تحریر: عمار چودھری۔۔
آج سے بیس برس بعد جدید ممالک میں اڑنے والی گاڑیاں‘ ڈرونز اور ہوائی قلعے عام ہوں گے۔ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ یا تو ختم ہو چکے ہوں گے یا پھر ماچس کے سائز میں تبدیل ہو چکے ہوں گے۔ جس بندے نے بھی کمپیوٹر کا کام کرنا ہو گاوہ بیٹھے گا سامنے دیوار پر لیزر شعائوں سے سکرین بن جائے گی ‘ میز یا کوئی بھی ہموار سطح کی بورڈ میں تبدیل ہو جائے گی اور وہ اپنا کام وہیں کر لے گا۔ زیادہ تر کام بول کر ہوں گے یا سوچ کر۔مثلاً آپ کسی کو فون کرنا چاہتے ہیں تو یہ روایتی انداز اور روایتی موبائل فون بھی ختم ہو چکے ہوں گے۔ آپ نے بس ذہن میں اس بندے کا نام لانا ہے اور یہ سوچنا ہے کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔ اس کے موبائل فون پر عام کال کرنی ہے‘کس سم سے کرنی ہے‘ وٹس ایپ پیغام بھیجنا ہے جو بھی کرنا ہے آپ سوچیں گے سر کو جنبش دیں گے اور اگلے شخص کو کال مل جائے گی۔ آپ کو بات کرنے کیلئے کان میں کوئی ہیڈ فون یا ہینڈ فری بھی نہیں لگانا پڑے گی بلکہ ہر شخص کو مستقل کان کے اندر ایک چِپ نما ہینڈ فری لگ جائے گی جو نظر بھی نہیں آ ئے گی اور اسے بار بار اتارنا یا چارج بھی نہیں کرنا پڑے گا بلکہ وہ وائرلیس اور خودکار طریقے سے چارج ہو جایا کرے گی۔ آپ نے صرف سوچنا ہو گا کہ میں نے صبح کتنے بجے اٹھنا ہے آپ کے کان میں اتنے بجے صبح الارم بجنا شروع ہو جائے گا۔ جس طرح وائرلیس انٹرنیٹ کام کرتا ہے اسی طرح بجلی بھی وائرلیس ہو جائے گی۔ آپ کا لیپ ٹاپ‘ موبائل فون یا آئی پیڈ سب کچھ بغیر تار کے چارج ہوتا رہے گا۔
ان تمام چیزوں پر ابتدائی طور پر کام شروع ہو چکا ہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا شعبہ نئے شعبوں میں اسی لئے سب سے زیادہ مقبول ہو رہا ہے۔ عام طور پر بچے کمپیوٹر سائنس یا آئی ٹی یا کمپیوٹر انجینئرنگ کے شعبوں میں ماسٹرز کرتے تھے مگر اب سائبر سکیورٹی‘ ڈیٹا سائنس‘ انٹرنیٹ آف تھنگز‘ روبوٹکس کا دور ہے۔ متحدہ عرب امارات ‘ جاپان اور سنگاپور میں تو روبوٹکس کا استعمال کمرشل بنیادوں پر ہو بھی رہا ہے۔ ریستورانوں میں روبوٹ آپ کو کھانا پیش کر تے ہیں‘ بھاری سامان اٹھانے اور ریسیپشن پر آپ کی رہنمائی کیلئے کھڑے نظر آتے ہیں ‘ گاڑیوں کے کارخانوں میں روبوٹ ہی گاڑیوں کو جوڑنے اور ان پر رنگ کرنے کا کام سرانجام دے رہے ہیں حتیٰ کہ باغوں سے پھل توڑنے کیلئے بھی روبوٹس کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔آج سے بیس پچیس سال قبل اکائونٹس کا شعبہ بھی لوگوں کی توجہ کا باعث تھا لیکن کمپیوٹر اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ نے اسے بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اب ایسے ایسے سافٹ ویئر اور موبائل ایپ مفت یا انتہائی ارزاں دستیاب ہیں جن کے ذریعے چھوٹے بڑے دکاندار اورکاروباری کمپنیاں اپنے کھاتوں کا حساب کر سکتی ہیں۔ سافٹ ویئر ٹیکنالوجی صرف زندگی کے دیگر شعبوں کو ہی نہیں چاٹ رہی بلکہ یہ اپنے اندر بھی ایسی تبدیلیاں تیزی سے لا رہی ہے کہ خود کو اپ ڈیٹ نہ رکھنے والا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ مثلاً آج سے پندرہ سال قبل اگر کسی نے کوبال یا پی ایچ پی کمپیوٹر لینگوئج پڑھی تھی اور تب اسے کینیڈا میں امیگریشن یا نوکری مل گئی تھی تو آج کمپیوٹر کی یہ زبانیں سیکھنے والا کسی کام کا نہیں کیونکہ کمپیوٹر کی زبانیں بھی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔جو نئی چیزیں نہیں سیکھ رہا خود کو وقت کے ساتھ نہیں چلا رہا اسے معاشی تنگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی ایک ایسا موم ہے جسے جس طرح پگھلایا جائے ویسا ہی بنا کر فائدہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ بات صرف آئیڈیا آنے اور اس پر عمل کرنے کی ہے۔ دنیا کو بدلنے میں گوگل کا اہم ترین کردار ہے۔ گوگل کا چیف ایگزیکٹو سندر پچائی ایک بھارتی نوجوان ہے۔ یہ اس وقت پچاس کے لگ بھگ ہے لیکن اس کی سالانہ آمدن ساٹھ کروڑڈالر سے زائد ہے۔یہ اتنے بڑے عہدے پر صرف اس لئے پہنچا کہ اس نے دنیا کیلئے آسانی پیدا کی۔ اسے اپنی زندگی میں جن مشکلات سے گزرنا پڑا اس نے ان کا حل آئی ٹی کی مدد سے نکالا اور انہیں گوگل کے ذریعے آن لائن نافذ کر دیا۔ ایک دن سندر پچائی کی بیٹی اس کے پاس دو پھول لے کر آئی اور اپنے باپ سے ان کا نام پوچھا۔ سندر نے یہ پھول پہلی مرتبہ دیکھے تھے۔ اس کی بیٹی بولی آپ اتنے بڑے آئی ٹی ماہر ہو کر بھی ان پھولوں کا نام نہیں جانتے۔ یہ دیکھ کر سندر پچائی نے سوچا کہ کیوں نہ ایسی ٹیکنالوجی بنائی جائے کہ جس کے ذریعے کسی بھی چیز کی معلومات پلک جھپکتے میں مل جائیں۔ اس نے پچیس لوگوں کی ٹیم بنائی اور ان سب نے مل کر گوگل لینز سافٹ ویئر بنایا۔ یہ سافٹ ویئر نہیں بلکہ جادو ہے۔ آپ موبائل فون کے کیمرے کو کسی بھی چیز کی طرف کریں تو یہ اس کے بارے میں درجنوں قسم کی معلومات ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں آپ کے سامنے رکھ دے گا۔ وہ چیز کہاں سے مل سکتی ہے‘ اس کی قیمت کیا ہے اور اس چیز کو کتنی اور کمپنیاں بنا رہی ہیں یہ ساری معلومات گوگل لینز سے مل جاتی ہیں۔ یہ چیزیں دیکھ کر آج ہم لوگ اتنے حیران اس لئے نہیں ہو رہے کیونکہ ہم آہستہ آہستہ ایجادات کے عادی ہو چکے ہیں۔ پاکستان ترقی پذیر ہونے کے باوجود بہت سے ملکوں سے آگے ہے اور آج سے دس سال پیچھے دیکھیں تو یہاں بھی بہت سی ترقی ہو چکی ہے۔ مثلاً اب ٹریفک چالان جمع کرانے کیلئے بینک کی قطاروں میں لگنے کی ضرورت نہیں‘ آپ موبائل فون سے ہی آن لائن موقع پر جرمانہ ادا کر سکتے ہیں‘ اسی طرح آج اساتذہ کے تبادلے بھی ای ٹرانسفر کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ موبائل کے ذریعے سرکاری اساتذہ اپنے پسندیدہ سکول کیلئے اپلائی کرتے ہیں اور خودکار طریقے سے ان کے پوائنٹس کیلکولیٹ کر کے انہیں نزدیکی سکول الاٹ ہو جاتا ہے۔گزشتہ برس کورونا کے وار شروع ہوئے تو بڑی عید آ گئی اور لوگوں کو قربانی کے جانور خریدنے میں مشکلات پیش آئیں جس پر نجی اور سرکاری سطح پر درجنوں موبائل ایپس آ گئیں اور شہریوں نے گھر بیٹھے جانوروں کی خریداری کی ‘تاہم ان ساری جدتوں کے باوجود آج سے بیس سال بعد کیا ہو گا اس بارے میں آج بھی ہم یقین کرنے کو تیار نہیں۔ دبئی میں ایک کمپنی تین سو ایسی ہوائی گاڑیاں بنا رہی ہے جو گاڑی سے دس گنا تیز اڑیں گی اور ان میں مسافر صرف چالیس ڈالر ادا کر کے دس منٹ میں دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکیں گے۔اسی طرح سائنسدان انسان کو بوڑھا کرنے والے خلیوں کو سست کرنے پر کام کر رہے ہیں تاکہ زندگی کا دورانیہ بڑھایا جا سکے اور زیادہ سے زیادہ عرصہ جوانی میں گزارا جا سکے۔ایسی جدید خوراک پر کام ہو رہا ہے جس کی ایک گولی کھانے سے آپ کو درکار تمام وٹامنز پورے ہو جائیں گے اور آپ کو سارا دن بھوک نہیں لگے گی۔آبادی بڑھنے اور وسائل کی کمی کے باعث دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش کا کام تیز ہو جائے گا بلکہ یہ کام تو ٹیسلا کمپنی کا مالک ایلون مسک ابھی سے کر رہا ہے۔ اس کی کمپنی سپیس ایکس مریخ اور دیگر سیاروں پر مسافروں کو بھیجنے کیلئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ آج ہمیں یہ ناممکن اور بیوقوفی لگ رہی ہے لیکن ہر نئی ایجاد کے وقت لوگ اس پر یقین نہیں کرتے لیکن پھر اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ان ساری ایجادات اور ترقیوں کے باوجود زندگی کا ایک پہلو ایسا ہے جو وقت کے ساتھ کمزور پڑ رہا ہے اور وہ ہے انسانوں کی آپس میں محبت‘ قربت اور پیار۔ اس کا عکس ہم آج کی زندگی میں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جب سبھی موبائل فونوں میں گم اور ملنا ملانا بھول چکے ہیں۔ آج سے بیس سال بعد جب جدت کی ایک نئی دنیا انسانوں کو اپنے سحر میں لے چکی ہو گی‘ تب انسانوں‘ خاندانوں اور دوستوں میں آپس کے فاصلے کس قدر بڑھ چکے ہوں گے‘ اس بارے میں کسی کے پاس کوئی پلان ہے نہ سوچنے کا وقت۔(بشکریہ دنیا)۔۔