shartiya meetha | Imran Junior

نئی تحقیق اور ذلیل۔۔

علی عمران جونیئر
دوستو، نگراں حکومت آگئی ہے، جانے والے جس طرح کے دعوے کررہے ہیں اور اپنے منہ میاں مٹھو بن رہے ہیں، ان کا حال اس مچھر جیسا ہے جو کہیں جارہا تھا،اچانک راستے میں زور کا طوفان آیا،مچھر نے ادھر ادھر دیکھا اور جھٹ سے ایک کیکر کے درخت سے لپٹ گیا۔۔اور جب طوفان ٹل گیا تو پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا۔۔جیاج میں نہ ہوندا تے اے کیکر گیا سی۔۔اب کبھی اگر آپ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے والی بات سنیں گے تو یہ والا مچھر بہت یاد آئے گا۔۔
اگرچہ مناسب غذا، ورزش، وزن میں کمی اور دیگر اہم امور صحت کے لیے لازمی ہوتے ہیں۔ تاہم اب ماہرین نے کہا ہے کہ رحم دلی، ہمدردی، رضاکارانہ خدمت اور خیرات جیسے عوامل بھی مسلسل ورزش کا درجہ رکھتے ہوئے صحت پرانتہائی اہم اثرات مرتب کرتے ہیں۔لندن یونیورسٹی کے ماہرین نے اس ضمن میں 48ہزار سے زائد افراد کا طویل مدتی سروے کیا ہے۔ اس مطالعے میں صحت کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں سماجی خدمات بالخصوص دوسرے لوگوں کی مدد اور دائمی درد کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے۔ مجموعی طور پر اس سے عمر میں اضافہ ہوسکتا ہے اور جسم کا قدرتی دفاعی (امنیاتی) نظام مضبوط ہوتا ہے۔تمام شرکا سے پوچھا گیا کہ اگرانہوں نے گزشتہ ایک سال میں کچھ رقم عطیہ کی ہے تو اس کا جواب دیں۔ ان میں سے دوتہائی نے کہا کہ وہ اچھے مقصد کے لیے رقم عطیہ کرتے ہیں اور ہرپانچ میں سے ایک شخص نے کہا کہ اس نے اسی بارہ ماہ میں رضاکارانہ کام بھی کیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد نے خیرات یا رقم عطیہ کی تھی ان کے دیرینہ درد میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور واقع ہوئی خواہ وہ جسم کے کسی بھی مقام پر تھا۔ رضاکاروں میں اس کا زیادہ اثر دیکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رضاکارانہ امور ورزش جیسے ہوتے ہیں۔ماہرِنفسیات، ڈاکٹر آڈرے ٹینگ کے مطابق جب آپ جب رقم عطیہ کرتے ہیں یا رضاکارانہ عمل کرتے ہیں تو اینڈروفنس نامی کیمیائی اجزا خارج ہوتے ہیں جو درد کم کرتے ہیں اور سکون پہنچاتے ہیں۔ 2013 میں ایریزونا یونیورسٹی کے ماہرین نے دیکھا کہ 55 سال سے زائد کے وہ افراد جو باقاعدگی سے خیرات کرتے ہیں ان میں قبل ازوقت موت کا خطرہ 24 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔اس طرح ہمدردی، مدد کا جذبہ اور رضاکارانہ کام کرنے سے نہ صرف تکلیف کی شدت کم ہوتی ہے بلکہ اس سے عمربھی دراز ہوسکتی ہے۔
ایک اور نئی تحقیق میں فرنچ فرائز کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ چینی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اندھا دھند فرنچ فرائیز کھانے سے یاسیت (ڈپریشن)، اعصابی بے چینی(اینزائٹی) اور دیگر عوارض پڑھ سکتے ہیں۔اس ضمن میں زیجیانگ یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر یو زینگ اور ان کے ساتھیوں نے گیارہ سال سے زائد عرصے تک 140,728 افراد کا جائزہ لیا ہے۔ پہلے دو سال میں 8294 افراد سامنے آئے جو ڈپریشن کے شکار تھے۔ ان مریضوں کو الگ کرکے گنا گیا جبکہ مطالعے سے معلوم ہوا کہ جن افراد نے فرائیڈ غذائیں کھائی تھیں ان میں ڈپریشن کے آثار دیکھے گئے۔ اس طرح کل مریضوں کی تعداد 12,735 تک دیکھی گئی۔ ان میں جن افراد نے فرنچ فرائیز کھائے تھے ان میں اس کی شرح دو فیصد زائد نوٹ کی گئی۔ڈاکٹر یو زینگ کہتے ہیں کہ ان کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ ان غذاؤں کو نہ کھانے والے افراد کے مقابلے میں فرنچ فرائیز اور فرائیڈ غذا کھانے والوں میں اینزائٹی 12 فیصد اور ڈپریشن 7 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر یو کا اصرار ہے کہ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ طرزِ حیات اور اچھی غذائی عادات اپنا کر اس خطرے کو ٹالا جاسکتا ہے۔اس کی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ پروسیس شدہ غذا سے مکمل اجتناب کیا جائے اور ماہرین نے فرنچ فرائیز کو بھی پروسیس والے کھانوں میں شامل کیاہے۔
معروف سندھی ادیب امر جلیل نے اسلام آباد میں ایک بنگالی باورچی رکھا، وہ مہمانوں کے سامنے کہتا۔۔ذلیل صاحب چائے لاؤں؟ جلیل صاحب کے بارہا سمجھانے کے باوجود کہ میں جلیل ہوں ذلیل نہیں، باورچی باز نہ آیا۔اس پر کسی اور بنگالی نے اس کا حل بتایا کہ چونکہ بنگالی جیم کی آواز کو زال اور زال کو جیم پڑھتے ہیں، اس لئے اگر آپ اسے اپنا نام جلیل کی بجائے ذلیل لکھ کر دیں گے تو وہ درست بولے گا۔۔جب ایسے لکھ کر دیا تو اب باورچی نام بلاتے وقت کچھ تھوڑا طنزیہ سا کہا کرتا۔۔جلیل صاحب چائے لاؤں؟؟ جلیل صاحب کہنے لگے ۔۔اب ڈبل مسئلہ ہوگیا ہے، پہلے وہ مجھے ذلیل کہتا تھا اور جلیل سمجھتا تھا لیکن اب وہ مجھے جلیل بولتا ہے اور ذلیل سمجھتا ہے۔۔ادب کے حوالے سے بات ہورہی ہے تو ایک قصہ اور سن لیں۔۔ امیر مینائی معروف شاعر گزرے ہیں، داغ دہلوی کے ہم عصر تھے۔۔ایک روز حضرت داغ سے کہنے لگے۔۔ میری شاعری میں وہ نزاکت، چاشنی اور رومانوی اثر کیوں نہیں جو تمہاری شاعری میںہے؟۔۔داغ نے کہا۔۔حضرت کبھی مے خانے کا رخ کیا ہے؟؟۔۔امیرمینائی نے جواب دیا۔۔ لاحول ولاقوۃ،حضرت معاف کیجئے یہ کیا سوال ہوا؟؟ داغ نے پھر سوال داغا۔۔ کبھی کسی حسینہ کی محفل میں جا کر گانا سنا؟۔۔امیرمینائی بولے۔۔توبہ توبہ کیجئے داغ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ داغ نے آخری سوال پوچھا، کبھی رقص کی محفل میں جانا ہُوا؟۔۔امیرمینائی نے ایک بار پھر لاحول پڑھ کر انکار میں گردن دائیں سے بائیں گھمادی۔۔داغ فرمانے لگے۔۔ آپ صرف بیوی کو دیکھ کر شاعری کریں گے تو میاں پھر رومانوی اثر، نزاکت اور چاشنی بھی ویسی ہی ہو گی۔۔
بیوی نے جب کسی میگزین میں سگریٹ نوشی کے نقصانات کے حوالے سے تحقیقی رپورٹ پڑھی تواس الجھن میں گرفتار ہوگئی کہ اپنے شوہر کو جوکہ چین اسموکر تھا، سگریٹ چھوڑنے کے لئے کیسے راضی کرے؟بیوی جب شوہر کو سگریٹ نوشی سے صحت کو ہونے والے نقصانات کا بتاتی، شوہر سنی ان سنی کردیتا۔آخر بیوی کو ایک ترکیب سوجھی شوہر سے بولی۔۔ وہ سگریٹ پر جو پیسہ خرچ کرتا ہے، وہ صرف اس کا نہیں، خاندان کا بھی اس میں حصہ ہے اور اس نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کو روزانہ پانچ ڈالر ادا کرے اس رقم کے بدلے میں جو وہ سگریٹ پر روزانہ ادا کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ روزانہ دس ڈالر دینے کے لئے بھی تیار ہے۔ شوہر سگریٹ نوشی نہیں چھوڑتا اوروزانہ اپنی بیوی کو دس ڈالر دینے لگا، سگریٹ نوشی جاری رہنے پر شوہر خوش تھا۔۔ بیوی نے محسوس کیا کہ اس سے وہ سگریٹ نوشی چھوڑنے پر راضی نہیں ہے، اس لئے اس نے سوچا اور پھر اس کے ذہن میں یہ حیرت انگیز منصوبہ آیا۔وہ ہر روز اس کے سامنے دس ڈالر جلاتی تھی، اور یقیناً اس نے کئی دن تک یہ معاملہ برداشت کیا، پھر اس سے اسے تکلیف ہونے لگی، اور اس نے اس کے کام پر اعتراض کیا اور کہا کہ وہ پیسے جلاتی ہے اور بے فائدہ ضائع کرتی ہے۔ توبیوی نے جواب دیا کہ وہ دونوں پیسے جلاتے ہیں، لیکن ہر ایک اپنے اپنے طریقے سے! شوہر نے بیوی کو غور سے دیکھااورکچھ سوچنے لگا ۔۔ پھر احساس ہوا کہ اس کی غلطی کتنی بڑی تھی۔۔پھر۔۔۔ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات ۔۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اپنے کپڑے اور جوتے خاص مواقع کیلئے رکھنا بند کردیں جب بھی ہوسکے پہنیں،آج کل زندہ رہنا ایک خاص موقع ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں!!

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں