تحریر: فرقان الہیٰ۔۔
صحافی ارشد شریف کی قبر پر کرشمہ۔۔۔ صدف نعیم کو کنٹینر سے دھکا کس نے دیا۔۔۔ عمران خان پر حملے کے بعد عوام نے جی ایچ کیو کو گھیر لیا۔یہ تمام بے بنیاد دعوے حالیہ عرصے کے دوران اہم واقعات کی مناسبت سے بنائی گئی یوٹیوب ویڈیوز کی باہری تصویر یا تھمب نیل پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
یوٹیوب وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جہاں پاکستان کے نامور صحافیوں کے علاوہ عام نوجوان بھی خبروں کی اشاعت کے لیے متحرک ہیں۔یوٹیوب پر جرائم سے متعلق متاثرین کے انٹرویوز سے لے کر ٹرینڈنگ موضوعات پر بنی ویڈیوز میں نوجوان یوٹیوبر ویوز، لائیکس اور کمنٹس کی دوڑ میں بڑے بڑے صحافیوں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ایک طرف جہاں یہ بحث کی جاتی ہے کہ آیا ادارتی نگرانی کے بغیر اس نوعیت کے مواد کو صحافت کہا جا سکتا ہے تو وہیں یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ آیا ان کا کونٹینٹ ایسے صحافتی ضابطوں کی پیروی کرتا ہے جس کی اداروں میں تربیت دی جاتی ہے۔یہ تاثر بھی موجود ہے کہ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا میں معاشرتی مسائل، شہری حقوق اور مسائل کو سب سے کم توجہ دی جاتی ہے اور زیادہ توجہ چٹ پٹے سیاسی تنازعات پر مرکوز رہتی ہے۔ایسے میں اگر عام لوگوں کے مسائل کو نو بجے کے خبر نامے میں جگہ نہ مل پائے تو سوشل میڈیا ہی ان کے لیے آواز اٹھاتا ہے۔انھی سوالات کو لے کر بی بی سی نے چند معروف نوجوان یوٹیوبرز سے بات کی ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے صحافی بنے ہیں۔
یوٹیوب چینل لیڈر ٹی وی کے لیے کام کرنے والی نوجوان خاتون عینی فیصل جرائم پر پروگرامز کرتی ہیں۔عینی فیصل بتاتی ہیں کہ وہ یوٹیوب پر آنے سے قبل ایک کمپنی میں ایچ آر مینیجر تھیں۔ وہیں پر ان کو یہ آفر آئی اور وہ اس چینل پر اینکر بن گئیں۔ ان کی ڈگری ماس کمیونیکشن میں نہیں مگر ان کے مطابق انھوں نے صحافت ضرور پڑھی ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ کرائم رپورٹنگ یا اس پر پروگرام خواتین کے لیے مشکل ہوتے ہیں کیونکہ اس میں خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ جب عینی سے یہ سوال پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ شروع میں ان کو ڈر لگتا تھا مگر اب نہیں۔وہ جو رپورٹ کرتی ہیں، جو پروگرام بناتی ہیں اس پر کوئی ایڈیٹوریل چیک ہوتا ہے، جس طرح مین سٹریم میڈیا میں ہوتا ہے؟ اس پر عینی نے بتایا کہ ان کے مواد پر بھی یوٹیوب چینل کے مالکان ’کڑی نظر‘ رکھتے ہیں۔ہم نے ان سے سوال پوچھا کہ کیا یوٹیوب پر ظلم و زیادتی کا شکار بننے والوں کی شناخت اور چہرے دکھانے پر لاگو اخلاقی ضابطوں پر عمل ہوتا ہے؟ اس سوال پر عینی نے کہا کہ ’مظلوم خود چاہتا ہے کہ ان کی شناخت ظاہر کی جائے کیونکہ وہ ہر طرف سے مایوس ہونے، انصاف کی ساری امیدیں ختم ہونے کے بعد انصاف کے لیے میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ہمارے پاس آتے ہیں، اس لیے ہم ان کی شناخت نہیں چھپاتے۔ اگر کوئی شناخت ظاہر نہ کرنا چاہے تو پھر ہم ان کی شکل دھندلی کر دیتے ہیں۔صحافی ارشد شریف کے قتل کے بعد جب ان کی میت پاکستان واپس آئی تو بہت سے یوٹیوبرز کے مواد پر اعتراض کیا گیا۔ جیسے ایک وی لاگ میں قبر میں لیٹ پر ویڈیو بنائی گئی۔اس پر عینی نے کہا کہ ’ارشد شریف کے قتل کے بعد معاملہ ٹرینڈز میں تھا۔ ویسے بھی جرائم پر کام کرنے والوں کے احساس ختم ہوجاتے ہیں۔ ان کو جب ڈیوٹی دی جاتی ہے تو وہ جاکر ادا کرتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہر انسان گھر سے پیسہ کمانے کے لیے ہی نکلتا ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ کلکز اور ویوز کے لیے چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ البتہ تھمبنیل کہانی کے اندر سے ہی نکالا جاتا ہے۔عینی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ ’کچھ لوگ (یوٹیوب پر) ایسے ہیں جو ایسا تھمبنیل دیتے ہیں جس کا کہانی سے تعلق ہی نہیں ہوتا جو انتہائی نامناسب بات ہے۔انھی کی ایک ویڈیو کے تھمبنیل میں لکھا ہے: ’سڑک پر ’عورت کاروبار‘ کی ایسی ویڈیو جو آپ نے کبھی نہیں دیکھی۔۔مگرعینی ایسے کام کی وضاحت دیتی ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر جنگ ہی ویوز کی ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے اس جنگ میں آجاتا ہے۔ ویوز سب کے نصیب میں نہیں آتے۔ ویوز لینے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ویوز کوئی آپ کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتا۔ اس کے لیے بہت دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ محنت کرنی پڑتی ہے، تب جا کر ویوز آپ کے نصیب میں آتے ہیں۔‘
فیصل خان سوری ایک یوٹیوب چینل آپ ٹی وی کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ اداکار بننے کی خواہش رکھتے تھے، ان کا بھی کوئی صحافتی پس منظر نہیں البتہ انھوں نے تعلیم ماس کمیونیکشن میں حاصل کی ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فیصل نے بتایا کہ دوران تعلیم اساتذہ کی تربیت اور تعلیم کی وجہ سے انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مظلوموں کی آواز بنیں گے اور اینکر بنیں گے مگر تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب انھوں نے ٹی وی چینلز میں اپلائی کیا تو ان کے تلفظ اور بولنے کے انداز پر اعتراض کرتے ہوئے انھوں مسترد کر دیا گیا۔’اس کے بعد میں نے یوٹیوب کو استعمال کیا، اپنا ٹیلنٹ دکھانے کے لیے۔ فیصل نے بتایا کہ وہ اب یوٹیوب پر کرائم سٹوریز کرتے ہیں مگر انھوں نے ہر طرح کی سٹوریز بھی کی ہوئی ہیں۔۔اداراتی ضابطوں کے بارے میں سوال پر فیصل سوری نے کہا کہ ’یوٹیوب کے اپنے ضابطے ہیں، ان کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی غیر اخلاقی مواد نہ ہو، کسی کی دل آزاری نہ کی جائے۔فیصل سوری تسلیم کرتے ہیں کہ یوٹیوب پر کام کرنے والوں کو بھی صحافتی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’جو صحافی یوٹیوب پر صحافتی اخلاقیات کی بات کرتے ہیں، وہ بتائیں کہ یہ سکھائے گا کون ؟ کیا کسی نے ایسا ادارہ بنایا جہاں جاکر صحافتی اقدار اور اخلاقیات سکھائی جائے؟وہ کہتے ہیں کہ متاثرین، جیسے کسی ریپ متاثرہ، کو انصاف دلوانے کے لیے ’کوشش ہوتی ہے کہ ان کے چہرے دھندلے کر دیے جائیں۔اگر ہم مظلوم کو سامنے نہ لائیں تو یہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے متحرک نہیں ہوتے۔ یوٹیوب کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ جو خبر براڈکاسٹ میڈیا پر نہیں چلتی وہ یوٹیوب پر چل جاتی ہے۔انھوں نے سوال کیا کہ ’ریپ وکٹم یا ان کے خاندان کی شناخت دکھانے پر اعتراض کرنے والے ریپ کے خاتمے کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟جب ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی اپنے کام پر شرمندہ ہوئے تو فیصل سوری نے کہا کہ ’ایک بار ایک سوال کیا تھا جو اخلاقی طور پر ٹھیک نہیں تھا جس کی وجہ سے شرمندہ ہونا پڑا۔ کئی مواقع پر مقدمہ بازیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔تو ایسا کیوں ہے کہ تمام خدشات اور رکاوٹوں کے باوجود، نوجوان یوٹیوب پر صحافت کا راستہ اپنا رہے ہیں۔ فیصل سوری کے مطابق ’نوجوان یوٹیوب پر آ کر جلد سے جلد پیسے کمانا چاہتے ہیں۔ اس لیے کونٹینٹ کا خیال نہیں رکھا جاتا۔غیراخلاقی مواد کا سہارا بھی لیا جاتا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ ہے ہی نہیں جو یوٹیوبر کی تربیت کرے، بتائے کہ کس طرح کام کرنا ہے۔ سوال کیسے اٹھانے ہیں۔‘
حال ہی میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران صحافی صدف نعیم کنٹینر کے نیچے آ کر ہلاک ہوئیں تو یوٹیوب پر اس کی ویڈیو کئی چینلز نے استعمال کر کے ویوز حاصل کیے۔فیصل بتاتے ہیں کہ ان کی نظر سے ایک ویڈیو گزری جس میں صدف کی والدہ ’کے آگے مائیک رکھ کر یہ سوال کیا گیا کہ آپ کہ بیٹی ہلاک ہو گئی، آپ کی کیا فیلنگز ہیں؟ ایسے سوالات اس لیے کیے جاتے ہیں کیونکہ تربیت کا فقدان ہے، ادارے نہیں ہیں۔مگر فیصل کی رائے ہے کہ یوٹیوب پر ویڈیوز کے تھمبنیل ’معاشرے میں ہونے والے مظالم کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ضرور ایسے تھمبنیل دیتے ہیں جن کا سٹوری میں کوئی ذکر ہی نہیں ہوتا جو غلط ہے۔ٹرینڈز پکڑ کر مشہور ہونے کی کوشش میں بھی کرتا ہوں مگر اس میں ہمیں سماجی اور مذہبی اخلاقیات کا بھی خیال کرنا چاہیے۔
حارث کھوکھر یوٹیوب اور فیس بک کے چینلز چلاتے ہیں۔ انھوں نے ماس کمیونیکشن میں تعلیم حاصل کی ہے۔ان کے مطابق ان کی آمدن کا ذریعہ دیگر کاروبار ہیں اور وہ یہ کام ’کلکس، لائکس یا ویوز‘ کے لیے نہیں کرتے بلکہ ’مسائل اجاگر کرنے کے لیے‘ کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ صحافت کو مین سٹریم میڈیا تک محدود کرنا غلط ہے۔ ’صحافت ایک سمندر ہے جس میں یوٹیوب اور فیس بک بھی شامل ہیں جہاں معاشرے میں ہونے والے ظلم پر مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ وہ سٹنگ آپریشنز کرتے ہیں اور خود سے لوگوں کو انصاف دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی رائے ہے کہ ’ریپ کی شکار خواتین کا انٹرویو نہیں کرنا چاہیے تاہم اگر وہ انٹرویو دینا چاہیں تو پھر ان سے انٹرویو لیا جانا چاہیے۔ البتہ بلیک میل کر کے یا زبردستی انٹرویوز نہیں لینا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ ’مظلوم کو عدالتیں بھی تب انصاف دیتی ہیں جب ان کی آواز میڈیا یا سوشل میڈیا پر آتی ہے۔حارث کھوکھر دعویٰ کرتے ہیں کہ ’میں ڈالر کمانے نہیں آیا۔ ہم جو بھی کام کرتے ہیں وہ حق اور سچ پر مبنی ہوتا ہے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔