تحریر: نادیہ حسین
ایک ہنگامہ خیز دور گزارنے کے بعد آخر کار جسٹس ثاقب نثار ریٹائرڈ ہو گئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ پر ملک کے مختلف سیاسی سماجی حلقوں وکلاء برادری اور سول سوسائٹی کی جانب سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے دورمیں قومی اہمیت کے بہت سے کیسز پر فیصلے صادر کیے ۔یہ فیصلے جن کے حق میں گئے وہ جج صاحب کے شکر گزار ہیں جن کے خلاف گئے وہ نا خوش ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں، ہمارے یہاں ہمیشہ یہ روایت رہی ہے کہ لوگ کسی بھی عدالتی فیصلے میں اس کے میرٹ کو نہیں دیکھتے خاص کر وہ لوگ جو قانون کی باریکیوں سے تو کجا الف بےسے بھی واقف نہیں ہوتے عدالتی فیصلوں پر اپنی ماہرانہ رائے دیتے نظر آتے ہیں ۔بحیثیت قانون کی ایک ادنی طالبہ کے میرے خیال میں کم از کم سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے عام افراد کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔عدالتی فیصلوں کی باریکیوں اور جزئیات کو سمجھنا بہرحال قانون دانوں ہی کا کام ہے۔
آصف سعید کھوسہ نئے چیف جسٹس کا حلف اٹھا چکے۔ کیسز کا ایک انبار انکے سامنے ہے۔خدیجہ صدیقی کیس میں وہ اپنا پہلا فیصلہ بھی دے چکے ہیں۔ اس وقت ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج عدالتوں کی حالت زار کو درست کرنا ہے۔انیس لاکھ کیسز ہیں جو اس وقت مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔ان کی سماعت کے لیے صرف تین ہزار جج صاحباں مقرر ہیں ۔لاکھوں کی تعداد میں سائیلیں روزانہ صبح ان عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔سارا دن ان کے دھکے کھاتے ہیں۔ پولیس عدالتی عملہ اور وکلاء ان کی جیبیں خالی کرتے ہیں اور شام کو سائیلوں کی اکثریت اگلی پیشی کی تاریخ لے کر نامراد اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہے۔
من الحیث القوم ہمارا یہ مزاج ہے کہ ہم اپنے گھر سے زیادہ دوسرے کے گھر پر نظر رکھتے ہیں ۔ہمیں دوسروں کی زندگیوں میں دخل دینے کی عادت ہے ۔اپنی آنکھ کا شہتیر دکھائی نہیں دیتا دوسروں کی آنکھ کا تل فورا دیکھ لیتے ہیں۔اپنے گھر کی خرابی نظر نہیں آتی دوسروں کے گھریلو معاملات میں ٹانگیں اڑاتے ہیں۔یہی حال ہمارے اداروں کا بھی ہے ان سے اپنے معاملات سنمبھلتے نہیں دوسروں کے کام پر تنقید کرتے ہیں۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور سے ہم ملک میں عدالتی فعالیت کا جو مظاہرہ دیکھ رہے ہیں اس نے عام آدمی کی حالت زار پر کوئی اثر ڈالا ہو نا ڈالا ہو کم از کم عدالتوں میں آنے والے سائیلوںکے مسائل جوں کے توں ہیں۔اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ان سائیلوں کی داد رسی کے لیے اقدامات کرنا ہے۔مولا علی کا قول ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے ظلم کی نہیں ۔ بلاشبہ ہمارے عدالتی نظام اور انصاف سے منسلک تمام ہی اداروں میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ شامت کا مارا کوئی شخص عدالت پہنچ جائے تو وکلاء اور پولیس کے چکرروں میں پڑ کر ذہنی مالی اور جسمانی طور پر برباد ہوجاتا ہے۔فوجداری مقدمات کے ملزم جیلوں میں ہی فیصلے سنے بغیر انتقال کر جاتے ہیں۔دیوانی مقدمات کے لیے تو مشہور ہے کہ یہ آدمی کودیوانہ کر دیتے ہیں۔دادا کامقدمہ پوتا بھگگتا ہے۔ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے پہلے عدالتی معاملات کو ٹھیک کیا جاۓ۔تاکہ عام آدمی کو داد رسی ملے۔فوری اور سستے انصاف کا حصول عوام کا حق ہے اوراس کی فراہمی ریاست کا فرض۔بد قسمتی سے گذشتہ اکہتر سالوں میں سب نے اس کی بات تو کی مگر حقیقی معنوں میں کوئی خاطر خواہ عملی اقدام نہ کیا۔ فوری اورسستے انصاف کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں عدالتوں اور ججز کی تعداد بڑھائی جاۓ۔اس سلسلے میں کافی عرصے سے شام کی عدالتوں کی تجویز بھی زیر غور ہے ۔اس پر عمل کیا جاے تو اس سے ایک طرف تو عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو گا۔انصاف کی فراہمی میں تیزی ہو گی مزید جج صاحباں اور عدالتی عملے کی تقرری سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔اس وقت ملک میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں جو قانون کی ڈگریاں رکھنے کے باوجود دوسرے شعبوں میں کام کر رہے ہیں اس طرح ان کے لیے بھی اس شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
آج کل ملک میں جوڈیشل ایکٹوازم کا بہت شہرہ ہے۔یہ اچھی بات ہےلیکن اس کے اثرات عدالتوں پر بھی ہونے چاہیے ۔ ارباب اختیار اقدامات تو کرتے دکھائیدیتے ہیں لیکن ان اقدامات سے عام افراد کی زندگی میں کوئی بہتری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔اس ایکٹوازم کا فائدہ تو تب ہے جب عام افراد کے حالات میں بہتری آۓ۔لوگوں کو عدالتوں سے جلد اور فوری انصاف ملے۔لوگ عدالتوں میں آتے ہوۓ خوف محسوس نا کریں بلکہ ان پر اعتماد کریں ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے ظلم کی نہیں۔(نادیہ حسین)