تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
پاکستانی سیاست پچھلے کچھ عرصے سے بہت تیز ہوگئی ہے۔ بلکہ کچھ ایسی تیز ہو گئی ہے کہ اب یہ سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ روز ایک نئی بات اور نیا ہنگامہ۔ وہی بات یاد آتی ہے کہ آپ اپنی مرضی سے جنگ شروع تو کر سکتے ہیں لیکن مرضی سے ختم نہیں کر سکتے۔ یہی کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا ہے۔ لڑائی شروع تو کر بیٹھے ہیں لیکن اب اس کا فیصلہ دوسرا فریق کرے گا کہ یہ کب ختم ہوگی اور اس کی کیا شکل نکلے گی۔ اگر آپ کو یاد ہو یہی کچھ جرمنی میں ہٹلر نے کیا تھا‘ جب اپنی فوجیں پولینڈ میں داخل کر کے دوسری جنگِ عظیم شروع کی تھی۔ جرمن طیاروں نے لندن پر بمباری کر کے اسے برباد کر دیا تھا‘ لگ رہا تھا کہ پورے یورپ پر اب جرمن راج ہوگا‘ جیسے کبھی نپولین نے یہ خواب دیکھا تھا۔ لیکن جنگِ عظیم کا انجام انہی جرمنز کی شکست پر ہوا اور نتائج ہٹلر کی خودکشی پر جا نکلے تھے۔ جو پورے یورپ کو فتح کرنے نکلا تھا وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوا۔ اس طرح جاپانیوں نے امریکی بحرے اڈے پرل ہاربر پر حملہ کر کے امریکہ کے خلاف جنگ چھیڑ تو دی تھی لیکن جواباً امریکہ نے ایٹم بم مار کر لاکھوں جاپانی مار دیے اور جاپان آج تک اس کے اثرات سے نہیں نکل سکا۔
اس طرح افغانستان کی سرزمین سے امریکہ پر گیارہ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی کر کے امریکہ پر حملہ تو کر لیا گیا لیکن جواباً امریکہ نے لاکھوں افغان مار ڈالے اور اپنی مرضی سے بیس سال بعد یہ ڈرامہ کرکے نکل گئے کہ انہیں شکست ہوگئی ہے۔ یہ امریکن کا پرانا سٹائل ہے۔ حملہ کر کے لاکھوں بندے مار دو‘ قبضہ کرو اور اپنے ٹارگٹ حاصل کرنے کے بعد یہ رولا ڈال دو کہ ہمیں شکست ہو گئی تاکہ مظلوم قومیں اس غرور میں رہیں کہ انہوں نے سپر پاور کو شکست دے دی‘ چاہے اس عمل میں ان کے لاکھوں بندے مارے گئے‘ نسلیں تباہ ہوگئیں۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ مظلوم قومیں انتقام کے چکر میں نہ پڑ جائیں اور اس گولی پر مطمئن اور خوش رہیں کہ وہ جیت گئے تھے۔ وہ عظیم قوم ہیں جنہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
خیر دنیا اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب ملکوں اور حکمرانوں یا انسانوں نے اپنے مخالفین کے خلاف اپنی مرضی کی تاریخ‘ وقت اور میدان پر جنگ شروع کی لیکن ایک دفعہ وہ جنگ شروع ہوئی تو پھر ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ پھر گیند ان کے مخالف کی کورٹ میں چلی گئی کہ اب وہ جنگ کو کہاں لے کر جائے گا۔ اگر آپ اس اصول کو ملکی سیاست پر لاگو کریں تو یہی پیٹرن آپ کو نظر آئے گا کہ جب طاقتور طبقات یا حکمران یا سیاستدان اپنے حساب کتاب کے مطابق کوئی جنگ شروع کرتے ہیں تو ان کا خیال ہوتا ہے کہ نتائج بھی اپنی مرضی کے نکلیں گے۔ اس سلسلے میں نواز شریف‘ مریم نواز اور عمران خان کی مثالیں فٹ بیٹھتی ہیں۔ جب نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو ان کے دفتر کی کرتا دھرتا مریم نواز صاحبہ تھیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو یہ مشورہ دینے والے اور کوئی نہیں‘ ہمارے میجر عامر ہی تھے جنہوں نے کسی ملاقات میں انہیں کہا تھا کہ ان کے بیٹے تو سیاست سے دور ہیں‘ بہتر ہوگا وہ مریم نواز صاحبہ کو سیاست میں لائیں اور اپنی جانشین کے طور پر پروموٹ کریں۔ انہوں نے شاید ذوالفقار علی بھٹو کی مثال بھی دی ہوگی جس نے وزیراعظم ہوتے ہوئے آکسفورڈ سے فریش گریجویٹ بینظیر بھٹو کو فارن آفس میں ایک ڈیسک اسائن کیا تھا کہ وہ وزارتِ خارجہ اور عالمی ڈپلومیسی کے معاملات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یقینا نواز شریف خاندان یہی سوچ رہا ہوگا کہ شہباز شریف کے دونوں بچے حمزہ اور سلمان پہلے ہی سیاست میں ایکٹو ہیں‘ اگر مریم صاحبہ کو آگے نہ لایا گیا تو نواز شریف کی گدی کا حقدار حمزہ ہوگا۔ مرکز میں حمزہ وزیراعظم تو پنجاب سلمان کی گود میں آن گرے گا۔ وہی صورتحال ہوگی جو 1997ء میں تھی جب نواز شریف وزیراعظم اور شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے۔ یوں مریم صاحبہ کو لانچ کیا گیا اور انہوں نے وزیراعظم ہاؤس سنبھالا اور ایسا سنبھالا کہ ایک دن وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو میڈیا بریفنگ میں کہنا پڑا کہ حکومتیں ٹویٹر پر نہیں چلتیں۔ ان کا اشارہ مریم نواز صاحبہ کے وزیراعظم ہاؤس میں بنائے گئے میڈیا سیل کے حوالے سے تھا جو اپنے مخالفوں کی ایسی تیسی کیے ہوئے تھا۔ آخر اسی میڈیا سیل سے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل کے خلاف کمپین چلائی گئی اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ڈان لیکس کی صورت میں نکلا اور نواز شریف نے اپنے وزیرو ں کو انکوائری کمیٹی سامنے پیش کیا اور چند وزیروں کو برطرف بھی کیا۔
خان نے بھی وہی روٹ لیا اور وزیراعظم بن کر کئی محاذ کھولے تو بچے کھچے محاذ انہوں نے اپوزیشن میں جا کر کھولے اور اب وہ محاذ ان سے بند نہیں ہو پا رہے۔ خان اور ان کی ٹیم کو بھی نواز شریف کی طرح زعم تھا کہ وہ جب چاہیں کسی کو بھی لمبا ڈال سکتے ہیں۔ خان کو زیادہ زعم تھا کیونکہ ایک تو وہ پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تھے‘ دوسرے وہ ہینڈسم بہت تھے‘ تیسرے وہ ورلڈ کپ جیت چکے تھے‘ چوتھے سوشل میڈیا پر ان کا راج تھا۔ اور تو اور وہ دنیا بھر سے لڑنے کی سکت رکھتے تھے اور ان کا نعرہ آج کل تو ویسے ہی کھڑکی توڑ ہفتہ منا رہا ہے کہ میں کلا ہی کافی آں۔ اس ضرورت سے زیادہ اعتماد نے انہیں اتنا نقصان دیا ہے کہ اب خان روز زمان پارک میں اکیلا بیٹھا مقتدرہ سے ملاقات کی اپیلیں کررہا ہے اور آگے سے کوئی جواب نہیں ملتا۔ ایک دوست کہنے لگا کہ خان سے زیادہ قصور ان کے درباریوں کا ہے۔ اس صحافی دوست کے مطابق اس نے خود لاہور سے اہم سابق وفاقی نوجوان وزیرکو یہ کہتے سنا کہ خان صاحب آپ جب عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو جج صاحبان بھی آپ سے ڈرتے ہیں اور فوراً ضمانت دے دیتے ہیں۔ اب اس میں قصور کس کا ہے؟ اس درباری وزیر کا ہے جو خان کو بانس پر چڑھاتا رہتا ہے یا خان کا ہے جس نے ایسے درباریوں کو اپنے دربار میں اہم عہدہ اور جگہ دے رکھی ہے۔ اس طرح ایک اہم سورس کا کہنا ہے کہ خان کو چند ریٹائرڈ فوجی افسران نے بھی مروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان سابق جرنیلوں کے موجودہ یا سابقہ قیادت کے ساتھ اپنے کچھ ایشوز تھے اور انہوں نے خان کے کندھے استعمال کیے۔ انہوں نے خان کو یقین دلا رکھا تھا کہ اگر انہوں نے فوج کی موجودہ قیادت کے خلاف اس طرح اپنا جارحانہ رویہ برقرار رکھا تو فوج کے اندر سے بہت سے ان کے حامی بغاوت کرکے انہیں دوبارہ وزیراعظم بنوا دیں گے۔ خان کی سادگی دیکھیں کہ وہ اس بات پر یقین کر بیٹھے کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ بس لوگوں کو ٹارگٹ دینا تھا اور پلان کرنا تھا۔
وہی نو مئی والی پلاننگ اب خان کے گلے پڑ گئی ہے۔ فوج اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اس نے نو مئی کے واقعات میں ملوث اپنے سینئر فوجی افسران کو سزائیں دے کر ایک پیغام پی ٹی آئی چیئرمین اور ان کے حامیوں کو دیا ہے کہ جو جنگ اِن کی طرف سے شروع کی گئی تھی‘ اس کا انجام اب وہ کریں گے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس بہت ساروں کے نزدیک نہ صرف ایک ٹریلر تھا بلکہ دراصل ایک پیغام تھا کہ آنے والے دنوں میں کیا کچھ ہونے والا ہے۔ ایک سورس کا کہنا ہے کہ فوج ہمیشہ اپنے تھری سٹار جرنیلوں کو سزائیں دینے سے گریز کرتی ہے تاکہ ٹرینڈ شروع نہ ہو لیکن نو مئی کے بعد جو سزائیں دی گئی ہیں اس سے واضح ہے کہ بات دور نکل گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اب بھی سمجھتے ہیں ”میں کلا ای کافی آں‘‘؟ خان جنگ چھیڑ تو بیٹھا ہے لیکن اس جنگ کا انجام کون لکھے گا۔ وہی پرانی بات کہ جنگِ عظیم دوم میں جرمن اور جاپانی حملوں میں پہل تو کر بیٹھے تھے۔(بشکریہ دنیانیوز)