تحریر: عاقب قریشی
دوہزار تئیس کے ساتھ اب “گزشتہ” لکھا جائے گا کیوں کہ سال 2024 کا رونق میلہ سج گیا ہے۔ میری، آپ کی اور ہم سب کی دعا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں اور پاکستان کا 1947 آج سے ہی شروع ہو جائے کیوں کہ 76 سالوں سے ہماری “نازک صورتحال” ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور وہ کیوں نام نہیں لے رہی یہ ایک الگ “زندگی” ہے جس کو ہم ذی شعور پاکستانی ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور انسان جانتا ہے۔ خیر میرا لکھنے کا مقصد یہ “نازک صورتحال” نہیں ہے۔
اکتیس دسمبر دوہزار تئیس سے تاریخ کا سکہ جیسے ہی یکم جنوری دوہزار چوبیس ہوا، تو تمام چلتی گھڑیوں میں سوئی پر سوئی آئی یعنی 12 بجے اور بجتے ساتھ ہی “پھٹے” مارے گئے۔۔۔کہاں ؟؟ اب آپ سوچ رہے ہوں گے پھٹے کہاں مارے گئے تو جناب نیوز چینلز نے پھٹے مار کر 2024 کو ویلکم کیا۔اب یہ سب لکھنے کے مقصد کی طرف آتا ہوں۔ میں نے گھر بیٹھے 12 بجتے ہی چینلز کو سیر کرانا شروع کر دی یعنی مختلف نیوز چینلز کو ایک ایک منٹ کا اپنا قیمتی وقت دیا۔ دیکھتا رہا کہ کون کیا چلا رہا ہے اور سنانے والے ناظرین کو کیا سنانا چاہ رہے ہیں۔ میں سنتا گیا اور ساتھ باہر گلی میں چوہا بم کی آوازیں بھی سنی، گانوں کی آوازیں بھی کانوں کو پڑیں۔ سائلنسر کے بغیر موٹر سائیکل چلانے والے بھی اپنی آواز کا جادو جگاتے رہے۔
سوچ میں پڑ گیا کہ یہ سب ہر سال کیوں ہو جاتا ہے۔ خوشی تو ہوتی ہے لیکن خوشی کی کوئی ٹھوس وجہ بھی تو ہونی چاہیے ۔ لگ بھگ 20 منٹ نیوز چینلز گھومائے ، سنا کون کیا سنانا چاہ رہا ہے تو ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ حکومت نے فلسطین کی جنگی صورتحال، غزہ میں مسلم بہن ، بھائیوں پر ظلم کی وجہ سے سرکاری سطح پر آتش بازی کی اجازت نہیں دی، پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جو آتش بازی کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے، جگہ جگہ ناکے بھی لگے ہیں تاکہ ڈنڈے پکڑے پولیس بھائی موٹر سائیکل پر “انجوائے” کرتے نوجوانوں کو ٹف ٹائم دے وغیرہ وغیرہ۔
اب جب سنانے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام سادگی سے نئے سال کی خوشیاں منا رہی ہے تو ونڈو یعنی سکرین پر 30..70 فریم کٹ ہوتا ہے (30 میں بولنے والے اور 70 میں Visuals ) دکھائے جاتے ہیں جہاں لوگ فل ٹائم انجوائے کر رہے ہیں، خواتین ڈانس کر رہی ہیں، پارکس میں فیملیز سیلفیاں لے رہی ہیں، منچلے “اپنی مستی ” کر رہے ہیں ۔ فائرز نکالیں جا رہے ہیں۔۔سنگرز پرفارم کر رہے ہیں اور سننے والے سنگرز کے بول کے مطابق ڈانسنگ سٹیپس کر رہے ہیں، آتش بازی بھی چل رہی ہے لیکن بولنے والے کہہ رہے ہیں کہ عوام فلسطین کی صورتحال پر غمزدہ ہے، نئے سال کو روایتی انداز میں نہیں منا رہی۔
تو بھائی اگر سادگی سے ہی منانا ہے تو گھر میں رہ کر ، غزہ کے بہن بھائیوں کے لیے دعا کر کے، ملکی سالمیت کی دعا کر کے، خود کا مطالعہ کر کے کہ ہم نے گزشتہ سال کیا کچھ کیا اور کیا کچھ نہیں کر پائے، اپنے کارنامے یاد کر کے “سادگی” سے نیا سال منا لیتے۔۔یہ سڑکوں پر نکل کر ، گانے لگا کر، ڈانس کر کے، سیلفیاں بنا کے، ایک طرف فلسطین کے جھنڈے ہاتھ میں تھامے اور دوسری طرف “بادشاہ” اور “سدھو موسےوالا” کے گانوں پر ڈانس کر کے “منافقت” دکھانے کی کیا ضرورت تھی ؟؟
چینلز والے بھی کمال کرتے ہیں ۔ اچھا ہاں سچ یاد آیا، شائد مجبوریاں ہوں گی کہ یہی کہنا ہے کہ فلسطین کی صورتحال پر عوام سادگی سے نئے سال کا جشن منا رہی ہے لیکن چینلز والے نہ چاہتے ہوئے یہ سب کہنے پر مجبور تھے اس لیے انہوں نے Visuals میں وہ سب دکھا دیا جو حقیقت میں ہو رہا تھا۔
ہم منافقت کہ اُس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے نیچے آنا ممکن نہیں۔ فلسطین کے جھنڈے تھامے “بادشاہ” کے گانوں پر ڈانس کرنے والے “پاکستانی” اور پھر چینلز کے بول بال اور ان پر پابندیاں لگا کر ان کو مجبور کرنے والے “سچے پاکستانیوں” کو مشورہ ہے کہ کھل کر کرنے دیں ہر کسی کو جو کوئی کرنا چاہتا ہے۔ اگر غزہ کے مسلم بھائیوں ، بہنوں کا ساتھ نہیں دے سکتے تو یہ منافقت کر کے ان کے زخموں پر نمک نا چھڑکیں ۔۔قسم سے روز محشر غزہ کے وہ چھوٹے بچے آپ سے پوچھیں گے کہ انکل “سٹارز” والوں آپ اتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود ہماری مدد کو کیوں نہ آئے ؟ ۔۔وہ بچے آپ سے پوچھیں گے کہ ہم سفید کپڑوں میں لپٹے تھے اور آپ پاکستانیوں کو سادگی سے نئے سال کا جشن منانے پر “مجبور” کر رہے تھے۔ وہ بچے ہم سے پوچھیں گے کہ پاکستانی بھائیوں اور بہنوں آپ اگر کچھ نہیں کر سکتے تھے تو ہمارے لیے دعا ہی کر دیتے یوں ہمارا پرچم تھامے “بادشاہ” کے گانوں پر ڈانس کر کے ہمارے کفن پر لال رنگ تو نا ڈالتے۔ وہ پوچھیں گے ہم سے اور ضرور پوچھیں گے۔
وہ چینلز والوں سے بھی پوچھیں گے آپ ہمیں دکھا کر ریٹنگ تو لیتے تھے، پیسے بھی خوب کماتے تھے لیکن آپ بولتے کچھ اور تھے اور دکھاتے کچھ اور تھے۔وہ پوچھیں گے، لازمی پوچھیں گے۔اجازت چاہتا ہوں۔۔( عاقب قریشی)۔۔