wazir e ittelaat punjab ke naam

نذیرناجی یادداشت کھوبیٹھے

تحریر: سید بدرسعید۔۔

شعیب بن عزیز کو آدھی دنیا بطور شاعر جانتی ہے اور باقی آدھی دنیاکا خیال ہے وہ پبلک ریلیشنگ کے کامیاب بیوروکریٹ ہیں۔ ہماری کل دنیا وہی ہوتی ہے جو ہمیں یا ہم اسے جانتے ہیں ، باقی دنیا اضافی ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے دنیا کے وہ خوبصورت مقامات جو میں اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھ پائوں گا ان کی خوبصورتی میرے لیے بے معانی ہے۔ یہی صورت حال ہماری یادداشت کی ہے۔یادداشت چلی جائے تو انسان کی کل دنیا اس کی ذات اور ارد گرد کے ماحول تک محدود ہو جاتی ہے۔ اگلے روز شعیب بن عزیز نے انکشاف کیا کہ ایک معاصر اخبار کے سینئر گروپ ایڈیٹر اور پاکستان کے بڑے تجزیہ نگار نذیر ناجی اپنی یادداشت کھو چکے ہیں۔ شعیب بن عزیز بتاتے ہیں کہ وہ لاہور جم خانہ کلب میں تھے کہ ایک نوجوان سرمد ناجی ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ اپنے پرانے دوست سے ملنا چاہیں گے۔ شعیب بن عزیز اس نوجوان کے ساتھ جاتے ہیں تو انہیں سامنے اپنے پرانے دوست نذیر ناجی نظر آتے ہیں جو ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔ دس سال بعد اپنے دوست کو دیکھ کر شعیب بن عزیز جذباتی ہو جاتے ہیں ، وہ گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہیں لیکن انہیں اس وقت حیرت کا شدید جھٹکا لگتا ہے جب ان کا پرانا دوست کسی قسم کی گرم جوشی کا اظہار نہیں کرتا۔ نذیر ناجی کی نظروں میں اجنبیت تھی۔ شعیب بن عزیزابھی اس اجنبیت پر حیرت اور دکھ کے جھٹکے سے باہر نہیںنکلے تھے کہ سرمد ناجی نے ان کے کان میں سرگوشی کی۔ ابو کی یادداشت جا چکی ہے ،وہ کسی کو نہیں پہچانتے ، ہمیںبھی بھول چکے ہیں اور شاید اپنا نام بھی۔ شعیب بن عزیز نے اس ملاقات کے حوالے سے سوشل میڈیا پر طویل پوسٹ لکھی۔ اس سے ایک ہفتے قبل میں ، حافظ مظفر محسن ، اسعد نقوی اور عقیل انجم اعوان، شعیب بن عزیز کے ساتھ اندرون لاہور ناشتہ کر رہے تھے۔ شکر ادا کیا کہ شعیب بن عزیز اور نذیر ناجی کی یہ ملاقات اس کے بعد ہوئی ورنہ اتوار کی وہ صبح بوجھل ہوتی اور ہم اس دکھ کی لپیٹ میں رہتے۔ میری نذیر ناجی سے بہت زیادہ ملاقاتیں نہیں رہیں البتہ ان کی یادداشت جانے پر جس دکھ نے گھیرا اس نے یادوں کی پٹاری کھول دی۔

گیارہ بارہ برس پرانی بات ہے۔ جب میاں عامر محمود نے ٹی وی چینلز کے بعد اپنا اخبار شروع کیا تو فیض بخش مرحوم اور باکمال شاعر اسلم کولسری مرحوم سمیت 8 رکنی ایڈیٹوریل سیکشن میں ایک جونیئر کے طور پر کچھ عرصہ مجھے بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ سینئر کالم نگار ہارون الرشید ایڈیٹوریل ایڈیٹر تھے۔ ان دنوں سرمد بشیر بھی وہیں رپورٹنگ ایڈیٹر تھے لیکن کچھ دن بعد ہی وہ پاکستان سے چلے گئے۔ رئوف کلاسرا انویسٹی گیشن ایڈیٹر تھے جبکہ عامر خاکوانی میگزین ایڈیٹر تھے۔ نذیر ناجی ان سب سے سینئر اور بڑے عہدے پرتھے اور مجموعی طور پر ہر سیکشن کے ذمہ دار تھے لیکن انہیں ہمیشہ انتہائی نرمی سے پیش آتے دیکھا۔ بڑھاپے اور بیماری کے آثار تب بھی تھے۔ ہم سب اپنے اپنے کیبن میں کام کرتے تھے جبکہ ہال میں کمپوزر اور اخبار کا دیگر سٹاف ہوتا تھا۔ اکثر کمپوزر عقیل چغتائی کے پاس بیٹھ کر کالموں پر غلطیاں لگواتے وقت معلوم ہوتا کہ نذیر ناجی صاحب گزرتے ہوئے ہماری کارکردگی پر بھی نظر ڈال رہے ہیں۔ ایک دو بار وہ کمرہ امتحان کے نگران کی طرح سر پر کھڑے ہو کر نگرانی کرنے لگے اور پھر مسکراتے ہوئے چلے گئے۔ انہی دنوں نذیر ناجی نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری اور ان کے بیٹے کے حوالے سے ایک کالم ’’ اے خدا میرے ابو سلامت رہیں ‘‘ لکھا اور اس میں ان تمام باتوں کا ذکر کر دیا جو مبینہ کرپشن کے حوالے سے سوشل میڈیا یا سینہ بہ سینہ گردش میں تھیں۔ مجھے وہ کالم آج بھی یاد ہے کیونکہ اس میں نذیر ناجی نے اس خوبصورتی سے لکھا کہ چیف جسٹس چاہتے ہوئے بھی اپنے خلاف لکھے ہوئے اس کالم پر سوموٹو ایکشن نہ لے سکے۔ پورے کالم میں کہیں ان کا نام ، عہدہ ، حوالہ یا ان کے بیٹے کا نام نہیں لیا گیا تھا لیکن ساری کہانی ایسے بیان کی کہ اگلے روز وہی کالم چیف صاحب کے حوالے سے زبان زد عام تھا ۔ مجھے اس روز اندازہ ہوا کہ جس صحافی کوان کے مخالف میٹرک پاس کہتے تھے وہ اپنے کام میں کتنا ماہر ہے۔ میاں عامر محمود کا بڑا پن ہے کہ ان کے اخبار میں آج بھی نذیر ناجی کا نام بطور سینئر گروپ ایڈیٹر شائع ہو رہا ہے۔ انہوں نے یادداشت چلے جانے کے باوجود اپنے اس ساتھی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ آج نذیر ناجی الزائمر کا شکار ہیں اور اپنا نام تک بھول چکے ہیں۔ معروف شاعر بشیر بدر بھی اسی بیماری کا شکار ہیں اور انہیں اپنے وہ اشعار بھی یاد نہیں جو نوجوانوں کو حفظ ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ صحافت کو کئی عشرے دینے والے پاکستان کے بڑے تجزیہ نگار نذیر ناجی اس حال میں ہیں لیکن کہیں کوئی خبر سامنے نہیں آسکی۔ یہاں تک کہ شعیب بن عزیز بھی دس سال بعد اتفاقاً ان سے ملے تو یہ بات معلوم ہوئی۔ یہ دنیا ایسی ہی ہے۔ یہی نذیر ناجی جب ٹی وی سکرین پر تھے اور اخبار کے گروپ ایڈیٹر کے طاقتور عہدے پر براجمان تھے تو ان سے ملنے کی خواہش رکھنے والوں کی لائن لگی رہتی تھی۔صف اول کے سیاست دان انہیں بلاتے اور ان کے یہاں جاتے تھے۔ وقت نے کروٹ بدلی ، وہی نذیر ناجی یادداشت کھو بیٹھے تو اب اپنے بیٹے اور اہلیہ کے ہمراہ جم خانہ کلب میں بیٹھے خالی خالی نظروں سے گزرنے والو ں کو دیکھتے ہیں۔ لوگوں کو وہ یاد ہیں لیکن انہیں اپنا نام تک یاد نہیں۔ خیال آتا ہے کہ اپنے عروج کے زمانے میں وہ سوچتے ہوں کہ ان کا نام کب تک زندہ رہے گا لیکن ان کی اپنی زندگی میں ہی ان کا نام خود انہیں یاد نہیں رہا۔ دعا ہے کہ اللہ پاک انہیں صحت یاب کرے اور وہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی اس بھرمار میں اسی تجزیہ کے ساتھ نظر آئیں جس کی بنیاد حقیقت پر رکھی جاتی ہے۔(بشکریہ نئی بات)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں