تحریر: جاوید چودھری۔۔
لیاقت چٹھہ اس وقت راولپنڈی میں کمشنر ہیں‘ یہ 2014 میں گجرات میں ڈپٹی کمشنر تھے‘ انھوں نے اس وقت گجرات شہر میں ’’جم خانہ کلب‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا‘ انگریز نے تقسیم سے قبل ہر ضلع میں کلب کے لیے زمینیں مختص کی تھیں‘ پاکستان بنا اور یہ گرتا پڑتا 75 برس کا ہو گیا لیکن یہ زمینیں خالی پڑی رہیں یا ان پر مختلف محکموں نے قبضہ کر لیا یا پھر یہ طاقتور لوگوں کے قابو آگئیں مگر ان پر کلب نہیں بن سکے۔
گجرات میں بھی زمین موجود تھی‘ لیاقت چٹھہ نے زمین خالی کرائی‘ جم خانہ بنانے کا اعلان کیا‘ بورڈ بنایا اور ممبر شپ لانچ کر دی‘ شہر کے لوگوں نے قطار میں لگ کر ممبر شپ لے لی‘ رقم جمع ہوئی اور اس رقم سے شہر میں شان دار کلب بن گیا‘ اس کلب میں وہ تمام سہولتیں موجود تھیں جو بڑے شہروں کے کلبز میں ہوتی ہیں۔ اس میں سوئمنگ پول بھی بنے‘اسکواش اور بیڈمنٹن کورٹس بھی ہیں‘ جم بھی ہے‘ ریستوران‘ کافی شاپ اور چائے خانہ بھی ہے اور رہائش کے لیے بہترین کمرے بھی ہیں‘ گجرات کے ممبرز اور ان کے مہمان بھی ان سہولتوں کو انجوائے کرنے لگے اور حکومت کو بھی ٹیکس کی شکل میں رقم ملنے لگی‘ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں اس جم خانہ پر حکومت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا‘ پورا کلب ممبرز کی رقم سے بنا اور اس کو ممبرز ہی چلا رہے ہیں۔
لیاقت چٹھہ اس کے بعد سرگودھا کے ڈی سی بن گئے‘ انھوں نے وہاں بھی ایک سال میں جم خانہ کلب بنا دیا اور یہ بھی پانچ برسوں سے ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے‘سرگودھا کے لوگ بھی اس چھوٹے سے شہر میں بڑے شہروں کی سہولتیں انجوائے کر رہے ہیں۔ لیاقت چٹھہ2022 میں کمشنر بن کر ڈی جی خان چلے گئے‘ یہ وہاں صرف ایک سال رہے اور انھوں نے وہاں بھی کلب کھڑا کر دیا اور یہ اب راولپنڈی آ گئے ہیں اور یہ یہاں بھی کلب بنا رہے ہیں‘ یہ کلب چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے پہلے دور (2002سے 2007 )میں شروع کیا تھا‘ حکومت نے اس پر اس زمانے میں آٹھ کروڑ روپے بھی خرچ کیے تھے لیکن یہ آج تک مکمل نہیں ہو سکا‘ لیاقت چٹھہ اب اسے مکمل کر رہے ہیں اور اس پر بھی حکومت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوگا۔
یہ بیوروکریسی کے صرف ایک افسر کے چار’’ اینی شیٹوز‘‘ہیں‘ آپ دیکھ لیں ایک افسر نے سرکار کے خزانے پر بوجھ ڈالے بغیر کس طرح چار اضلاع میں چار جدید ترین کلبز بنا دیے‘ اب سوال یہ ہے یہ کام ملک کے باقی 170اضلاع میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال ملک بھر کے ڈی سیز کو اکٹھا کریں‘ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ سے انھیں بریفنگ دلا ئیں۔ یہ اس کے بعد کلبز کا بورڈ بنائیں‘ لیاقت چٹھہ کو اس کا ہیڈ بنائیں اور ایک سال میں ملک کے تمام اضلاع میں جم خانہ کلب بن جائیں گے‘ ان کلبز سے عوام کو بھی سہولتیں ملیں گی اور حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا‘ دوسرا ملک کے تمام اضلاع میں سرکٹ ہاؤسز ہیں۔
یہ سرکاری ریسٹ ہاؤسز ہیں‘ حکومت ان پر سالانہ اربوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن یہ اس کے باوجود رہائش کے قابل نہیں ہیں‘ حکومت جم خانہ کلبز بنا کر تمام ضلعوں کے سرکٹ ہاؤسز ختم کر دے یا یہ بھی کلبز کے حوالے کر دے‘ اس سے اخراجات میں بھی کمی آ جائے گی اور کوالٹی میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
تیسرا ہم ہر سال دوسرے ملکوں سے اربوں ڈالر قرض لے کر نئے منصوبوں میں جھونک دیتے ہیں اور پھر ہمیں قرض کی قسطیں ادا کرنے کے لیے بھی قرضے لینا پڑتے ہیں‘ ہم اس مصیبت سے بھی آسانی سے جان چھڑا سکتے ہیں‘ ہم یہ فیصلہ کر لیں ہم اگلے دس سال تک کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کریں گے۔
ہم سب سے پہلے اپنے تمام پرانے منصوبے مکمل اور ایکٹو کریں گے‘ ہم نے جتنی سڑکیں‘ پل‘ انڈر پاسز‘ نہریں اور جھیلیں بنا لی ہیں ہم پہلے انھیں مکمل کریں گے اور اس کے بعد اگر پیسے ہوئے تو ہم نئے منصوبے شروع کریں گے‘ ہم اب قرض کی مے پی کر فاقہ مستی کا جشن نہیں منائیں گے۔
میرا خیال ہے ہم اس سے بھی ملک کو دوبارہ ٹریک پر لے آئیں گے‘ ہمارے پاس ملک میں لاکھوں اسکول اور کالجز ہیں‘ آپ کسی دن جا کر ان کی حالت دیکھ لیں آپ کو رونا آئے گا‘ ان میں استاد نہیں ہیں اگر استاد ہیں تو لائبریریاں اور لیبارٹریاں نہیں ہیں اور اگر یہ ہیں تو ان میں گراؤنڈز نہیں ہیں لیکن ہم ان پر توجہ دینے کے بجائے ’’اسکول آف ویلز‘‘ بنا رہے ہیں‘ وزیراعظم نے دو دن قبل اسلا آباد میں 8بسوں پر مشتمل ایک اسکول کا افتتاح کیا۔
یہ اسکول بسوں میں بنائے گئے ہیں اور ان پر یقینا دس بیس کروڑ روپے خرچ ہو گئے ہوں گے‘ مجھے یقین ہے یہ منصوبہ بھی بمشکل سال چھ مہینے چلے گا اور اس کے بعد بسیں کسی کباڑ خانے میں اینٹوں پر کھڑی ہوں گی اور عملہ گھر میں بیٹھ کر تنخواہیں اینٹھ رہا ہو گا اور اس کے برعکس اگر یہ منصوبہ سال دو سال چل گیا تو بھی سرکار کے پاس پٹرول‘ بسوں کی مینٹی ننس اور تنخواہوں کی رقم نہیں ہو گی چناں چہ آپ خودسوچیے اس منصوبے کا کیا فائدہ ہوا؟
کیا ہم نے صرف ایک تختی لگانے یا فیتا کشی کے لیے ڈیفالٹ کے شکار ملک کے مزید دس بیس کروڑ روپے ضایع نہیں کر دیے؟ حکومت اگر یہ رقم اسلام آباد کے نواحی اسکولوں کو دے دیتی تو ان میں واش رومز‘ لیبارٹریاں اور لائبریریاں بن جاتیں یا ان کے بجلی کے بل ادا ہو جاتے یا نئے طالب علموں کو نئے استاد مل جاتے لیکن ہم نوٹوں کو آگ لگا کر ہاتھ سینکتے چلے جا رہے ہیں۔
ہمیں اب یہ بھی دیکھنا ہو گا حکومت اربوں روپے سالانہ لگاکر بھی سرکاری اسکول نہیں چلا پا رہی جب کہ الخدمت‘ ریڈ فاؤنڈیشن اور تعمیر ملت جیسی درجنوں این جی اوز تھوڑے سے سرمائے سے ہزاروں اسکول بنا اور چلا رہی ہیں۔
کیا یہ لوگ پاکستانی نہیں ہیں اگر ہیں تو پھر یہ کام یاب اور حکومت ناکام کیوں ہے؟ میرا مشورہ ہے حکومت سرکاری اسکول بھی مختلف این جی اوز میں تقسیم کر دے‘ یہ کیمپس عملے سمیت این جی اوز کے حوالے کر دے‘یہ اسکول چل جائیں گے‘ ملک میں اس وقت 1282اسپتال بھی موجود ہیں۔
ان میں بھی ڈاکٹرز اور نرسز کی کمی ہے‘ آپریشن تھیٹرز میں بجلی اور سرجیکل آلات تک نہیں ہوتے لیکن حکومت انھیں چلانے کے بجائے دھڑادھڑ نئے اسپتال بنا رہی ہے‘ کیا یہ قرضوں سے حاصل ہونے والی رقم کا زیاں نہیں ہے؟حکومت کو فوری طور پر یہ سلسلہ بھی بند کر دینا چاہیے۔
یہ نئے اسپتال بنانے کے بجائے پرانوں کو آپریشنل کرے‘ یہ وہاں ڈاکٹرز اور طبی عملہ پورا کرے اور پھر ہیلتھ سیکٹر کو سینٹرلائزڈ کر دے‘ مریض اپنے موبائل فون سے دیکھ لے اس کی بیماری کا ڈاکٹر کس اسپتال میں موجود ہے اور یہ کس اور کس وقت فارغ ہو گا‘ مریض یہ بھی دیکھ لیں کس اسپتال میں کمرہ موجود ہے تاکہ یہ صرف اسی اسپتال میں جائیں۔
حکومت اس کے بعد 1122 سروس امپروو کر دے تاکہ مریضوں کو دوسرے شہروں کے اسپتالوں تک پہنچایا جا سکے‘یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا‘ حکومت اسی طرح ایک ہی بار بلدیاتی ادارے بھی مضبوط کر کے گلیوں‘ محلوں‘ سڑکوں اور بازاروں کی ذمے داری انھیں سونپ دے‘ حکومت کوئی اضافی بجٹ نہ دے‘ یہ لوگ مقامی ٹیکسوں کے ذریعے وسائل پیدا کر کے کام چلائیں‘ اس سے بھی ملک چل پڑے گا۔
ہم بجلی اور گیس کے وسائل بڑھانے کے خبط میں بھی مبتلا ہیں جب کہ ہم روز 20 فیصد بجلی اور گیس ضایع کر دیتے ہیں‘ حکومت اگر یہ لیکج روک لے تو بھی مزید بجلی اور گیس کی ضرورت نہیں رہے گی مگر ہم اس پر توجہ کے بجائے قرض لے کر نئے پلانٹ لگا رہے ہیں۔
ہم نئے ڈیمز بھی بنارہے ہیں جب کہ پرانے ڈیمز کھنڈر بن چکے ہیں‘ ہم نئی نہریں بھی کھود رہے ہیں لیکن پرانی نہریں خشک پڑی ہیں‘ملک میں بیس بیس سال پرانے ترقیاتی منصوبے ادھورے پڑے ہیں لیکن ہم ان پر توجہ کے بجائے روز نیا فیتا کاٹ دیتے ہیں‘ اس سے کیا فائدہ ہو رہا ہے؟
میری درخواست ہے وزارت منصوبہ بندی ملک بھر کے ادھورے منصوبوں کا ڈیٹاجمع کرے اور پھر بیوروکریٹس سے درخواست کرے جناب آپ ان منصوبوں کو فوری طور پر مکمل بھی کر دیں اور ایکٹو بھی‘ ہم نے جس زمین پر زیتون کاشت کرنا تھا۔
اس پر زیتون کے پودے ہونے چاہییں‘ ہم نے جہاں نہر کھودی تھی اس میں پانی ہونا چاہیے اور ہم نے جو اسکول‘ کالج اور اسپتال بنایا تھا اسے آباد ہونا چاہیے اوراگر یہ عمارتیں فنکشنل نہیں ہیں تو پھر انھیں فوری طور پر نیلام کر دیں یا پھر کسی دوسرے محکمے کے حوالے کر دیں‘ ملک میں اب آگا دوڑ اور پیچھا چھوڑ کا یہ سلسلہ بندہونا چاہیے۔
میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر نئے ترقیاتی منصوبوں پر پابندی لگا دیں‘آپ پہلے پرانے مکمل کریں‘ بیوروکریسی کو ٹارگٹ دیں اور ان سے تکمیل کرائیں‘ لیاقت چٹھہ جیسے لوگوں کے کام یاب ماڈلز کی ترویج کریں‘ملک پھر چلے گا ورنہ ہم اسی طرح قبرستانوں میں سولر پینل لگاتے رہیں گے اور ملک قرضوں میں ڈوبتا چلا جائے گا۔(بشکریہ ایکسپریس)