علی عمران جونیئر
دوستو،آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ آج کل برساتی مینڈکوں کی طرح جگہ جگہ عوامی مقامات پر خودساختہ صحافی ہاتھوں میں مائیک لئے گھوم رہے ہوتے ہیں، ٹک ٹاکرز الگ اپنی دنیا میں خوش رہتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک نام نہاد خاتون صحافی کسی یوٹیوب چینل کیلئے سروے کررہی تھی۔۔وہ لیڈی رپورٹر بس اڈے میں کھڑے ایک آدمی کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے ۔۔معاف کیجئے گا جناب،میں ایک چھوٹا سا سروے کر رہی ہوں ۔کیا میں آپ سے کچھ سوال کر سکتی ہوں؟اس آدمی نے گردن اوپر نیچے کرکے بڑی بے نیازی سے اجازت دے دی۔۔ لیڈی رپورٹر نے پوچھا۔۔فرض کریں آپ بس میں بیٹھے ہیں اور ایک خاتون بس میں سوار ہوئی،اس کے پاس سیٹ دستیاب نہیں ہے ،کیا آپ اس کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دینگے ؟ وہ آدمی بولا، بالکل نہیں۔۔لیڈی رپورٹر کو جھٹکا سا لگا، اس نے جواب دینے والے کو اچھی طرح سے گھورا اور اپنے دانت بھی پیسے ، پھر اگلا سوال داغ دیا۔۔اگر بس سوار خاتون حاملہ ہو تو کیا آپ اپنی سیٹ چھوڑ دیتے؟ اس آدمی نے اپنی گردن دائیں سے بائیں یعنی نفی میں ہلائی۔۔لیڈی رپورٹر کو غصہ آگیا۔ جسے اس نے قابو کرتے ہوئے پھر اگلا سوال پوچھ لیا۔۔اور اگر وہ خاتون جو بس میں سوار ہوئی وہ بزرگ ہوں تو کیا آپ اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے؟؟ اس آدمی نے ایک بار پھر منع کردیا۔۔لیڈی رپورٹر طیش میں آگئی اور کہنے لگی۔۔ تم ایک نہایت بے حس اور خود غرض انسان ہو،جس کو عورت بڑے اور ضعیف افراد کے آداب نہیں سکھائے گئے۔۔اتنا کہنے کے بعد وہ اپنا پیر پٹختے ہوئے چلی گئی۔۔پاس کھڑا دوسرا آدمی جو یہ بات چیت سن رہا تھااس نے انٹرویو دینے والے سے کہا۔۔اس عورت نے تمہیں اتنی باتیں سنائی تم نے کوئی جواب کیوں نہیں دیا؟ تو اس انٹرویو دینے والے نے جواب دیا۔۔یہ عورت اپنی چھوٹی سوچ اور آدھی معلومات کی بنا پر سروے کر کے لوگوں کے کردار طے کرتی پھر رہی ہیں۔اگر یہ مجھے سیٹ نہ چھوڑنے کی وجہ پوچھتی تو میں اسے بتاتا کہ میں ایک ”بس ڈرائیور”ہوں۔۔اور بس ڈرائیور بھلا کیسے اپنی سیٹ کسی مسافر کے لئے چھوڑ سکتا ہے؟؟ واقعہ کی دُم:ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم ادھوری معلومات کی بنا پر ہی دوسروں کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بالکل اسی طرح ایک ٹرک ڈرائیور اپنے شاگرد کے ساتھ کسی قومی شاہراہ کے ایک ڈھابے پر بیٹھا تھا، دونوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا، پھر دودھ پتی چائے منگوا کر پی۔۔ ٹرک ڈرائیور اور شاگرد نے ہوٹل پر چائے پینے کے بعد دو تین سگریٹ سلگائیں اور اگلی منزل کیلئے ٹرک میں واپس بیٹھ گئے ۔۔استاد نے شاگرد سے کہا کہ۔۔ تم بھی کیا یاد کرو گے کہ استاد نے کبھی ٹرک چلانے کیلئے دیا ہی نہیں، چلو اب تم چلا لو۔۔ پر اس سے پہلے ٹرک کے ٹائر چیک کرو۔۔ شاگرد نے کہا ،استاد باقی سب تو ٹھیک ہے بس ایک ٹائرپنکچر ہے۔۔ استاد نے کہا کہ۔۔ ٹھیک ہے وہ تبدیل کرلو۔۔ شاگرد نے خوشی خوشی ٹائر تبدیل کیا اور ٹرک اسٹارٹ کیا استاد چونکہ تھکا ہوا تھا لہٰذا وہ پچھلی سیٹ پر جاکے سو گیا ۔۔کافی دیر بعد جب استاد کی آنکھ کھلی تو شاگرد سے پوچھا کہ ہاں بھئی کہاں پہنچ گئے ہیں ہم۔۔ شاگرد جو ڈرائیونگ کی خوشی میں مست تھا کہنے لگا ۔۔ استاد، یہ تو نہیں پتہ کہ اس وقت ہم کہاں ہے پر میں گاڑی کو دبا کر چلا رہا ہوں۔۔ استاد نے کہا۔۔ گاڑی سائیڈ پر لگا دو تھوڑی چائے پی لیتے ہیں شاگرد نے گاڑی سائیڈ پر لگا دی اور دونوں ٹرک سے اتر کر ایک ہوٹل میں چائے پینے کیلئے بیٹھ گئے۔۔ استاد نے ہوٹل والے سے پوچھا کہ یہ کونسی جگہ ہے؟؟ ہوٹل والے نے کہا ۔۔ استاد پچھلے 2 گھنٹوں سے آپ کھڑی ہوئی گاڑی کو ایکسیلیٹر دے رہے ہیں ہم سمجھے کہ شاید آپ کے ٹرک میں کوئی مسئلہ ہے ۔۔دھوئیں کی وجہ سے ہمارا پورا سالن خراب ہوگیا ہے ،یہ وہی ہوٹل ہے جہاں آپ نے چائے اور سگریٹ پی تھی۔۔ استاد نے شاگرد سے کہا کہ۔۔ گدھے انسان جب تم نے ٹائر تبدیل کر لیا تو گاڑی کے نیچے سے جیک نکالنا کیوں بھول گئے؟؟ واقعہ کی دُم:پچھلے 75 سالوں سے کرسی کے نشے میں مست ہمارے حکمران ہمیں یہی کہہ کر حکومت چلا رہے ہیں کہ ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے حالانکہ جیک لگے ٹرک کی طرح ملک آج بھی وہیں کھڑا ہے اور پھر ہمیشہ یہی آواز سننے کو ملی، ملک نازک موڑ پہ کھڑا ہے۔
باباجی کہتے ہیں۔۔ کچھ لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ تم بدل گئے ہو کبھی کبھی دل کرتا اْنہیں ایک لگا کے بتاؤں کہ تمہارے رویوں نے بدلا ہے ورنہ میرے اندر کونساسافٹ وئیر تھا جو اپڈیٹ ہو گیا۔۔جن باتوں پر لوگ جھگڑا کر کے منوں مٹی تلے جا کر سو جاتے ہیں،اگر انہی باتوں پر ذرا سی صلح کی مٹی ڈال دیتے تو دنیا میں ہی سکون سے رہا جا سکتا ہے۔ جب انسان اپنی غلطیوں کا وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کا جج بن جائے تو فیصلے نہیںفاصلے ہونے لگتے ہیں۔۔ہمارا مذہب اسلام ہے جسے سلامتی کا مذہب بھی کہاجاتا ہے، ہمارا پیارا مذہب تو ہمیں ”مُردے” کو بھی سلام کرنے کی تعلیم دیتا ہے لیکن پتہ نہیں ہم میں یہ انا، ضد، اکڑ کیوں آگئی ہے کہ زندہ لوگوں کو بھی سلام کے قابل نہیں سمجھتے۔اگر سلام کر بھی لیا تو صرف مطلب کے لئے۔۔باباجی مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔ یتیم خانوں میں بچے غریبوں کے پلتے ہیں اور اولڈ ہومز میں بزرگ امیروں کے ملتے ہیں۔۔۔ عورت کا بھی مرد کی زندگی میں اتنا ہے عمل دخل ہونا چاہیے جتنا کسی پکوان میں نمک کا۔زیادہ نمک بھی دونوں کی زندگی زہر بنا دیتا ہے۔ ۔ باباجی نے بھی کچھ باتیں نوٹ کررکھی ہیں کہتے ہیں، گھریلو استعمال کی کوئی بھی خراب چیز ٹھیک کرنے کے بجائے پہلے اس بندے کی تلاش کی جاتی ہے جس نے آخری بار وہ چیز استعمال کی تھی۔۔ سب کو خوش رکھنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ مینڈکوں کو تولنا، ایک کو بٹھاؤ تو دوسرا پھدک پڑتا ہے۔۔بیویوں کی الزام تراشیاں بھی کبھی نوٹ نہیں کی ہوں گی آپ لوگوں نے، الزام تراشی کی انتہادیکھئے، آپ یہ آٹا کہاں سے اٹھالائے ہو، ساری روٹیاں جل گئیں۔۔شوہر حضرات بھی اس وقت خود کو گھر کا وزیراعظم محسوس کرنے لگتے ہیں،جب ا کے ہاتھ میں کچھ دیر کے لیے ٹی وی کا ریموٹ دے دیا جائے۔۔آخر میں باباجی نے فوڈ لوورز کو ایک ”ریسے پی” بتاتے ہوئے کہا کہ۔۔کیا آپ بھی انڈے کھانے کے بعد انڈے کے چھلکے یونہی پھینک دیتے ہیں، آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ انڈوں کے چھلکوں کا کیا کرنا ہے؟انڈے کھانے کے بعد انڈے کے چھلکے دو دن دھوپ میں اچھی طرح خشک کر لیں ،پھر ان چھلکوں کو گرائنڈر میں اچھی طرح پیس لیں ،پھر ان میں تھوڑا سا نمک مکس کریں ،اور دو لیموں ڈال کر کسی جار میں ایک ہفتے کے لیے بند کر دیں ۔ایک ہفتے بعد جار کو کھولیں اور انڈوں کے چھلکوں کا پاؤڈر گھی میں مکس کر کے باہر پھینک دیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔وہ پوچھنا یہ تھا کہ اگر نکاح کے وقت گواہ نہ ملے تو وطن کی مٹی گواہ ہو سکتی ہے؟؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔