفر “ہوا کر تا تھا۔۔۔۔۔تب کہیں جاکر ایڈیٹر کی “منزل” ملتی تھی۔۔۔نیوز روم سے
کئی رپورٹرز نے بھی ایسا “نکھار ” پایا کہ ان کے دم قدم سے گلستان صحافت” مہک” اٹھا ۔۔۔۔۔شومئی قسمت کہ یہ “پیرا شوٹرز “کا
عہد ہے اور “ڈائریکٹ حوالدار” کی طرح “براہ راست” کنٹرولر نیوز ۔۔۔۔۔اور۔۔ڈائریکٹر نیوز۔۔۔۔اترتے ہیں۔۔۔یہ تو جملہ حقوق کی بات ہے کہ جن کا چینل ان کی مرضی۔۔۔۔!!
بہر حال پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ جناب محسن نقوی سے نیوز روم کو “ملال” رہے گا ۔۔نیوز روم ہی نہیں میگزین ۔۔اداریہ نویس
کالم نگار ۔۔۔ٹی وی پروڈیوسرز اور اسائنمنٹ ایڈیٹرز بھی ان سے “نالاں”رہیں گے۔۔۔۔انہوں نے سرکاری ذرائع ابلاغ یعنی پی ٹی وی ریڈیو اور اے پی پی کو بھی “ناراض” کر دیا۔۔۔۔سال ہا سال سے دشت صحافت کی سیاحی کرنے والے صحافیوں کو لگا یہ “گہرا گھائو” شائد ہی کبھی بھر پائے۔۔۔۔!!! دو ہزار بائیس کے اوائل میں پی ٹی آئی دور حکومت میں جرنلسٹس پروٹیکشن بل کے نام پر بھی صحافی کی اسی طرح کی “تعریف” گھڑی گئی جس میں فوٹو گرافر اور کیمرا مین کو “دائرہ صحافت” سےخارج کر دیا گیا ۔۔۔تب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فوٹو گرافر کیمرا مین کو “صحافی”کی تعریف میں شامل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ۔۔قانون اس بارے میں مکمل طور پر واضح ہے کہ کون صحافی ہے؟ کیمرا مین اور فوٹو گرافر کا کام رپورٹر سے بھی اہم ہے۔۔۔ ایک تصویر اور وڈیو سے زیادہ مؤثر کوئی تقریر نہیں ہو سکتی۔۔۔۔پھر عمران حکومت کا نام نہاد ” تحفظ بل “منہ کے بل جا گرا ۔۔۔پنجاب کے نگرانوں کا صحافیوں میں تقسیم کا منصوبہ بھی تحلیل ہو جائے گا۔۔۔۔۔پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس۔۔صحافی کی تعریف طے کر چکی ہے اور یہی صحیح تعریف ہے۔۔۔۔ پی ایف یو جے کی وضع کردہ تعریف کے مطابق روزناموں، ہفتہ ناموں، ماہ ناموں، نیوز ایجنسیوں نیوز ٹی وی چینلوں میں کام کرنے والے “قلم مزدور” ہیں۔۔پی ایف یو جے کے مطابق ” ورکنگ جرنلسٹ” بھی صرف وہ کہلائے گا جس کا گزر بسر صحافت سے ہونے والی آمدنی پر ہو ۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ جب آئین قانون اور صحافتی دساتیر میں صحافی کی تعریف طے ہے تو پھر طے شدہ ضابطے سے چھیڑ چھاڑ کیوں؟رہے پنجاب کے معتبر صحافتی ادارے۔۔۔ لاہور پریس کلب کے بارے میں پنجاب کے “نگران تخت نشینوں” کے منفی ریمارکس تو بقول غالب صرف
یہی عرض ہے کہ۔۔۔۔۔۔ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم، کہ تو کیا ہے؟،تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے ؟؟؟؟(امجد عثمانی)۔۔