تحریر: شکیل احمد بازغ
مجھے وہ لوگ پسند ہیں جو خود تراشیدہ روایات اور خوف کے بُتوں کو توڑتے ہیں۔ کل ایک پوسٹ پڑھی پڑھ کر مزہ آیا۔ عائشہ یوسف نے سینکڑوں اینکرز کے دلوں کی وہ بات دبنگ انداز میں لکھ دی جو زیر لب اینکرز کہتے پائے جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ پروڈیوسر اور اینکر کا رشتہ ساس بہو کی طرح کا ہے وہ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتیں لیکن نباہ کی مجبوریاں دونوں جانب ۔۔۔یہ وہی عائشہ یوسف ہیں جنکی محنت لگن اور دیگر پیشہ ورانہ خوبیوں سے خائف حاسدین نے ماضی میں انکی جعلی ویڈیو کے ذریعے کردار کُشی جیسی غیر معقول حرکت کی۔ جلنے والوں کا منہ کالا۔
خیر پوسٹ میں پروڈیوسرز کی اقسام بتائی گئیں جسے پڑھ کر حرف بحرف سچائی کا یقین ہوتا ہے۔ اور اپنی برادری پر حرف تبرٰی مجھے درست محسوس ہوا۔ پوسٹ میں نے شیئر کی تو پھر پروڈیوسرز کے فون پر فون میسجز پر میسجز کہ تم بھی لکھو۔ میرا ٹکا سا جواب تھا کہ اسکی باتیں درست ہیں۔ ہم سب خود اس قابل ہیں کہ ہمیں ایسا بولا کہا جائے۔ ہاں وہ یہ بتانا بھول گئی کہ بات پینل پروڈیوسرز کی کر رہی تھی نیوز روم کے پروڈیوسرز کی شاید اگلی قسط وہ یا کوئی اور لکھے۔ دوستوں کے اصرار پر میں عائشہ یوسف کی پوسٹ کی تائید کرتے ہوئے چند اہم باتیں پروڈیوسرز اور اینکرز کے گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں جس پروڈیوسر کی قسم بتانے جارہا ہوں اسکا ذکر اس پوسٹ میں نہیں تھا۔ اور میرے مطابق ایسی ہی خوبیوں کا حامل پروڈیوسر کہلائے جانے کا حقدار ہے۔
ہمارے ہاں عہدوں کے مراتب کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ سارے پروڈیوسر سارے اینکرز اور سارے ہی صحافی کہلائے جاتے ہیں جبکہ سینئر جونیئر کے امتیازی عہدوں کے نام ہیں جیسے ٹرینی پروڈیوسر اسسٹنٹ پروڈیوسر ایسوسی ایٹ پروڈیوسر، پروڈیوسر سینئر پروڈیوسر وغیرہ۔ اسی طرح نیوز ریڈر نیوز کاسٹر اور اینکر پرسن۔پروڈیوسر کیسا ہو یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ وہ کیپٹن آف دی شپ ہوتا ہے آپریٹر نہیں۔ اس پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے۔ بیسیوں لوگوں کی محنت اسکے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ بِگاڑ دے سنوار دے چار چاند لگا دے۔ اسکے لیئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کے تعین کے ساتھ ساتھ خود میں قابلیت و اہلیت بھی پیدا کرے۔ اسکی زبان سے نکلے ہر لفظ کو بطور instruction لیا جاتا ہے۔ اہم ترین بات اسکی آنکھیں اور دماغ کھُلے اور حاضر ہوں۔ آواز ویڈیو کیمرہ گرافکس سکرپٹ اور سکرین پر فیس آف دی چینلز دراصل پینل پروڈیوسر کے puppets کے طور پر کام کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے بالکل ایسا ہی ہے جیسا عائشہ نے بیان کیا کچے کچے توڑ کر پینل پر بٹھا دینا کہ جاو سب کو ہدایات دو “جیاستی” ہے۔
اینکرز کو میں معصوم اس لیئے کہتا ہوں کہ وہ ہر اہل نا اہل پروڈیوسر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ پینل پروڈیوسر کو اس قابل ہونا چاہیئے کہ وہ واضح الفاظ میں غیر مبہم اور مکمل ہدایات مختصراً دے سکتا ہو۔ اینکر کو سمجھ نہ آئے تو دہرا دینے میں قباحت محسوس نہ کرے۔پروڈیوسر کے اپنے حواس اسکے قابو میں ہوں۔۔تین سٹیپس آگے پر اسکی نظر ہو اگلے سٹیپ کی ہدایات سب تک بروقت پہنچائے۔۔اینکرز کے چہرے کے تاثرات بھانپنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ بسا اوقات اینکر ایسی صورت حال سے دوچار ہوتا ہے جو وہ زبان سے نہیں کہہ سکتا اشارتاً نہیں کہہ سکتا لیکن اسکے چہرے پر آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ جسے پروڈیوسر کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ فیصلہ کرسکے۔۔فیصلہ سازی کی طاقت و جرات رکھتا ہو۔۔اینکرز کا مددگار ہو کہ اسکے لیئے آسانیاں پیدا کرے کیونکہ اگر اینکر مشکل میں ہے تو سکرپٹ کو صحیح طور سے ادا کرنے میں کمی رہ جاتی ہے۔سب کی غلطی چھُپ سکتی ہے لیکن اینکر کو سب دیکھ سن رہے ہیں اس لیئے اینکر کو easeکرنا پروڈیوسر کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔ نہ کہ اسے مشکل میں ڈالے۔۔پروڈیوسر کا کانٹینٹ اتنا مضبوط ہو کہ وہ اینکر کو اضافی سوالات بتا سکے۔ لنکس پورے پورے بتا سکے۔ خبر کا زاویہ سمجھا سکے۔ موڈ کیا اختیار کرنا بتا سکے۔
شازیہ ذیشان اور جواد احمد صدیقی دنیا بارہ بجے نیوز شو کر رہے تھے میں پینل کر رہا تھا۔ میں نے شازیہ کے تلفظ کی اصلاح کی بریک میں شازیہ نے ہاتھ ہلایا میں نے مائیک آن کرایا۔ تو ضیاء بٹ صاحب ایگزیکٹو پروڈیوسر جو پی سی آر میں ہی بیٹھے تھے کو مخاطب ہوکر کہنے لگی کہ بٹ صاحب شکیل سے کہیں میری کریکشن نہ کیا کرے۔ بٹ صاحب نے کہا کہ یہ پینل پر بیٹھا ہے پینل پروڈیوسر سینئر پروڈیوسر اور ایگزیکٹو سب کچھ یہی ہے اسکا کام ہے تصحیح کرنا۔ تب میں نے یہ سیکھا کہ کبھی اینکر کی سب کے سامنے تصحیح نہیں کرنی بلکہ الگ سے میسج یا کسی اور موقع پر اچھے سے بتا دینا۔ لیکن سحرش زوہیب نبیحہ اعجاز مدیحہ نقوی ذیشان بشیر علینہ فاروقی فضہ خان و دیگر اینکرز ایسے بھی تھے جو ہمیشہ میری دی گئی رہنمائی کو کھلے دل سے قبول کرتے۔ یہی نہیں میں نے سب کچھ اینکرز سے ہی سیکھا۔ میرا ڈیپارٹمنٹ مجھ سے اس لیئے ناراض رہتا کہ ہر وقت تمہاری سِٹنگ اینکرز کے ساتھ ہوتی ہے ہمیں تم لفٹ نہیں کراتے دراصل میں سمجھتا ہوں اینکرز سکول و کالجز کے شاندار سٹوڈنٹس مہذب باصلاحیت اور پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ان کی کمپنی میں ہمیشہ اصلاح اور سیکھنے کو ملتا ہے۔ انکے طنز ومزاح بھی ایک حد سے آگے نہیں جاتے۔ لیکن انکی بدقسمتی ہے کہ انہیں براہِ راست ڈکٹیٹ کرنے والوں کی اکثریت مطالعے کے شوق سے محروم ہے۔ امیر عباس سے میں نے یہ سیکھا تھا کہ کالم ایک اینکر اور پروڈیوسر کیلئے بہت ضروری ہے لیں جی اس سبق کو میں نے ایسا یاد رکھا کہ آٹھ سال میں نے بلا ناغہ روزانہ بارہ سے پندرہ کالمز پڑھے۔ (ماسوا ان دنوں کے جب کوئی اخبار نہیں چھپتا تھا)اور اسکی افادیت مجھے طارق متین۔بھائی نے بتائی تھی کہ پینل پروڈیوسر کا کانٹینٹ نہیں ہوگا تو اینکر اسے کچا چبا جائے گا۔ جواد احمد صدیقی کے مزاج سے میں نے یہ سیکھا کہ کس طرح calculated بولا جائے۔ اسامہ غازی سے سیکھا کہ کتنی بڑی ٹینشن کیوں نہ ہو چہرے پر بگاڑ نہ آئے۔ خود کو بتاو all is well۔۔۔پینلسٹ کو نہ صرف حالات حاضرہ کی خبر ہو بلکہ وہ اینکر سے علمی بحث مباحثہ کرنا جانتا ہو۔کسی بھی صورت اینکر کو تناؤ یا پریشر میں لانے کا مطلب سکرین خراب کرنا ہے۔ جسے اللہ نے آپکے اختیار میں دیا اس پر چِلانا کم ظرفی ہے۔ بلکہ ایسا دوستانہ رویہ ہو کہ اینکر اور دیگر سٹاف پروڈیوسر کی چُٹکیوں کو سمجھے۔
ہدایات دیتے وقت ٹپوری ٹرمینالوجی کے استعمال سے گریز کریں۔۔پروڈیوسر خبر لکھنا پیکج رپورٹ لکھنا بولنا پڑھنا آوازکے اتار چڑھاو موڈز کو ایکٹ کرنا اس میں بہتری لانے کی اہلیت رکھتا ہو۔دو خبروں کے درمیان اینکر کو ٹرانزیشنل فقرات بتانا جانتا ہو۔یہ بات عائشہ نے درست کہی ہے کہ جو پروڈیوسر کیمرے کے سامنے ایک بھی خبر پڑھنا نہیں جانتا وہ کیسے اینکر کو ڈکٹیٹ کرے گا۔۔کمزور اینکر کو مطالعے کی ترغیب اور اسکے فمبلز کو بچانا پروڈیوسر کی ذمہ داری ہے۔ میں نیو نیوز میں آیا تو آغاز میں میں نے تمام اینکرز کو روزانہ کی بنیاد پر اسائنمنٹ برائے مطالعہ دینا شروع کیں تو کچھ اینکرز کو ناگوار گزرا لیکن اکثریت نے اسکی اہمیت کو سمجھا لیکن چونکہ مجھے یہ اضافی شے معلوم ہوئی اسی لیئے اسے ترک کردیا۔ جیسے پروڈیوسرز نہیں پڑھتے اسی طرح بعض اینکرز بھی ہیں جو کالمز یا دیگر مددگار تحریریں و کتابیں نہیں پڑھتے۔ اور دس دس سال تک نیوز ریڈر کی تعریف سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔۔پروڈیوسر کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آج کی اہم خبریں کیا ہیں ہمارا فوکس کس پر ہے اور آج کے ہونے والے اہم واقعات اور انکا سیاق و سباق کیا ہے۔۔اینکر کو اگر آپکی کسی ہدایت کی سمجھ نہیں آئی تو اسکے چہرے کے تاثرات کو سمجھ کر دو تین بار دہرا دیں۔ واضح ہدایت سے اپنا فریضہ ادا ہوجاتا ہے اور اینکر بھی شش و پنج میں نہیں رہتا۔اینکر کو آن سکرین چھینک کھانسی جیسا فطری تقاضہ لاحق ہے تو جناب سمجھیں دیکھ کر خود فیصلہ کریں فوٹیج سکرین پر لے آئیں مائیک بند کریں اسے آف کیم کریں تاکہ آن کیم غیر ضروری حرکت نہ ہوجائے جس سے اسکا امیج متاثر ہو یا وہ زیر بحث آئے۔۔اگر اینکر نے پروڈیوسر کی کسی کمی کوتاہی کا بنفس نفیس یا کسی اور محفل میں ذکر کیا تو بجائے الجھنے کے اس کمی کوتاہی کو ختم کیا جائے۔۔۔
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سیکنڈز کی گیم میں آپ کوئی ہدایت نہ دے پائے یا پروڈیوسر صاحب آپ سے غلطی ہوگئی جس سے اینکر کی کارکردگی متاثر ہوئی یا ہوسکتی تھی تو فوری اینکر سے معذرت کرکے اپنی غلطی کا ازالہ کردینے سے شان بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔ اینکرز بھی مختلف مزاج رکھنے والے انسان ہوتے ہیں تو انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا انہیں ساتھ لیکر چلنا انہیں انکا مقام دینا بہت ضروری ہے تب وہ آپکی بات بھی سنیں گے آپکی رہنمائی کو مدد بھی سمجھیں گے اور آپکے بلنڈرز کو کور بھی کریں گے۔اگر آپ کو کوئی سٹنٹ سوجھا ہے یا کچھ مختلف کرنے جارہے ہیں تو اینکر کو واضح ہدایات دے دیں۔ آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اینکر کے کان سنیں اور وہ کردکھائے ورنہ آپکی کریئیٹویٹی لائبلیٹی بن جائے گی۔۔سونیا راؤ نے سامنے رکھی کوئی سی بھی ہیڈلائنز اٹھا کر پڑھ دیں اور فوٹیج سے بالکل بھی مطابقت میں نہیں تھیں۔ ڈائریکٹر نیوز ابصار عالم صاحب نے مجھے (پینلسٹ) نیوز روم شفٹ انچارج این۔ ایل ای اور سونیا راو کو بلا لیا۔ میں نے سونیا سے کہا دیکھو پرامپٹر پر لگی تھیں ہیڈ لائنز مجھے لگتا ہے میری غلطی نہیں۔ آپ کی ہے یا نہیں آپ اپنے پر لے لینا کیوں کہ آپ اتنی خوبصورت ہو کہ قسم سے آپکو کوئی نہیں نکالے گا لیکن میرا وجود ہی اضافی تصور ہوگا۔ ابصار عالم صاحب گرج کر بولے آج ایک تو گیا۔ میرے رنگ اڑ گئے فوری سونیا بولی سر میری غلطی ہے میں نے دس بجے کی ہیڈ لائنز پڑھ دی تھیں۔ قسم سے آج تک اسکا احسان یاد ہے۔ یہ اور بات کہ واقعی اس نے گیارہ بجے دس والی اٹھا کر پڑھ دیں۔ تعلق ایسا ہو کہ ایک دوسرے کو بچانا مقصود ہو نہ کہ روڑے اٹکائے جائیں۔کسی اینکر کی نوکری داو پر لگی ہو یا وہ ناپسندیدہ ہو تو اسے سمجھانے کیساتھ ساتھ اسے سپورٹ کرنا اسکی غلطیوں پر پردہ ڈالنا خود پہ لینا اسے بچانا پروڈیوسر کا اخلاقی فرض ہونا چاہیئے۔۔نئے آنے والے اینکرز کو حوصلہ اور سپورٹ دینا پروڈیوسر ہونے کی نشانی ہے۔ وہ بیچارہ پہلے کملایا ہوا ہے اس پر اپنے تجربے کی دھاک بٹھانا کم ظرفی ہے۔
اینکر کی غلطی پر اسے علیحدہ سے توجہ دلانا چاہیئے اور اس کی اچھی کارکردگی کو سب کے سامنے سراہنا چاہیئے۔۔۔بلٹین سے پہلے تمام gadgetsکو چیک کر کے اطمینان کر لینا پروڈیوسر کیلئے ایس او پی ہے۔ کبھی بلائنڈ نہ کھیلیں نہ اینکر کو اس امتحان میں ڈالیں۔۔۔اینکر کو بتائیں کہ اسے آن سکرین کٹ کرنے جارہے ہیں۔ یا وہ آف سکرین ہے۔ اینکر کو کم سے کم سکرین پر رکھیں یا کم از کم اسے آف سکرین بھی کریں۔۔نیوز روم پروڈیوسر سے کبھی خوش نہیں ہوگا۔ اسکا حل یہ ہے کہ آپ اتنے اہل ہوں کہ نیوز روم میں بیٹھے لوگوں سے سیکھیں اور انہیں سکھائیں۔۔۔کیپٹن آف دی شپ کو چاہیئے کہ وہ کام کے دوران ہونے والی ہر غلطی کو پہلے اپنی غلطی سمجھے اسکے بعد جانچ پڑتال کے بعد قصور وار کو تنبیہ جاری کرے۔۔بلٹین۔ سے پہلے اینکرز اور دیگر سٹاف کو خوشگوار موڈ میں لانا بہت ضروری ہے۔ میں تو اب بھی بلٹین سے پہلے با آواز بلند کہتا ہوں ان شاء اللہ ایک بم قسم کا بلٹین کرنے جارہے ہیں۔ یا کہہ دیتا ہوں اینکر سے کہ آج آپ کو یہ ٹائی یا یہ دوپٹہ یا بال سوٹ کر رہے ہیں آج ریٹنگ آئے گی۔ ایسے دو چار الفاظ اینکر کی کارکردگی میں جان ڈال دیتے ہیں۔پروڈیوسر میں اتنی جان ہو ایسی دلیل ہو اتنی اہلیت ہو کہ اینکرز اسے دوست بھی مانیں اور اسے چیلنج کرتے وقت ہزار بار سوچیں بھی۔
ایک چینل میں ایک ہائلی پیڈ اینکر کی اہلیت سے میں واقف تھا اس نے مجھ سے کافی بار پنگا لیا۔ جتنا برداشت کرسکتا تھا کیا۔ ہوا یہ کہ سی ای او نے کہا فلاں پروگرام اینکر کو ایمرجنسی ہے اسکا متبادل اینکر دو۔ میرے پاس دو اینکرز تھے ایک شاندار اور ایک بے ادب بیکار۔ میں نے آئینہ دکھانے کیلئے فوری اسکا نام دے دیا۔ مجھ سے پوچھا گیا کرلے گی میں نے کہا تین لاکھ تنخواہ دے رہے ہیں مجھے یقین ہے کرلے گی۔ میں نے اسے کہا دو گھنٹے ہیں پروگرام تیار کرو۔ وہ بولی شکیل میرے گردے میں درد ہے فلاں سے کرالو۔ میں نے کہا سنیں آپکی اتنی تعریفیں کرکے میں آپکا امیج بنانے جارہا ہوں وہ دوسرا اینکر آپ سے جونیئر ہے۔ وہ قابل اعتماد نہیں
You can do it, go for it.
اب وہ پھنس چکی تھی طوطے اُڑے پروگرام کیا۔ اور سب پر واضح ہوگئی۔ اسکے بعد کافی احترام سے پیش آتی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اونچا بولنا ہی آپشن نہیں۔ اینکرز کو آپ نے قابو کرنا ہے نہ کہ وہ آپکو قابو میں *لیئے لیئے* پھریں۔۔ پروڈیوسر ٹیم کا کپتان ہے اسے لیڈر کی طرح پیش آنا چاہیئے بالکل ایسے جیسے کہا جاتا ہے کہ بڑے بہت کچھ برداشت کرکے جیتے ہیں۔۔ اگر یہ سب کچھ پروڈیوسر نہیں کرسکتے تو ایک آسان کام کریں۔ سینئرز ترین عہدیداران کی خوشامد کریں کھانے کھلائیں انکی ٹائی بیلٹ باندھیں۔۔یقین کریں یہ خوبی دیگر تمام خوبیوں پر حُکمران ہے۔ اور اس کیلئے کمینگی کی جتنی حد تک آپ جاسکتے ہیں چلے جائیں آپ سردار ہیں باقی ہم جیسے مزدور آپکے محکوم۔۔۔(شکیل بازغ)۔۔