خصوصی رپورٹ۔۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نےآن لائن نیوز ایجنسی کے مالک اور تجزیہ کار محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ غیر قانونی قرار دیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو کارروائی کی ہدایت کردی جبکہ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے محسن بیگ کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی مقامی عدالت نے محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ غیر قانونی قرار دیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو کارروائی کی ہدایت کردی جبکہ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے محسن بیگ کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔صحافی محسن بیگ کے خلاف ایف آئی اے نے وفاقی وزیر مراد سعید کی شکایت پر مقدمہ درج کیا جبکہ پولیس نے الگ سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے مقدمہ درج کرلیا۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے محسن بیگ کی غیر قانونی حراست کے خلاف درخواست پر سماعت کی بیلف مقرر کیا جو تھانے گیا جہاں پولیس نے بیلف کو بتایا کہ محسن بیگ کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا ہے۔بیلف کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد عدالت نے فوری عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا، اسلام آباد پولیس نے پہلے محسن بیگ کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے محسن بیگ کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پرپولیس کے حوالے کرتے ہوئے میڈیکل کرانے کا حکم دے دیا اس کے بعداسلام آباد کچہری میں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں ملزم کو پیش کیا گیا۔انسداد دہشت گردی عدالت پیشی کے موقع پر محسن بیگ نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں پولیس کی تحویل میں ایف آئی اے نے سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تشدد کے باعث ان کی پسلیاں بھی ٹوٹ گئیں۔ محسن بیگ کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ وزیر اعظم عمران خان کے ایما پر کیا گیا ہے۔محسن بیگ کے مطابق حوالات میں بند کرنے کے بعد ایف آئی اے نے تشدد کا نشانہ بنایا، میرے زخم کافی ہیں، میری پسلیوں پر بھی چوٹیں لگی ہوئی ہیں۔ محسن بیگ کا پولی کلینک میں طبی معائنہ کروایا گیا۔صحافی نے محسن بیگ سے سوال کیا کہ آپ کے کون کون سے میڈیکل ٹیسٹ ہوگئے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے محسن بیگ نے کہا کہ تقریباً سارے ٹیسٹ ہوگئے، ایک الٹرا ساؤنڈ رہ گیا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ سینئر صحافی محسن بیگ کے دفتر میں چھاپہ مارا ہے۔ترجمان ایف آئی اے کے مطابق وفاقی وزیر مراد سعید مدعی مقدمہ کی ہتک کے حوالے سے مواد برآمدگی کے لیے چھاپہ مارا گیا۔ ایف آئی اے کے مطابق اہلکار یو ایس بیز اور لیب ٹاپ کی تلاش کے لیے دفتر پہنچے تھے۔دوسری جانب آفس انتظامیہ نے کہا کہ ایف آئی اے اور پولیس کے اہلکار آفس میں کام کرنے والے ملازمین کو ہراساں کرتے رہے جبکہ کچھ دیر تک کمپیوٹرز و دفتر کا جائزہ لیکر ٹیم واپس روانہ ہوگی۔اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے صحافی کی جانب سے دائر درخواست پر فیصلہ سنایا، جس میں کہا گیا ہے کہ ایس ایچ او تھانہ مارگلہ ایف آئی اے لاہور کے کسی آفیشل کو پیش کرسکے اور نہ ہی متعلقہ ریکارڈ پیش کیا، حقائق کے مطابق لاہور سے اسلام آباد کے لیے کوئی چھاپا مار ٹیم روانہ ہی نہیں ہوئی۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ پولیس نے اپنی ایف آئی آر کا ریکارڈ پیش نہیں کیا، مبینہ مغوی کو تاحال ایف آئی اے کے کسی کیس میں گرفتار ہی نہیں کیا گیا، ایف آئی آر کے مطابق محسن بیگ کے گھر غیر قانونی چھاپا مارا گیا متعلقہ افراد چھاپا مارنے کے مجاز نہیں تھے۔اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج ظفر اقبال نے آئی جی اسلام آباد کو ایس ایچ او کے خلاف کاروائی کی ہدایت کی اور فیصلے میں لکھا کہ ایس ایچ او نے غیر قانونی چھاپہ مارنے والی ٹیم کے خلاف کاروائی کی بجائے خود مقدمہ درج کر جعلی پیشہ وارانہ مہارت دکھانے کی کوشش کی۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ مقدمہ 9 بجے درج ہوا اور ساڑھے 9 بجے ایف آئی اے نے بغیر کسی سرچ وارنٹ کے محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارا، سوا دو بجے تک ایس ایچ او نے ریکارڈ اور غیر قانونی حراست میں رکھے محسن بیگ نہیں پیش کیا، پولیس محسن بیگ کا بیان ریکارڈ کر کے قانون کے مطابق کارروائی کرے۔دریں اثنا ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ لاہور اور اسلام آباد پولیس نے صحافی محسن بیگ کے گھر پر دوبارہ مشترکہ چھاپہ مارا۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے ٹیم نے گھر کی تلاشی کے لیے چھاپہ مارا۔واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید کی درخواست پر حکومت اور وزیراعظم پر تنقید کرنے والے صحافی محسن بیگ کو گرفتار کیا۔ترجمان محسن بیگ کے مطابق ایف آئی اے اور پولیس کی بھاری نفری نے ایڈیٹر انچیف محسن بیگ کے گھر چھاپہ مارکر گھر کا گھیراؤ کیا اور جب ایف آئی اے سے وارنٹ گرفتاری مانگے گئے تو انہوں نے تلخ کلامی کی، بعد ازاں سادہ لباس اہلکار محسن بیگ کو بغیر وارنٹ اور مقدمہ اندراج کے اپنے ساتھ لے گئے۔محسن بیگ اور ان کے بیٹے نے گرفتاری کے وقت مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ایف آئی اے کا ایک اہلکار زخمی ہوا۔ بعد ازاں اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں محسن بیگ کے وکیل راحیل نیازی نے غیر قانونی حراست کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ جسپر سماعت ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے کی اور محسن بیگ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
دوسری جانب اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں درج ہونے والے مقدمے میں محسن بیگ کے بیٹے کو بھی نامزد کیا، جس میں دہشت گردی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں، جب کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے بھی وفاقی وزیر مراد سعید کی درخواست پر محسن بیگ کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
مراد سعید نے صحافی محسن بیگ کے نجی چینل پر بولے گئے متنازع الفاظ کے تناظر میں مقدمہ درج کرایا، جس میں پیکا ایکٹ کی دفعات 20’21/D،500 اور 505 پی پی سی کے تحت درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق چھاپے و سیزیر کے لیے مجاز عدالت سے وارنٹ حاصل کیے گئے تھے، چھاپے کے دوران محسن بیگ، بیٹے و ملازمین نے ایف آئی اے کی ٹیم پر سیدھی فائرنگ کی جبکہ 2 افسران کو یرغمال بناکر زدوکوب بھی کیا۔ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ محسن بیگ نے بیٹے و ملازمین کے ہمراہ سرکاری ملازمین پر فائرنگ کرکے جرم کا ارتکاب کیا، ملزم کو تھانہ مارگلہ اسلام آباد منتقل کیاگیا تھا۔بعد ازاں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط اور حکومتی ترجمان شہباز گل نے محسن بیگ کے گھر چھاپے اور مزاحمت کی ویڈیو سماجی رابطے کی سائٹ ٹویٹر پر شیئر کی اور تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ محسن بیگ کی حقیقت ہے، جو قانون کو سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں‘۔ دریں اثنا کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز نے آن لائن نیوزایجنسی کے مالک محسن بیگ کی گرفتاری اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔صدر سی پی این ای کاظم خان نے کہا کہ محسن بیگ کو بنا وارنٹ گرفتار کرنا اور اہل خانہ کو ہراساں کرنا، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنا انتہائی قابلِ مذمت ہے۔صدر سی پی این ای نے مزید کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں قانون کی عمل داری نہیں ہے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔