news channel ke aik reporter ki aap beeti

نیوزچینلز کے ایک رپورٹر کی آپ بیتی؟

تحریر: آغا خالد۔۔

چینلز کے رپورٹرز کو پرنٹ میڈیا والے کچھ زیادہ اچھا نہیں سمجھتے اور ایسے ہی وہ بھی۔۔ مگر یہ دوطرفہ کھنچائو اس لیے ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ رہے اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں، آئیے اس چھوٹے سے واقعہ سے ہم الیکٹرونک میڈیا کے صحافیوں کے مسائل سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں؟

وہ گویا ہوا؟

انہوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا، آپ کی اہم ذمہ داری صاحب اور ان کے اہل خانہ کو پروٹوکول دلوانا ہوگا، میں خوش ہوگیا یہ تو کوئی بات ہی نہیں، ہوگیا، میں نے  جلدی سے جواب دیا،ایک چینل میں یہ میرا انٹرویو ہورہاتھا، آپ کی توجہ خبروں پر زیادہ ضروری نہیں بس ریکارڈ کے لئے ایک آدھ کافی ہوگی چینل کاسب سے بڑا افسراپنی بات آگے بڑھاتے ہوے بولا،  تمھاری اصل ڈیوٹی صاحب لوگوں کے ذاتی امور دیکھنا ہوگا، وہ تو میں کرلونگا کیونکہ عرصہ دراز سے میں ایف آئی اے اور کرائم کی بیٹ کررہاہوں، اوہ اچھا، وہ خوش ہوکر بولا، صاحب لوگوں سے مراد چینل کے مالکان تھے اور انٹرویو کرنے والے دونوں صاحبان چینل کے ہیڈ تھے انہوں نے میری نئی نوکری کی پرکشش تنخواہ اور دیگر مراعات کی تفصیل بیان کی جس کی کشش نے مجھے مزید ڈھیر کردیا پھر وہ نئی نوکری کی دیگر ذمہ داریاں بتانے لگے، صاحب لوگ 3 بھائی ہیں اور تینوں ٹھیکیداری بھی کرتے ہیں، چھوٹے موٹے نہیں، وہ فخریہ بتانے لگا سی  پیک کے ٹھیکے لیتے ہیں اور یہی ان کااصل کام ہے، تمھاری ایف آئی اے کے ساتھ ایف بی آر میں بھی اچھی ہوگی اس لئے کبھی ٹیکس بچانا یاکم کرانا ہو یا کہیں بل رک جائے تو جلد نکلوا دینا، پھر وہ سپاٹ لہجہ میں بولے اور یہ کام بہت ضروری اور تمھاری نوکری پکی کرنے کی گارنٹی بنے گا، میں نے  بادل نہ خواستہ پرکشش تنخواہ کے لالچ میں اس پر بھی حامی بھرلی اور دیگر معاملات پر اچھے ماحول میں لمبی گفتگو ہوئی پھر وہ رخصت کرنے مجھے اپنے دفتر کے دروازے تک آئے مگر الوداع کرنے سے پہلے سرگوشی میں بولے سمجھیں آپ کا آج اور ابھی سے میٹر ڈائون ہوچکاہے کل لیٹر اور کارڈ بھی مل جائے گا مگر آپ کو آج ایک کام کرناہے، میں ہمہ تن گوش ہوگیا، صاحب ڈیفنس میں رہتے ہیں، اس نے بات آگے بڑھاتے ہوے کہا، اور یہاں کے قوانین  بڑے نرالے ہیں 10/15 کروڑ کابنگلہ خریدنے والا سوائے کتوں کے کوئی پالتو جانور نہیں رکھ سکتا جبکہ صاحب لوگوں کو بکری کا دودھ پینے کا شوق ہے انہوں نے 40 بکریاں پالی ہوئی ہیں ڈی ایچ اے والے آئے روز چالان کردیتے ہیں زیادہ مسلہ اس لئے بھی پیش آرہاہے کہ جس گلی میں صاحب کا گھر ہے اسی گلی میں ڈی ایچ اے کا ایک سینیر افسر بھی رہتاہے جسے بکریوں کا شور پسند نہیں اس کے پاس عہدہ کی طاقت ہے اور صاحب لوگوں کے پاس پیسہ اور میڈیا کی طاقت تو دونوں میں ٹکر ہوتی رہتی ہے اس نے کل پھرصاحب لوگوں کی بکریاں چالان کروادی ہیں،پھر وہ مزید رازداری سے بولا، ایسا تو اکثرہوتا رہتاہے مگر کل اس نے چالان کے ساتھ بکریاں بند بھی کرادی ہیں اور صاحب لوگ کل سے بکریوں کے دودھ سے محروم ہیں اس لئے وہ شدید غصہ میں ہیں آپ ابھی سے کوشش کرکے ان بکریوں کو چھڑوائیں اور پھر صاحب لوگوں پر اپنی دھاک بٹھانے کےلئے ان بکریوں کو اس افسر کے گھر کے سامنے سے لے کر آئیں تاکہ ہم بھی سرخ رو ہوں اور صاحب کاغصہ بھی رفع دفع ہو پھر وہ اپناچہرہ میرے کان کے قریب لاکر مزید رازداری سے بولے ہوسکتاہے صاحب خوش ہوکر تمھاری طے شدہ تنخواہ میں مزید اضافہ کردیں، میں ان کی یہ بات سن کر ششدر رہ گیا ۔۔صحافت تو گئی بھاڑ میں بات پروٹوکول سے شروع ہوکر بکریوں پر ختم ہوئی میں ان سے اجازت لے کر گھر آگیا اور راستے بھر سوچتارہاکہ کیاصحافت پر اتنا برا وقت آگیاہے کہ اب ایک رپورٹر کی نوکری بکریاں چھڑوانے سے مشروط ہوگی، وہ گفتگو شروع کرتے وقت تو مسکرارہاتھا اور مجھے اپنی ہوتے ہوتے رہ گئی نوکری کی کہانی سنارہاتھا ہم دونوں میرے مہمان خانہ میں بیٹھے چائے نوش کرہے تھے مگر روئداد کے آخر میں وہ روہانسا ہوگیا،میں نے اسے ڈھارس دیتے ہوئے کہا، مگر جب تک تم جیسے بہادر اور روزی کو توکل کے ترازو پرتولنے والے رپورٹر موجود ہیں یہ نو دولتئے سیٹھ منہ کی کھاتے رہیں گے،وہ بڑے اداس لہجہ میں بولا، پاشا فارمولا کے تحت نواز شریف اور پی پی کے مقابل تیسری سیاسی قوت لانے کے لئے اس طرح کے سیٹھوں کو محتلف رعایتیں دے کر چینلز لانچ کروائے گئے جنھوں نے اس مقدس پیشے کو بھی تجارت کی کسوٹی پر رکھ لیاہے اور اندھی طاقت کابے دریغ استعمال جاری ہے جس سے صحافت اور ملکی میعیشت دونوں بے آبرو ہوکر رہ گئے ہیں۔۔(آغا خالد)۔۔-

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں