تحریر: انصار عباسی۔۔
انٹرٹینمنٹ اور ہنسنے ہنسانے کے نام پر ہمارے نیوز چینلز تمام اخلاقی حدیں پار کرتے جا رہے ہیں۔ قوم کے بچوں بچیوں اور نوجوانوں کوٹی وی شوز میں بلا کر اُن سے وہ وہ کچھ کہلوایا جا رہا ہے جس کو اگر روکا نہ گیا تو معاشرےمیں بچی کھچی شرم و حیا کا جنازہ اٹھنے میں بھی دیر نہ لگے گی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک کامیڈی شو کا ویڈیو کلپ دیکھنے کو ملا ،جس میں ایک شو میں شرکت کرنے والے نوجوانوں میں شامل ایک اٹھارہ بیس سال کی لڑکی ایک کرکٹر ،جو وہاں موجود نہیں ہوتا اُسے ٹی وی کے ذریعے ’’آئی لو یو ‘‘کہتی ہے جس کے لئے میزبان اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ شو میں موجود ایک مہمان اُس بچی سے کہتا ہے کہ تمہارے گھر والے بھی یہ شو دیکھ رہے ہوں گے جس پر وہ کہتی ہے کہ اس سے مجھے کوئی فرق میں پڑتا۔یہ کیسا مذاق ہے جس کا ہدف ہمارے معاشرےمیں موجودہ شرم وحیا ہے جو نہ صرف ہمارے دین کا اہم ترین حصہ بلکہ ہماری معاشرتی اقدار کی بنیاد بھی ہے۔ روشن خیالی،ترقی اور جدیدیت کے نام پرہم مغرب کی نقالی میں اپنے معاشرےکو تباہ کرنے پر تلے ہوے ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس پر نہ پیمرا بولتا ہےنہ ہی حکومت کو یہ سب نظر آ رہا ہے۔ مغرب سے ہم کچھ اچھا اور تعمیری تو سیکھنے کے لئے تیار نہیں لیکن اُن کی اُس خرابی کو اختیار کر کےماڈرن بننے اور کہلوانے کے لئے بے چین ہیں جس نے نہ صرف اُن کے خاندانی نظام کو تباہ کیا بلکہ بے شمار معاشرتی خرابیوں کا بھی سبب بنی۔ ہمارا میڈیا بولی وڈ اور ہالی وڈ کے کلچر کو یہاں فروغ دے رہا ہے اور نوجوان نسل کو اُس کی بے حیائی اور بے شرمی اس انداز میں دکھا رہا ہے جیسے یہ کوئی بُرائی نہیں بلکہ اُس نوجوان لڑکے یا لڑکی کا ایسا حق ہے جس میں اُن کے والدین تک کو دخل دینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ یعنی نوجوان مرد ہو یا عوت وہ ٹی وی چینل پر بیٹھ کر جس کے لئےاُس کا دل چاہے’’ آئی لو یو ‘‘کہے اور اگر کوئی اُسے یاد دلائے کہ اُس کے والدین اور گھر والےبھی یہ سن یا دیکھ رہے ہوں گے تو وہ کہیں ’’اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ ایک بات یاد رکھیں کہ ہم معاشرتی طور پر ویسے ہی بہت برائیوں اور خرابیوں کا شکار ہیں۔ ہمارے معاشرےمیں اب بھی اگر عمومی طور پر کوئی قابل فخر بات ہے تو وہ شرم و حیا اور خاندانی نظام ہی ہے۔تاہم گزشتہ پندرہ بیس سال سے پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے انٹرٹینمنٹ، حقوق، برابری اور ترقی کے نام پرہمارے معاشرےکے اسی رہے سہے فخر کو لگاتار نشانے پر رکھا ہوا ہے ۔ بے ہودہ ڈرامے، گھٹیا اشتہارات، انٹرٹینمنٹ کے نام پر بھارتی فلموں کی بے حیائی اور کامیڈی کے ذریعے بے شرمی کا پھیلائو!یہ سب کچھ بلا روک ٹوک جاری ہے اور المیہ یہ ہے کہ کسی کو نہ کوئی فکر ہے نہ اُن سنگین نتائج کا احساس جن کو مغربی معاشرہ آج بھگت رہا ہے لیکن ہم سب کچھ دیکھتے جانتے ہوئےاُسی تباہی کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں ۔ اس میں اگر میڈیا قصور وار ہے تو ریاست بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہےاور عوام بھی ایک عجیب سی بے حسی میں مبتلا ہو رہےہیں۔ وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں لیکن تیزی سے پھیلتی بُرائی کو روکنے کےلئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں یعنی ریاست ہو یا عوام ،ہم اپنی نسل کو تباہی کی طرف جاتےہوئے بڑی بے حسی سے دیکھ رہے ہیں۔(بشکریہ جنگ)