shartiya meetha | Imran Junior

نظریاتی اختلاف

عمران یات

علی عمران جونیئر

دوستو،ایک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے معروف شاعر حبیب جالب کی بے عزتی کردی۔ کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔ قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔ پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی بے عزتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لئے مجھے جیل بھیج دو۔ پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔ مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑگیا۔۔گورنر نے تھانے میں فون کیا لیکن آغا صاحب نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ جس شہر میں جالب کی بے عزتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔ بات وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو بھٹو نے فون پر منت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔ اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے۔۔”شورش نے میری عزت بچالی، ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔“۔۔یہ واقعہ بزرگ صحافی محمد رفیق ڈوگر نے اپنی آپ بیتی”ڈوگرنامہ“ میں لکھا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ آغا شورش کاشمیری اور حبیب جالب میں شدید نظریاتی اختلاف تھا لیکن جب کسی نظریاتی مخالف پر مشکل آن پڑتی تو نظریاتی اختلافات بھلا د ئیے جاتے تھے۔ اس واقعہ کو ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری، لیکن آج نظریات کی جگہ مفادات نے لے لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست اور سیاست داں مسلسل تباہی کی راہ پر گامزن ہیں۔۔

نظریاتی ہونا ہماری نظر میں کوئی بری بات نہیں۔ جو نظریاتی ہوتا ہے وہ اصولوں پر کاربند ہوتا ہے، چاہے وہ اصول کیسے بھی ہوں، یہ الگ بحث ہے، لیکن جہاں دیکھی ”تری“ وہیں بچھادی ”دری“ والے لوگ ایسے منافق ہیں جو ہر کسی کو خوش رکھ کر اپنے مفادات پورا کرنا جانتے ہیں۔اس ملک کا حال دیکھ لیں کہ وزیراعظم نے پوری قوم کو کیا بلکہ پوری دنیا کو پاگل سمجھا ہوا ہے۔۔ شہبازشریف صاحب ورلڈ اکنامک فورم کی تقریب میں شرکت کیلئے گئے، یہ ایسا فورم ہے جہاں دنیا بھر کے سرمایہ دار موجود ہوتے ہیں، موصوف نے وہاں تقریر بھی کی۔بزرگ کہہ گئے ہیں نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔۔ ہمارے وزیراعظم صاحب دنیا بھر کے سرمایہ داروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے تقریر کررہے تھے کہ۔۔۔ ہمارا پاور سیکٹر تباہ ہو چُکا ہے۔۔۔ ہمارے ہاں بجلی کی جتنی چوری ہوتی ہے شائد کہیں نہ ہو۔۔ ہمارے پاس فقط اشرافیہ کا خیال کیا جاتا ہے اور کسی اور کا نہیں۔۔۔ ہم ٹیکس نہیں جمع کر پاتے جبکہ ہمارے خرچے چار گُنا زیادہ ہیں۔۔۔ ہم شائد کبھی اس بُحران سے نہیں نکل پائیں۔۔۔۔ ہمارا قرضہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ ایک موت کا شکنجہ ہے۔۔۔آپ خود سوچیں یہ باتیں ایک وزیراعظم ایسے فورم پر کررہا ہے جہاں دنیابھر کے سرمایہ دار بیٹھے ہوئے ہیں، موصوف اس طرح اپنے ملک کا نقشہ کھینچ رہے تھے جیسے ہمارا ملک جہنم ہے اور جس کی کوئی معیشت نہیں۔۔۔

یہ سارے حالات دیکھ کر کسی نے اخبار میں اشتہار شائع کرادیا۔۔انتہائی افسوس سے اطلاع دی جاتی ہے کہ ”خلوص“ گم ہو گیا ہے۔ اس کی عمر کئی سو سال ہے۔ بڑھاپے کی وجہ سے کافی کمزور ہو گیا ہے۔گھر میں موجود ”خودغرضی“ کے ساتھ ان بن ہو جانے پر ناراض ہو کر کہیں چلا گیا ہے۔ اُس کے بارے میں گمان ہے کہ انسانوں کے جنگل نے اسے نگل لیا ہے۔ اس کا چھوٹا لاڈلا بھائی ”اخوت“ اور بہن ”حب الوطنی“ سخت پریشان ہیں۔اس کے دوست ”محبت“ اور ”مہربانی“ بھی اس کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔۔اس کی عدم موجودگی میں اس کے دشمن ”شرپسند“ نے ”تعصب“ اور ”ہوس“ کے ساتھ مل کر تباہی مچا رکھی ہے۔ اس کی جڑواں بہن ”شرافت“ کا اس کے فراق کی وجہ سے انتقال ہو چکا ہے۔ ”شرافت“ کے غم میں ”حیا“ بھی چل بسی ہے۔۔اس کا بڑا بھائی ”انصاف“ اس کی جدائی میں رو رو کر اندھا ہو چکا ہے۔ اس کے والد محترم ”معاشرہ“ کو سخت فکر لاحق ہے۔اس کی والدہ ”انسانیت“ شدید بیمار ہے۔ آخری بار اپنے جگرگوشہ ”خلوص“ کو دیکھنا چاہتی ہے۔جس کوملے وہ اسے ”انسانوں“ کے پاس پہنچا دے، ورنہ ”انسانیت“ دم توڑ دے گی۔۔

بات ہورہی تھی نظریات اور مفادات کی۔۔بازارکے ایک نکڑ پر بریلوی برانڈ کی مسجد تھی جس کی پیشانی پر۔۔جامع مسجد غوثیہ رضویہ، حنفی بریلوی، جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔۔بازار کے بیچوں بیچ چوک میں اہل حدیثوں کی ایک بڑی اور عالیشان مسجد تھی جس کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تھا۔مسجد کے مرکزی دروازے پر گولائی کی شکل میں ایک لوہے کا بنا بورڈ لگا تھا جس پر، جامع مسجد و مدرسہ انوار توحید، اہلحدیث تحریر تھا۔ تھوڑا آگے جا کر ایک ذیلی گلی کے اندر ایک امام بارگاہ تھی جس کے صدر دروازے پر،امام بارگاہ امام رضا علیہ السلام کندہ کیا ہوا تھااور بازار کے آخری سرے پر بلند میناروں والی ایک اور بڑی مسجد تھی کہ جس کا دروازہ دور سے نظر آتا تھا،اس مسجد کے دروازے پر، جامع مسجد عمر رضی اللہ عنہ، حنفی دیوبندی موٹے حروف میں لکھا گیا تھا۔۔بازار کی ایک نکر سے آخری سرے تک کم از کم پانچ سو دکانیں تھیں کسی دکان پر مگر۔۔ بریلوی جنرل سٹور۔۔ دیوبندی کلاتھ ہاؤس۔۔ اہل حدیث گارمنٹس۔۔ شیعہ ہارڈ ویئر ہاؤس،نہیں لکھا ہوا تھا۔۔فرقہ پرست اور متعصب مسلمانوں کا سارا تعصب صرف دین رسول ﷺ کے ساتھ دیکھا، اپنے کاروبار کو کسی نے فرقہ پرستی کی غلاظت سے آلودہ نہیں کر رکھا تھاجبکہ مسجدوں اور مدرسوں سے فرقہ واریت کی گندگی دور سے نظر آ رہی تھی۔یہ مسلمان کتنے سمجھدار ہیں ناں؟یہ اللہ و رسول ﷺ کے نام پہ ایک نہیں ہو سکتے، پیسوں کیلئے ایک ہو جاتے ہیں۔کبھی کسی فرقہ پرست تاجر سے سنا کہ اس نے مخالف فرقے والے کا آرڈر نہ لیا ہو؟اسے سامان بیچنے سے انکار کیا ہو؟ہر گز نہیں۔۔بزنس دینے والا شیعہ کافر نہیں ہے۔نفع دینے والا وہابی بھی گستاخ نہیں ہے۔گاہک کی صورت میں آئے تو دیوبندی بھی خارجی تکفیری نہیں ہے۔اور پکا گاہک ہو تو بریلوی بھی مشرک نہیں ہے۔یہ سب تماشے صرف مسجدوں اور مدرسوں میں کرنے کیلئے ہیں۔جہاں مخالف مسلک کا بندہ نماز پڑھنے آ جائے تو اس کے جانے کے بعد مسجد دھوئی جاتی ہے۔کیا تم اللہ کو دھوکا دے سکتے ہو؟مسجد تو صرف وہی ہے جو نبی کریم ﷺ کے طریقے پر مسجد نبوی کی طرز پر بنی ہو، یہ تمہاری فرقوں کے ناموں پہ بنی مسجدیں نہیں ہیں،یہ تمہارے فرقوں کی عبادت گاہیں ہیں،جہاں پر تم اللہ کی نہیں اپنے فرقوں کی عبادت کرتے ہو۔۔اور خود کو دھوکا دیتے ہو۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پاکستان میں حرام کھانے والوں نے حلال کھانے والوں کی زندگی عذاب کررکھی ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں