تحریر: ناصر بیگ چغتائی۔۔
سقوط ڈھاکا کی ایک وجہ صحافت کا غلام ہونا ہی نہیں بلکہ گمراہ اور گمراہ کن بھی تھا ۔ بھارتی فوج کے ڈھاکا میں داخل ہونے سے پہلے سابق مغربی پاکستان کے اخبارات نعرے لگا رہے تھے ۔۔وہ مارا ۔۔ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے ۔۔اور پھر ایک بہت چہیتے صحافی نے مشرقی پاکستان سے واپسی پر لکھا ” محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے ” یہ بڑا جرم تھا ۔ میں نے اس زمانے کے اخبارات دیکھے ہیں اور ہر بار یہ سوچ کر پریشان ہوگیا ہوں کہ خبریں ان کو کون فیڈ کررہا تھا ۔ ۔۔ ہماری صحافت نے مقتدر گروہ کے مقابلے میں کبھی مظلوم کا ساتھ نہیں دیا ۔۔۔اگر کبھی کوئی خبر لے بھی گئی تو دوسرے روز لگانے والے کی کلاس ہو گئی ۔
کچھ تنظیمیں خاص طور سے بنائی گئیں ان کی خبریں لگائی گئیں پھر انہیں غدار کیا گیا اس کے بعد ان کو حکومت میں شامل کرلیا گیا ۔۔۔۔یہ ایک بار نہیں کئی بار ہوا ۔
صحافت کے خلاف ہر جماعت نے تشدد سے کام لیا ۔میں نے اپنا دفتر جماعت اسلامی، پی پی پی ، اے این پی ، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ ، جے یو آئی، جے یو پی ۔۔سب کے محاصرے میں دیکھا ہے ۔ فون پر دھمکیاں سنی ہیں ۔ اور سینسر کی بدترین شکل دیکھی ہے ۔
ہماری صحافت چند جریدوں کو چھوڑ کے اور چند بے جگروں کو چھوڑ کے اسلام آباد اور پنڈی کی مطیع رہی ہے ۔
یہ بات بالکل جدا ہے صحافیوں نے ایوب خان یحی خان ، بھٹو، ضیا سب کے خلاف اپنی جد وجہد کی جس کی خبریں وہ اپنے اخبارات میں بھی شائع نہیں کرسکے ۔۔۔اسی جد وجہد میں کئی معذور ہو گئے کئی کو کوڑے مارے گئے اور سینکڑوں بے روزگار ہو گئے ۔۔
کاش موجودہ فوجی قیادت اہنے موجودہ وژن کے ساتھ سقوط ڈھاکا سے پہلے ہوتی اور بنگالیوں کو کم تر نسل نا کہا جاتا ، میڈیا اور پرنٹ اپنی ذمے داری پوری کرتے ۔۔سیاستدان عقل سے کام لیتے تو ” کاش ” کی آج نوبت نہیں آئی ۔۔۔
یہ بہترین وقت ہے کہ ” نیم آزاد نیم منافق میڈیا ” فوج کے موجودہ موقف سے فائدہ اٹھائے اور کم ازکم خبریں تو دینا شروع کرے ۔ (ناصربیگ چغتائی)