pakistani sahafi kese soch rhe hein

نئے صحافیوں کیلئے چند گزارشات

تحریر: محمد ولید احمد،رپورٹر جیونیوز۔۔

شعبہ صحافت آگ کادریا بن چکا ہے، گزشتہ بیس سال میں ساٹھ پاکستانی صحافی جان کی بازی ہارچکے ہیں، میڈیاورکرزکےہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالی جاتی ہیں، انہیں منہ پرکپڑا ڈال کر اغواکیاجاتاہے، دھمکیاں دے کرڈرایا جاتاہے، خبرچھاپنے اور نشر کرنے سے روکاجاتا ہے، کھینچی ہوئی لکیروں پرچلنے کا پابند بنایاجاتا ہے، شک نہیں صحافیوں کیلئے زمین تنگ ہے لیکن صحافی کی ایک خبر پروزیراعظم گھر جاسکتا ہے، امریکا کا صدراستعفا دینے پرمجبور ہوسکتا ہے، وزیروں کے سامنے مشیر، بیوکرویٹس اوربڑے  نام گردنیں جھکاتے ہیں مگر مائیک اور قلم صحافی کو اتنی طاقت دیتا ہے کہ وہ بڑی مچھلیوں کے سامنے سوال کاجال پھینکتا ہے، صحافی کی خبر ریاست کوہلاسکتی ہے مگرجب آپ بڑی طاقتوں کے کھیل بے نقاب کرتے ہیں تو خطرہ گھیرلیتا ہے۔ ایسی صورتحال تقاضہ کرتی ہے کہ نئے صحافیوں کے سامنے چند گزارشات پیش کی جائیں۔

 یاد رکھئے پاکستان میں کچھ بہت مضبوط حلقے ہیں، اگر آپ اُن خفیہ طاقتوں کیخلاف مستقل مہم چلائیں گے، خبریں دیں گے، ان کے چہرے سے نقاب نوچیں گے پھر آپ کی نوکری ہی نہیں بلکہ عزت یہاں تک کہ جان بھی جاسکتی ہے، لینڈمافیا، ڈرگ مافیا، اسمگلنگ مافیا سمیت مگرمچھوں کا کہیں نہ کہیں گٹھ جوڑہوتا ہے، ایسی طاقتوں کیخلاف مسلسل خبریں دینا خطرے کی گھنٹی ہے۔ موت کے کنویں میں اترنے سے پہلے نکلنے کا راستہ دیکھ لیں، صحافت اورسماجی کارکن میں فرق ہوتا ہے، یہ فرق ختم ہوجائے تو صحافی پرمشکلات کاپہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ صحافی کا کام خبر دینا ہے خبر بننا نہیں۔ پاکستان میں صحافی کی نوکری کچے دھاگے کی طرح ہے اس لئے آپ صحافت کےمیدان میں قدم رکھنے سے پہلے کوئی ایسا کام ضرور کریں جس سے گھر کا چولہاجلتا رہے، فرض کیجئے نوکری اور شوق نے آپ کو صحافت میں قدم رکھنے پر مائل کیا اورحالات کی چھری نوکری پر چل گئی تو کٹی پتنگ کی طرح آپ ادھر سے ادھر پھرتے رہیں گے،خاندان دووقت روٹی کامحتاج ہوجائے گا، اب سوال یہ ہے کہ صحافت کے ساتھ ایسا کیا کریں کہ نوکری نہ بھی رہے تو دال دلیہ چلتا رہے، اس کا جواب آپ کے ارد گرد موجود ہے، وسائل، امکانات اوررجحانات کے حساب سے یہ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے کہ صحافت کے ساتھ پیسہ کمانے کیلئے کون سے ذرائع استعمال کئے جائیں۔ البتہ میڈیا ورکرز کیلئے سوشل میڈیا سے منسلک کاروبار نسبتاً آسان ہوتا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے آگے بڑھنے کے مواقع بھی بہت ہیں، نظریں اٹھا کردیکھیں مین اسٹریم میڈیا پر آپ کو بہت سے ایسے چہرے نظر آئیں گے جنہیں سوشل میڈیا سے پذیرائی ملی اور اب وہ مین اسٹریم میڈیا پر کامیڈی، سیاست اورکرنٹ افیئر پُروگرام کررہے ہیں۔ آئیے آگے بڑھتے ہیں، آپ کے ای میلز اور اے ٹی ایم کےپاس ورڈ کسی رازداں کے پاس موجود ہوناچاہئیں، آپ کی غیرموجودگی میں بینک اکاونٹ سے رقم نکالنے اور چلانے کا اختیار کسی اپنے کے پاس ہونا چاہئے ، یہ طریقہ بینک جاکر آپ باآسانی جان سکتے ہیں۔

جلسے،دھرنےاور احتجاج میں رپورٹنگ میں احتیاط ناگزیر ہے، مظاہروں میں لاٹھی چارج،شیلنگ اور کبھی فائرنگ تک ہوجاتی ہے، ایسے میں غفلت نہیں حاضر دماغی سے کام لیں، اکثرمظاہرین صحافی کو اکساتے ہیں، جُھنڈ الجھناچاہتا ہے، آپ دامن بچاکرکام کریں۔ مذہب، ثقافت، تہذیب اور ٹھوس سماجی مزاج کیخلاف غیر ضروری بحث کا ایندھن نہ بنیں۔ انسان جودیکھتا ہے دماغ اس کااثرقبول کرتا ہے، جلاوگھیراو، ماردھاڑ، قتل وغارت کے دوران اموات ہوتی ہیں، لوگ زخمی ہوتے ہیں، پُرتشدد واقعات کے بعد اسپتال جاکر رپوٹنگ بھی کرنا پڑتی ہے، جتنا ہوسکے کوشش کریں کہ آپ لاشیں نہ دیکھیں، جلے کٹے انسانی جسموں کا جائزہ نہ لیں، مستقل بنیادوں پر لاشیں دیکھنے سے بے حسی، چڑچڑاپن اور منفی رویے پروان چڑھنے کا امکان ہوتا ہے۔ البتہ صحافی کوایک فوجی کی طرح مشکل حالات کامقابلہ کرنے کیلئے تیاررہنا چاہئے، مثلاً آپ فائیو اسٹار ہوٹل میں رپورٹنگ کررہے ہیں یکدم خبر ملی کہ کسی جگہ عمارت منہدم ہوگئی، آپ کو ہوٹل کے ٹھنڈے کمرے سے نکل کر فوری جائے وقوعہ پر پہجنچنا ہوگا،کچھ دیرقبل آپ پُرسکون ماحول میں تھے اور اب ملبے کے ڈھیرپر، صحافت اسی کا نام ہے۔ اپنے ساتھ چھوٹے بیگ میں پانی کی بوتل، بسکٹ، چپس، ٹشوپیپر، پرفیوم، کنگا اور جوتے صاف کرنے کیلئے ایک کپڑابھی رکھیں، صحافی کبھی کبھی مزدور کی طرح لگاتارگھنٹوں کام کرتا ہے، ایسی صورتحال میں یہ چیزیں آپ کیلئے نعمت ثابت ہوں گی۔ یوں تو صاف ستھرے اوراچھے کپڑے پہننا شائستگی کی علامت ہے مگر شعبہ صحافت میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے، صحافی اہم مقامات پرجاتے ہیں، اہم شخصیات سے ملتے ہیں اوراہم تقاریب کا حصہ بنتے ہیں، کپڑے آپ کا پہلا تعارف ہیں، صاف ستھرے اور مناسب رنگ کے کپڑے آپ میں نکھاراوراعتمادپیداکرتے ہیں، اسکرین کیلئے کپڑے ایک رنگ کے ہوں یعنی چیک والی شرٹ اورپینٹ نہ ہو، جوتے بھی آرام دہ ہوناچاہئیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ صحافت میں شیڈول نہیں ہوتا، آپ کی چھٹی شام پانچ بجے ہوتی ہے آپ نے چنددوستوں کو وقت دے دیا یا کسی عزیزرشتے دار سے ملنا ہے لیکن ممکن ہے کہ پونے پانچ بجے آپ کو معلوم ہوکہ ایک پریس کانفرنس پرجانا ہے، وہاں پہنچے تو پتا چلے پریس کانفرنس ایک گھنٹے تاخیر سے شروع ہوگی، ایسا بھی ہوسکتا ہے آپ گھر روانہ ہوگئے اور شہرمیں کسی حادثے کی صورت میں آپ کو اُلٹے قدم لوٹنا پڑے۔ کچھ لوگ رات جاگنے کے عادی نہیں ہوتے مگر نائٹ رپورٹر کی غیر موجودگی میں آپ کو سڑکوں کی خاک چھاننا پڑسکتی ہے۔ صحافی کیلئے اخبار پڑھنا اورحالات حاضرہ سے آگاہ رہنا ضروری ہے لیکن کتاب سے رشتہ صلاحتیوں کو چارچاندلگادیتا ہے۔ موجودہ دور میں موبائل جرنلزم جڑیں مضبوط کررہا ہے، موبائل پر ویڈیوز بنانے اورایڈیٹ کرنے کا ہنر سیکھئے۔ مزیدیہ کہ صحافت کانٹوں کا بسترضرور ہے لیکن یہ بڑی طاقت بھی ہے اس لئے زبان اور قلم کااستعمال ذمے داری کاتقاضہ کرتے ہیں۔(محمد ولید احمد، رپورٹر جیونیوز)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں