تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ہر انسان کی اپنی پسند ناپسند ہوتی ہے۔۔ کسی کو کچھ مزیدار لگتا ہے تو کسی کو کچھ۔۔ جیسے ہمیں چائے کے ساتھ مولی بہت پسند ہے۔۔ مزہ آتا ہے۔۔ آپ شاید چائے کے ساتھ بسکٹ، رولز، سموسے یا پکوڑے پسند کرتے ہوں گے۔۔ جس طرح ہمیں آپ کی پسند پر اعتراض نہیں ،آپ کو بھی ہماری پسند پر انگلی نہیں اٹھانی چاہیئے۔۔ چلئے پھر آج کچھ ’’مزے دار‘‘ ہوجائے۔۔
ہمارے پیارے دوست نے ہمیں ایک واقعہ واٹس ایپ کیا۔۔لکھتے ہیں۔۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔۔ بائیک پر جاتے ہوئے ایک انکل اور آنٹی پر نظر پڑی جو کافی پریشانی کے عالم میں آتے جاتے لوگوں کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے رک کر وجہِ پریشانی پوچھی تو کہنے لگے۔۔کار لاک ہے اور چابی اندر ہی رہ گئی ہے۔۔ ان کی بات سن کر میرے اندر کا ہیرو جوش میں آگیا۔ میں نے کافی دیر تک سوچنے کے بعد حل نکالا،،کار کے دروازے کے شیشے کے اوپر سے ربڑ ہٹایا اور ایک دھاگے کو ڈھیلی گرہ ڈال کے وہاں سے اندر ڈالا اور کافی تگ و دو کے بعد دھاگے کی گرہ کھڑکی کے لاک میں پھنس گئی، اس کے بعد جھٹکے سے دھاگا کھینچا تو لاک کھل گیا ۔۔میں نے انکل کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا تو انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔میں اپنے آپ کو ایک کامیاب ہیرو feel کرتے ہوئے جانے لگا تو ان کی بیوی کی سرگوشی واضح طور پر مجھے سنائی دی۔۔۔چہرے سے ہی پکا چور لگتا ہے۔۔
آج بہت ہی پیارا دوست مجھے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ پاکستان کا وزیراعظم عمران خان ملک کی تقدیر بدل دے گا۔ ۔آدھا گھنٹہ بولتا رہا میں چپ کر کے سنتا رہا میں نے کوئی جواب نہیں دیا، آخر وہ خود ہی بولا ۔۔تم بولتے کیوں نہیں؟؟۔۔ میں نے کہا کہ۔۔۔ کتنا اعتبار کرتے ہو میرا ؟؟۔۔کہنے لگا، اپنے آپ سے بھی زیادہ۔۔پھر میں نے کہا۔۔یار مجھے دس ہزار روپے کی اشد ضرورت ہے۔۔وہ پھٹاک سے بولا۔۔یار تم بے شک بیس ہزار روپے لے لو،لیکن واپس کب کروگے؟؟ ۔۔میں نے کہا کہ۔۔جب عمران خان ملک کی تقدیر بدل دے گا تو واپس کر دوں گا۔۔میری بات سن کر اس کے چہرے کا رنگ اچانک فق ہوگیا۔۔ مایوسانہ انداز میں گردن جھکا کر کہنے لگا۔۔اے تے ناں دین والی گل ھوئی ناں،میں کوئی بچہ واں۔۔
ہم اکثر اپنی تحریروں میں ایک آدھ پنجابی جملہ ’’ٹانک‘‘ دیتے ہیں۔۔ اکثر دوست شکوہ کرتے ہیں کہ ترجمہ بھی لکھا کریں، ایسے احباب سے وعدہ ہے کہ جب ہمیں لگا کہ ہم مشکل پنجابی لکھ رہے ہیں تو لازمی ترجمہ بھی لکھیں گے۔۔ایک دوست نے پوچھا کہ آپ پنجابی تو نہیں؟ ان کو ہم نے میل کا رپلائی تو نہیں دیا لیکن یہاں بتادیتے ہیں کہ ہم ’’کٹر‘‘ پٹھان ہیں، یہ جو ہم کبھی کبھار پنجابی جملے کا تڑکا لگادیتے ہیں اس سے آپ قطعی یہ نہ سمجھئے گا کہ۔۔۔لگدا لہور دا اے۔۔۔ لاہور میں چا ر سال گزارے ،وہاں کے پانی کا اثر آہستہ آہستہ ہی جائے گا۔۔پنجابی زبان کا ذکر چل نکلا ہے تو کچھ بات اس پر بھی ہوجائے۔۔پنجابی میں زیادہ تر ’’یااللہ‘‘ کی جگہ۔۔ہائے او میریا ربا، کہاجاتا ہے، جوزیادہ جذباتی بھی لگتا ہے۔۔اردو میں ہم کسی پر طنز کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ۔۔ اب آپ خوش ہیں؟؟ اگر پنجابی میں طنزکیا جائے توکہیں گے۔۔ پے گئی ٹھنڈ تینوں؟؟میرا پیچھا چھوڑدو کو ہم پنجابی میں کہتے ہیں۔۔ مگروں لہہ جا۔۔جسے سمجھ آجاتی ہے وہ بھی مگروں لہہ جاتا ہے۔۔اکثر فون پر کہتے ہیں۔۔اور سناؤ؟؟ لیکن پنجابی کہتے ہیں۔۔ہور کوئی نویں تازی۔۔اس کے بعد باتوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔۔ آپ اپنے آپ میں رہیں کو پنجابی زبان والا بولے گا۔۔ اوئے بندے دا پتر بن۔۔چھوڑو یار کی جگہ مٹی پاؤ۔۔ اپنے کام سے کام رکھو ۔۔اردو میں کتنا طویل جملہ ہے، لیکن اسے پنجابی زبان والے بولیں گے تو۔۔ تینوں کی؟؟۔۔ خوش آمدید کو جی آیانوں کہتے ہیں تو جی بھی خوش ہوجاتا ہے۔۔پنجابی میں ہم یہ نہیں کہتے کہ فاصلہ رکھیں۔۔بلکہ کہتے ہیں۔۔پراں مر۔۔
باباجی کے ڈرائنگ روم میں محفل جمی ہوئی تھی۔۔ یہ ہمارے لاہور سے واپسی کے بعد کی تازہ تازہ محفل تھی۔۔ باتوں باتوں میں اچانک باباجی نے ہماری طرف نگاہ بھر کر دیکھا اور پوچھنے لگے۔۔پرانے اور نئے پنجابیوں میں کیا فرق ہے؟ ہم نے باباجی کو بغور دیکھا اور گردن شمال سے جنوب کی طرف گھمائی۔۔یعنی ہماری طرف سے باباجی کو صاف جواب تھا۔۔ باباجی نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ایک عدد سگریٹ نکالی اسے آرام سے سلگائی ،پھر لمبا سا کش لے کر ،طنز کا تیر ہمارے سینے پر مارا۔۔ یار چار سال لاہوریوں میں رہے ہو،کچھ تو تبصرہ کرو؟؟ ہم نے پھر نفی میں سرہلادیا۔۔ پیارے دوست پاس ہی بیٹھے تھے۔۔کہنے لگے۔۔عمران بھائی، کچھ تو فرمائیں پلیز۔۔ہم نے کچھ دیر سوچنے کی ایکٹنگ کی اور کہا۔۔کچھ خاص نہیں،پرانے والے دال خور تھے اور نئے ’’کھوتا خور‘‘۔۔۔یہ سنتے ہی محفل میں چھت پھاڑ قہقہہ لگا۔۔اور کافی دیر تک وہاں موجود لوگ ہنستے رہے اور ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتے رہے۔۔ شاید وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم بھی نئے والے پنجابی ہیں۔۔
نیونیوزپر آفتاب اقبال کا پروگرام خبریار دیکھ رہے تھے۔۔ اس میں ایک سیگمنٹ ہوتا ہے۔۔فرہنگ آصفیہ۔۔ جس میں اصل اردو سکھائی اور سمجھائی جاتی ہے۔۔بتایا جاتا ہے کہ ہم کس طرح کی غلط اردو بول رہے ہیں۔۔ اس بار آفتاب اقبال نے بتایا کہ۔۔جگت کا مطلب ہوتا ہے۔۔دانائی کی بات۔۔ہمیں حیرت کا جھٹکا ،دھچکا اور کھٹکا لگا۔۔ لیکن چونکہ ان کی ٹیم ریسرچ کے بعد ہی یہ سب لکھتی ہے تو ہم نے اسے ٹھیک سمجھ لیا۔۔ لیکن ہم دوران پروگرام یہی سوچتے رہے کہ فیصل آبادی تو پھر سارے کے سارے دانا ہیں۔۔ ایک رپورٹر نے کسی فیصل آبادی خاتون سے پوچھا۔۔جب زلزلہ آیا تو آپ کیا کررہی تھیں؟؟ وہ برجستہ بولی۔۔ انّی دیا میں ہِل رہی سی۔۔۔ایک فیصل آبادی رکشہ والے کی گدھا گاڑی والے سے ٹکرہوگئی۔ وہ بہت غصے میں نیچے اتر کے کہتا۔۔ ماما اپنی اَکھاں دے سیل پوا۔۔اور گدھے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔۔۔ تے ایس پیو نوں وی عینکاں لوا ۔۔۔ کسی نے گھنٹا گھر کے پاس کسی ریڑھی والے سے پوچھا۔۔کینو کیسے لگائے ہیں؟؟ وہ چٹاخ سے بولا۔۔برف تے۔۔۔ تربوز والے سے کسی خریدار نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ۔۔ دوانا لال تے ھے ناں؟ وہ کہنے لگا۔۔پاجی ٹینشن نا لو اینوں خون دِیاں بوتلاں لوایاں نے ۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کھجور کابھی اپنا لائف سرکل ہوتا ہے۔۔بچپن میں ’’کھجی‘‘، جوانی میں کھجور اور بڑھاپے میں ’’چھوارا‘‘ ہوجاتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔