سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ۔۔ سنا ہے نئے سال میں کچھ ’’الیکشن و لیکشن‘‘ ہونے جا رہا ہے ۔ سلیکشن کمیٹی خاصی محترک ہے بہت سے بلامقابلہ جیت نہیں پا رہے تو دوسروں کو بلا مقابلہ ہرایا جا رہا ہے۔ کوئی جیت کر بھی ہارتا نظر آ رہا ہے اور کوئی ہار کر بھی جیتتا۔ اب یہ بھی کیا حسن ِاتفاق ہے کہ صرف ایک پارٹی کی پوری اے ٹیم کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے کیا کپتان کیا نائب کپتان، کیا پارٹی کا صدر یا قریب ترین ساتھی۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان فیصلوں کیخلاف اپیلوں پر کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں پاکستان کی ’’بدقسمتی‘‘ کس کے ہاتھ آتی ہے، لگتا کچھ یوں ہے کوئی نیا پروجیکٹ تیار نہیں ہو پا رہا تو عبوری دور کیلئے پرانے پروجیکٹ کو ہی آزمانے کی تیاری آخری مرحلوں میں ہے،یہ نہ ہو پایا تو کہیں ’’فیکٹری کو سیل نہ کرنا پڑ جائے۔روزنامہ جنگ میں تحریر اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ زیادہ تر سوالات ہم جیسے صحافیوں سے ہی کیے جاتے ہیں سادہ سا جواب تو یہ دیتا ہوں جب تک الیکشن ملتوی نہ ہوں سمجھ لیں ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے، چیف جسٹس کہہ رہے ہیں ،آرمی چیف نے بھی کہہ دیا ہے، اب بھی اگر ایسا نہیں ہوتا تو تمام نئے پرانے پروجیکٹ بند ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔۔۔کالم کے آخر میں مظہر عباس لکھتے ہیں کہ ۔۔۔آخر میں طاقتور لوگوں سے بس ایک گزارش ہےکہ پروجیکٹ بنانا ختم کرنا پھر نیا پروجیکٹ تیار کرنا پھر اسے ہٹا کر کوئی اور یا پرانا کچھ تکنیکی مرمت کے بعد دوبارہ لانچ کرنا، جماعتیں بنانا توڑنا، حکومتیں گرانا اور توڑنا چھوڑ دیں۔ غلطیاں کرنی ہی ہیں تو نئے سال میں نئی غلطیاں کریں پاکستان آگے بڑھ جائیگا ورنہ تاریخ کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔