تحریر: سید بدر سعید۔۔
روزنامہ نئی بات کا اسلام آباد اسٹیشن بند، تمام ورکرزکی ملازمت ختم ہوگئی۔ یہ ہونا ہی تھا۔اخباری صحافت زوال پذیر ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے۔2016 میں جب میں نے نوائے وقت سے استعفی دیا تھا تب اس ادارے کی تنخواہ سرکاری اداروں کی طرح مہینے کے شروع میں مقررہ دن آتی تھی۔ ایک دن کی تاخیر نہیں ہوتی تھی۔ میرے استعفی کے اگلے ماہ تنخواہ 4 دن لیٹ تھی، اس سےاگلے ماہ دس دن اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ وہاں کام کرنے والے ہمارے دوستوں کی کئی ماہ کی تنخواہ نیچے لگ گئی، جبری ریٹائر اور برطرفیوں کا طوفان آیا ۔ حالات یہ بھی تھے کہ ڈان جیسے ادارے نے سیلری کٹ لگا دیے تھے۔ میں پنجاب یونین آف جرنلسٹ کا جوائنٹ سیکریٹری رہا ہوں۔ ہم نے کئی میڈیا ہاوسز کے سامنے احتجاج کیے لیکن یہ سب بےمعنی ہے۔ اخباری صحافت شاید سیٹھ کی ترجیحات میں نہیں رہی۔ قاری بھی کم ہیں۔ بحثیت قوم ہم خبر سے زیادہ چسکے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس ماحول میں پیراشوٹر تجزیہ کار اور صحافیوں نے مزید خرابی کی وہیں اخباری صحافت سے منسلک ہمارے کافی دوستوں نے بھی محنت چھوڑ دی ۔
آج ہم روزنامہ نئی بات کے اسلام آباد اور پشاور اسٹیشن بند ہونے پر پریشان ہیں۔ یہ فیصلہ توکافی پہلے ہو چکا تھا۔ میں ذاتی طور پرجانتا ہوں کہ ایڈیٹر نجم ولی خان اس کے راستے میں سب سے زیادہ مزاحمت کرتے رہے۔ انہوں نے نئی بات کی خبروں، فرنٹ بیک پیج، ایڈیٹوریل پیج اورایڈیشن کواتنا زبردست بنا دیا کہ نئی بات ہرجگہ ڈسکس ہونے لگا۔ ریڈر شپ بڑھ گئی۔ وہ دلائل دیتے رہے کہ اسٹیشن بند نہیں ہونے چاہیے یا کم از کم اسٹاف کی ملازمت ختم نہیں ہونی چاہیے ۔ ہماری ڈسکشن میں بھی اس پریشانی کا اظہار کرتے رہے لیکن پھر روزنامہ دنیا نے اپنے اسٹیشن بند کر کے اخبار کو سنٹرلائز کر دیا ۔ دنیا نئی بات سے بہت بڑا ادارہ ہے۔ یہاں دلائل ختم ہو گئے کہ اگردنیا کو سنٹرلائز ہونا پڑا ہے تو نئی بات کس کھیت کی مولی ہے۔
یہ پہلی واردات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بزعم خود پاکستان کے سب سے بڑے اخبار نے مالکان کی میٹنگ میں طے کروایا کہ خسارہ کم کرنے کے لیے سنڈے میگزین پرنٹ میں بند کر کےآن لائن کیے جائیں اور سب کا مشترکہ فیصلہ ہو، سب نےاپنے سنڈے میگزین آن لائن کر دیے، اسٹاف کو ملازمت سے نکال دیا تو پتا لگا اسی ادارے نے اپنا سنڈے میگزین پرنٹ میں جاری رکھا ہوا ہے۔ پھر اسی ادارے نے صفحات کم کرنے کی تجویز دی اور آٹھ صفحات پر آگیا ، کئی اخبارات نے اسے فالو کیا تو پتا لگا اس نے اتوار کی اشاعت 50 صفحات کی کر دی کہ سپلیمنٹ اور اشتہارات تھے ۔
ہم کسی ادارے کے مالک کو گائیڈ نہیں کر سکتے کہ کیا کرے، بزنس مین تو اپنے بجٹ اورمنافع کو دیکھتا ہے۔ ہم اپنے رویوں کو متعین کرسکتے ہیں۔ اخبار کوجانداربنانے کی ضرورت ہے۔ جان چھڑائیں گے تو یہ آپ سے جان چھڑا لے گا ، محنت کم کریں گے یا بھرتی کے کاپی پیسٹ ایڈیشن بناتے رہیں گے تو معاملات مزید خراب ہوں گے۔
اب ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے۔ لوگ اخبارات کے بعد ٹی وی چینلز دیکھنا بھی چھوڑ رہے ہیں، اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ باقاعدہ بیٹھ کر ٹی وی دیکھے۔ آج اخبار، ٹی وی سب آپ کے موبائل پر آ چکا ہے۔ اس وقت اگر آپ ڈیجیٹل میڈیا پر اپنی جگہ نہ بنا سکے تو چند ماہ و سال بعد یہ بہت مشکل ہو جائے گا ۔ ڈیجیٹل پر کانٹنٹ کی جنگ ہے اور اخبار و ٹی وی کے صحافیوں سے بہتر کانٹنٹ کون بنا سکتا ہے۔
میری کوشش ہے کہ دوستوں کو اس معاملے میں سپورٹ کروں۔ ہمیں اپنے راستے خود بنانے ہیں۔ جو صحافی بےروزگار ہو رہے ہیں ان کی پریشانی اپنی جگہ درست ہے لیکن اس وقت سے لے اپنے راستے متعین کرنے کی کوشش کریں۔ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ صرف فیصلہ اور عمل کرنا ہے (سید بدر سعید)۔۔