تحریر: علی عمران جونیئر۔۔
کوروناوائرس اور لاک ڈاؤن میں نیوزون انتظامیہ کا کارکنوں کو تحفہ، نیوزون میں ملازمین کی چائے بند کردی گئی۔۔پپو کے مطابق نیوزروم میں حکم شاہی نافذ کیاگیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے ورکرز کو اب چائے نہیں ملے گی، اس چینل میں ایک شفٹ کے دوران ایک چائے ورکرکے لئے فری تھی، لیکن کورونا اور لاک ڈاون کے بعد ورکرز سے کہاگیا ہے کہ جسے چائے پینی ہے وہ گھر سے کپ لے کر آئے۔۔ اسی طرح پینے کے لئے پانی کا بھی حساب ہے اپنی بوتل لائیں گے تو پانی پی لیں ورنہ آٹھ سے نوگھنٹے کی شفٹ میں پیاسے بیٹھے رہیں۔۔پپو کے مطابق مارننگ شفٹ کے لوگ چندہ کرکے روزانہ ڈسپوزیبل کپ منگواکر چائے پیتے ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ چائے اب صرف اسے مل رہی ہے جو اپنا کپ آفس بوائے کو دے گا۔۔ ورنہ اس کے لئے چائے بند ہے جو کپ نہیں دے گا۔۔ دوسری طرف ڈبل سواری پر پابندی کی وجہ سے کئی کم تنخواہوں والا اسٹاف جو ساتھی ورکرز کے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر آجاتا تھا اب رکشہ اور ٹیکسی پر منہ مانگے کرایہ دے کر دفتر آرہے ہیں۔۔جب خواتین پر بھی ڈبل سواری پر پابندی تھی تو خواتین ورکرز کو بھی شدید دشواریوں کا سامنا تھا کیوں کہ نیوزون اپنی فی میل ورکرز کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم نہیں کرتا۔۔دوسری جانب جب عمران جونیئر ڈاٹ کام پر کورونا کے پانچ مریضوں کے سامنے آنے کی خبر شیئر کی گئی تو۔۔ نیوزون کے ڈی این نے اسے غلط خبر قرار دیا۔ نیوزون کے کئی ملازمین نے کمنٹس میں اور کئی نے مختلف نیوزگروپوں میں پپو کو تو برابھلا کہا ہی،عمران جونیئر کو بھی رگید ڈالا۔۔ اور ذاتیات پر اترآئے۔۔ حالانکہ یہاں کسی کی کردار کشی کا معاملہ تھا نہ کسی کا نام لے کر کوئی خبر بیان کی گئی تھی۔۔ کورونا کے حوالےسے ہم نے اب تک جتنی خبریں مختلف چینلز کے حوالے سے دی ہیں کسی مریض کا نام دیا نہ دیگر کوئی تفصیل ۔۔اچھا مزے کی بات ، جو بھی ہماری نیوزکے نیچے کمنٹس کررہے ہیں (نیوزون کے ورکرز کی بات کررہا ہوں) اور ہماری خبر کو غلط یاپپو کو “تھلے” لگانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔۔ ان لوگوں میں سے ستر فیصد وہ لوگ ہیں بیچارے جو انباکس میں آکر درخواست کرتے ہیں عمران بھائی پلیز، ایک نیوز تو لگادیں ہماری سیلری نہیں مل رہی۔۔۔اگر ان کے کمنٹس کے جواب میں ان کے اسکرین شاٹس لگانا شروع کرتا۔۔تو کیا باقی رہ جاتا؟؟ لیکن ہمارا ایسا ظرف نہیں، ہمارے دوست جو ہم پر اعتماد کرتے ہیں ہم کبھی اسے ٹھیس نہیں پہنچاتے اور یہی ہماری ساکھ ہے ، یہی ہماری جیت اور کامیابی ہے۔۔جتنے گھٹیا انداز میں کمنٹس کئے جارہے تھے ،مجھے افسوس ہی ہورہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے اپنی دوستیاں خراب کرو،کیرئر خراب کرو۔۔مولا علی علیہ السلام کا قول ہے، جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔۔ اس لئے اب مستقبل میں شرپسندوں سے بچنے کی پوری کوشش کی جائے گی لیکن احسان کا سلسلہ رکے گا پھر بھی نہیں۔۔اب چلیں کل کی خبر پر بات کرلیتے ہیں۔۔ جن دوستوں نے وہ نیوز نہیں پڑھی۔۔ اور صرف ہیڈنگ دے کر فتوے جاری کرنا شروع کردیئے۔۔ان کے لئے ایک بار پھر وہ خبر من و عن یہاں دے رہے ہیں۔۔ خبر کچھ یوں تھی کہ۔۔
“کراچی کے نجی چینل نیوزون میں کورونا کے پانچ مریض سامنے آگئے ہیں۔۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ ہفتے پی سی آر میں کام کرنے والے ایک ورکر کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا جس کے بعد سے وہ سرکاری علاج گاہ میں انڈر ٹریٹمنٹ ہے، جس کے بعد مزید چار مریض سامنے آئے جن میں ایک خاتون میک اپ آرٹسٹ بھی ہیں۔۔ ایک لائن مین ہے جس کا ہر ڈپارٹ میں آنا جانا ہے۔۔ اس حوالے سے چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے عمران جونیئر ڈاٹ کام کو رابطہ کرنے پر بتایا کہ نیوزون میں صرف ایک ہی کورونا مریض تھا جو رخصت پر ہے اور جس کا علاج چل رہا ہے، جس کے بعد دفتر میں روزانہ ورکرز کے ٹیسٹ کرائے جانے لگے ، جن مزید چار کورونا مریضوں کے حوالےسے جب ان سے سوال کیاگیا تو انہوں نے کہا کہ، ان کے ٹیسٹ روک لئے گئے تھے، ڈاکٹروں کو کچھ شبہ تھا چنانچہ ان کے دوبارہ ٹیسٹ لئے گئے، جن کی رپورٹ بھی آگئی ہے اور کسی کو کورونا نہیں ہے۔۔ڈائریکٹر نیوز کے بعد جب عمران جونیئر ڈاٹ کام نے نیوزروم کے کچھ لوگوں سے اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے اعتراف کیا کہ اب تک پانچ مریض سامنے آئے ہیں، جس میں سے اب کوئی بھی دفتر نہیں آرہا انہیں انتظامیہ نے چھٹی دے دی ہے۔۔وہ علاج کے بعد جوائن کریں گے۔۔ پپو نے انکشاف کیا کہ حیرت انگیز طور پر کورونا اور لاک ڈاؤن کے دوران چینلز کی اکثریت میں ورکرز کو ریلیف دیاگیا ہے، ان کی ٹائمنگ اور چھٹیوں میں ریلیکس دیا گیا ہے، کہیں تو آلٹرنیٹ ڈیز کا سلسلہ بھی ہے لیکن اس چینل میں سب کو لازمی آنے کا کہا گیا ہے اور اپنے ڈیوٹی آورز بھی لازمی پورے کرنے کی ہدایت ہے۔۔ “
چلیں اب خبر کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔۔۔پپو کو کیوں رگڑا جارہا ہے۔۔ وجہ آگے بیان کرتے ہیں۔۔ پپو کے حوالے سےپہلی لائن میں یہ انکشاف کیاگیا ہے کہ ایک مریض کا ٹیسٹ پازیٹیو آیا، جس کا سرکاری علاج گاہ میں علاج چل رہا ہے۔۔ اس کے بعد مزید چار کی بات ہوئی ، جسے آگے چل کر اسی نیوز میں نیوزروم کے کچھ لوگوں نے کنفرم کیا۔۔ یہ بالکل اسی طرح جیسے رابطہ کرنے پر ڈی این نے بتایا کہ صرف ایک مریض ہے۔۔عمران جونیئر ڈاٹ کام نے ڈی این کا بھی موقف خبر میں دیا اور نیوزروم کے کچھ لوگوں کے حوالے سے بھی پانچ مریضوں کی بات کی۔۔۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ رپورٹر ہویا اسائمنٹ ڈیسک، کاپی والے ہوں یا نیوزروم کاکوئی اور دوست۔۔کوئی انسان عقل کل نہیں ہوتا۔۔ کوئی یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ جتنا میں جانتا ہوں سامنے والے کو کچھ نہیں پتہ۔۔نیوز روم والوں کی اکثریت کو یہ علم نہیں ہوگا کہ کس طرح سے کچھ لوگوں کے ٹیسٹ کے نتائج روکے گئے؟ ایک بار میٹنگ بھی کینسل کی گئی؟ کس کس کے ٹیسٹ ڈاکٹرز نے مشکوک قرار دیئے؟؟ کن کن لوگوں کو دوبارہ بلاکر ٹیسٹ لیاگیا؟کسے آفس آنے سے روک دیا گیا، کسے چھٹی دی گئی ہے؟ ہم اگر کوئی خبر دے رہے ہیں تو اس کے سارے اینگل بھی کور کررہے ہیں۔۔ خبر کے حوالے سے کون کیا کہہ رہا ہے وہ بتارہے ہیں۔۔ اپنی خواہشات کا اظہار کررہے ہیں نہ کوئی ریٹنگ گیم ہے کہ اس سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ ہے۔۔اور نہ ہی نیوزون سے ہمارا کوئی مفاد ہے۔ ۔ اعتراض کرنے والے اپنے اطراف دیکھیں کون چھٹی پر ہے، کون دفتر نہیں آرہا۔۔ پھر انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ حقیقت کیا ہے؟ سوچنے کی بات ہے پہلا مریض گزشتہ ہفتے سامنے آیا تھا ہم نے اس وقت خبر نہیں دی،کیونکہ کچھ سینئر احباب نے پریشر ڈالا تھا کہ اب چینلز میں کورونا مریضوں کے حوالے سے کوئی نیوز نہ دینا۔۔ اس سے دیگر ورکرز کا مورال ڈاؤن ہوجاتا ہے اور ان کے گھروالے بھی ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔۔لیکن جب پانچ کی اطلاع ملی تو اس نے مجبورکردیا کہ اس خبر پر کام کیا جائے۔۔ اعتراض کرنے والے صحافی ہیں، لیکن جو بیچارے اس مرض کا شکار ہوئے وہ صحافی نہیں۔۔ دوبارہ غور سے پڑھ لیں اور سن لیں ۔۔ کورونا کے نئے مریض صحافی نہیں، صرف ورکر ہیں۔۔ان کے لئے کسی تنظیم نے آواز نہیں اٹھانی، اور افسوس تو یہ ہے کہ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے بھی اپنے غیرصحافی ساتھی ورکرز کے حالات سے لاعلم ہیں۔۔ہم نے کسی چینل میں سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگائے کہ وہاں کی ہر سرگرمی عمران جونیئر ڈاٹ کام دیکھ رہی ہے۔لازمی سی بات ہے کہ چینلز میں کام کرنے والے ہی ہم تک اطلاع پہنچاتے ہیں، پھر ہم اسے کاؤنٹر چیک کرتے ہیں۔۔ دو،تین کئی بار چار یا پانچ جگہ سے چیک کردیتے ہیں کہ خبر کیا ہے؟ پھر جس خبر پر شک ہوتا ہے اور جو کنفرم نہیں ہوپاتی ہم اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔۔
کورونا کے حوالے سے حکومت کی ایس او پی یہ ہے کہ جہاں بھی کورونا کا مریض ہو اس کی پوری فیملی کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے، اور مریض کو گھر والوں سے الگ کرکے علاج شروع کردیاجاتا ہے۔۔ اور ملک بھر میں کئی ایسے کیسز بھی سامنے آئے کہ جہاں سے کورونا مریض ملے وہ جگہ تک سیل کردی گئی۔۔ لیکن میڈیا ہاؤسز چونکہ طاقت ور ہیں ان سے پوچھنے والے کوئی نہیں۔۔کورونا کا شکار کون ہوگا، غریب ورکر؟ جو بغیر تنخواہ کے جان ہتھیلی پر رکھ کر روز دفتر جاتا ہے۔۔ ایک طرف اس کی اپنی جان شدید خطرے میں ہے دوسری طرف وہ روزانہ اپنی فیملی کی بھی زندگی خطرے میں ڈال رہا ہے۔۔ جیونیوز کراچی ہیڈآفس میں بھی کورونا کا ایک مریض سامنے آچکا ہے، حیرت انگیز طور پر اس مریض کا تعلق ایسے ڈپارٹ سے ہے جس کا ہر ڈپارٹ سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اور وہ ہرفلور پر باآسانی آتا جاتا ہے۔۔ اس کا علاج بھی شروع کردیاگیا، جس دن میل پر جیوانتظامیہ نے پہلے کورونا مریض کی اطلاع اپنے ورکرز کو دی، اس سے اگلے ہی روز جیوکے نیوزروم کے گیٹ پر کھڑا وہ سیکورٹی گارڈ جو ورکرز کو سینٹائرز دیتا تھا، ماسک فراہم کرتا تھا ، اخبارات دیتا تھا، اس کی طبعیت اچانک بگڑی اسے بھی ایمبولینس میں ڈال کر فوری اسپتال لے جایا گیا۔۔ اب وہاں ایک رپورٹر بھی کورونا کا شکار ہوگیا ہے۔۔ جیوکی بلڈنگ چونکہ سینٹرلی ائرکنڈیشنڈ ہے اس لئے وہاں کورونا کے وار کاری ہوسکتے ہیں۔۔
بات ہورہی تھی نیوزون کی ،جیوکا ذکر تو ایسے ہی نکل آیا۔۔کل وہاں ایک لاکھ سے نیچے والوں کو سیلری بھی دی گئی۔۔اسپرے والا گیٹ بھی انٹری پر لگایاجاچکا ہے،جس پر پانی سے دن بھر تجربہ ہوتا رہا ، ایک دو روز میں یہ مکمل فعال ہوجائے گا۔۔ جب کہ ایک دو روز میں خصوصی کٹس بھی نیوزروم میں کام کرنے والوں کو ملنے کا امکان ہے۔۔کل ہی یعنی جمعرات کے روز ڈی این صاحب نے ورکرز کی ہنگامی میٹنگ بلائی۔۔ جس میں پہلے سیلری کٹ کی بات کی پھر یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہوگا۔۔ڈی این صاحب ایک ورکر دوست انسان ہیں۔۔ میں اخبار کے دنوں سے انہیں جانتا ہوں۔۔ ہمارے سینئر بھی ہیں۔۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ورکر کو ریلیف ملے ساتھ ہی اپنے ماتحتوں کی بھرپور سپورٹ بھی کرتے ہیں۔۔اس لئے یقین یہی رکھنا چاہیئے کہ نیوزون میں سیلری کٹ نہیں لگایاجائے گا۔۔ اسی میٹنگ میں عمران جونیئر ڈاٹ کام کی خبر کا ذکر بھی چل نکلا۔۔ ڈی این صاحب نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو کہاتھا کہ وہ اس خبر کے کمنٹس میں بھرپور دفاع کریں اور اس خبر کو غلط قرار دیں، لیکن جنہیں نہیں کہا تھا نیوزون کے ان لوگوں نے بھی ادارے سے وفاداری دکھائی اور اپنے طور پر بھرپور کمنٹس کئے۔۔ انہوں نے خبر پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔۔ لیکن وہ میٹنگ کے دوران ورکرز کو یہ بتانا گول کرگئے کہ کن لوگوں کو گھر تک محدود کردیاگیا ہے اور انہیں دفتر آنے سے روک دیاگیا ہے۔۔ کراچی بیورو کے دو رپورٹر نے ازخود قرنطینہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے دوبارہ جوائن کرلیا۔۔ ڈی این صاحب کی یہ بات اچھی ہے وہ اپنے ورکرز کی چھٹیوں کے پیسے نہیں کاٹنے دینگے، کیوں کہ یہ زندگی کا معاملہ ہے۔۔ کمنٹس میں نیوزون کے لوگوں کا بھرپور اصرار تھا کہ کورونا مریضوں کے نام بتائے جائیں۔۔ یہ ہماری کبھی بھی ایس او پی نہیں رہی۔۔نیوز کو نیوز کی ایک حد تک رکھتے ہیں۔۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی ورکرپر کوئی بات نہ آئے۔۔یہی وجہ ہے کہ برطرفیوں والی نیوزمیں بھی کسی ورکر کا نام نہیں دیتے تاکہ اسے اگلی جاب میں کوئی پرابلم نہ ہو۔۔ مجھے حیرت اپنے ساتھی ورکرز پر ہوتی ہے۔۔انہیں اب تک اندازہ نہیں ہوسکا کہ سیٹھ اور اس کے ہرکارے عام ورکرکو ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں، جب ان کا مفاد پورا ہوجاتا ہے تو اسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکتے ہیں۔۔آج وہ جن عہدوں پر بیٹھ کر اپنے ادارے کا دفاع کررہے ہیں۔۔کل اسی سیٹ پر کوئی اور بیٹھا تھا اور کل کوئی اور بیٹھا ہوگا، ۔۔یہی نظام زندگی ہے۔۔ وفاداری اور غلامی میں باریک سا فرق ہوتا ہے۔۔ مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا، جسے بڑا بنانے کی کوشش کی گئی۔۔ ایسے ایسے لوگ نیوز پر تبصرے کررہے تھے جن سے اگر پوچھا جائے “نیوز” کہتے کسے ہیں تو بغلیں جھانکنے لگ جائیں گے۔۔ میری تو دعا ہے کہ کسی بھی میڈیا ورکر کو کورونا وائرس نہ ہو۔۔ سب محفوظ رہیں۔۔ لیکن جب نشاندہی ہورہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم اپنے مریض دوست کی تذلیل کررہے ہیں ،یا کوئی سنسنی پھیلانا چاہتے ہیں ، یا وہاں کے دیگر لوگوںمیں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں ، بلکہ واحد مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے دیگر ورکردوستو کو الرٹ کرسکیں۔ ہمارے میڈیا کے لوگ کتنے “باخبر” ہوتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ایک چینل میں صبح کی شفٹ میں کیا ہوا شام والوں کو پتہ نہیں ہوتا، شام میں کیا ہوا، رات والوں کو پتہ نہیں ہوتا۔۔ سب اپنی مستی میں رہتے ہیں۔۔نفسانفسی کادور ہے۔۔ رپورٹرصاحبان کتنے اپ ڈیٹ ہوتے ہیں یہ بھی صحافت کے اساتذہ کرام اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ اچھا حیرت انگیز بات یہ کہ جب پپو سے پانچ مریضوں کی خبر ملی تو میں(عمران جونیئر)اسے جگہ جگہ چیک کرتا رہا۔۔ نیوزون کے کئی دوست اس بات کے گواہ ہوں گے کہ میں نے ان سے رابطہ کرکے پوچھا تھا۔۔ ہیلتھ رپورٹر کو فون کیا نولفٹ۔۔میسیج کیا ، منگل سے آج جمعہ ہوگیا ان صاحب نے جواب دینے کی زحمت تک نہیں کی ۔۔ڈی این صاحب کو میسیج کیا پھر فوری انہوں نے رابطہ کیا، تفصیلی گفتگو ہوئی جس کا لب لباب خبر میں شیئر کیا گیا۔۔
میڈیا کا سیٹھ اپنے ملازمین کو سیلری ٹائم پر دینا تو دور کی بات، بالکل ہی نہیں دے رہا، کئی کئی ماہ گزر جاتے ہیں۔۔ میڈیا ہاؤسز بھی تو اب انڈسٹری بن چکے ہیں، جب دیگر انڈسٹریاں بند ہیں اور وہ اپنے ورکرز کو گھر بٹھا کر تنخواہ دے رہی ہیں تو پھر چینلز ایسا کیوں نہیں کررہے ؟؟اتنا کمایا ہے ، ایک چینل سے دوسرا،دوسرے سے تیسرا۔۔ کئی مزید کاروبار کامیابی سے چل رہے ہیں لیکن صرف میڈیا کی باری آتی ہے تو یہاں بحران ، نقصان یاد آجاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ملازمین اور ان کے اہل خانہ کی زندگیوں سے کھیلاجارہاہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کی بات کرنے سے تو چینلز بند ہوجائیں گے؟ ارے میرے بھائی ، ذرا سوچو ، جب آپ زندہ ہی نہیں رہوگے تو پھر کیسا چینل اور کیسی نوکری؟؟ جان ہے تو جہاں ہے۔۔ ایک عام ورکرکے لئے سوچنا چاہیئے، خود عام ورکر کوبھی سوچنا چاہیئے۔۔ باسز تو ساری مراعات لے رہے ہیں، ان کے اللے تللے چل رہے ہیں۔۔ یہاں نیوزون اور جیوکی بات ہوئی۔۔ ان دونوں اداروں میں کئی ماہ کی تنخواہیں واجب الادا ہیں۔۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔نہ ہی انتظامیہ کے پاس کارکنوں کے لئے کوئی تسلی بخش جواب ہے۔ ۔آج پہلی سحری ہے۔۔کل پہلا روزہ ہوگا۔۔ رمضان میں اخراجات ڈبل ہوجاتے ہیں۔۔پھر عید ہے۔۔ لیکن عام ورکر کا کیا؟ یہاں تو صرف طبقہ اشرافیہ کی ہے عید ہوتی ہے۔۔ غریب میڈیا ورکرکا تو ہردن محرم ہی ہوتا اور ہر شام، شام غریباں۔۔(علی عمران جونیئر)
(نوٹ: یہ تحریر رمضان المبارک سے ایک روز پہلےیعنی جمعہ کی صبح لکھی گئی تھی۔۔ لیکن کچھ تکنیکی خرابی کے باعث میری ویب ٹیم کو یہ مل نہ سکی۔۔جس کی وجہ سے یہ جمعہ کو شائع نہ ہوسکی۔۔ حالانکہ میل کی تھی شاید کوئی ایرر وغیرہ آگیا ہوگا۔۔ اس تحریرکے حوالےسے نیوزون کا کوئی بھی ملازم چاہے تو اپنا موقف دے سکتا ہے یا اگر کسی کو کوئی اختلاف ہو،تو وہ اپنا موقف لکھ کر ہمیں بھیج سکتا ہے، ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے۔۔علی عمران جونیئر)۔