بلاگ: ایاز رانا۔۔
گزشتہ دنوں ایک خبر آپ سب نے پڑھی ہوگی کہ وزیراعظم عمران خان نے بیس صحافیوں سے ملاقات کی ،خبرپڑھ کر ایسا لگا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، اس سے پہلے بھی ایسی ملاقاتیں تو ہوتی رہتی ہیں مگر میرا سوال یہ ہے کہ بیس صحافی تو خان صاحب کے ہوگئے ، تئیس جولائی دوہزار تیرہ کو اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے نوے صحافیوں نے ملاقات کی تھی۔۔اب خود سوچیں جب یہ صحافی ملاقاتوں کے بعد واپس جاتے ہوں گے تو کیا وزیراعظم کے گُن نہیں گاتے ہوں گے؟؟ان کی شان میں قصیدے لکھتے اور قصیدے نہیں پڑھتے ہوں گے؟؟اخبار اور چینلز میں وزیراعظم کی شان و عظمت میں آسمان سے زمین تک قلابیں نہیں ملاتے ہوں گے؟؟
زیادہ تفصیل میں نہیں جاناچاہتا، میاں صاحب ہوں یا خان صاحب، میرا دونوں سے گلہ صرف اتنا ہے کہ ہم جونیئرز کا نمبر کب آئے گا؟؟ چینل پہ نوکری کی بات ہو یا نوکری ہوبھی تو پرائم ٹائم پر بات نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ سب سینئرز کے لئے ہیں، کہتے ہیں کہ صحافی کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا جب تک سوچ اور ہاتھ چل رہے ہیں تو کام بھی چل رہا ہے ۔مجھے اندازہ ہے کہ میرے سینئرز مجھ سے اتفاق نہ کریں کیوں کہ جتنی میری عمر ہے اتنا تو سینئرز کا تجربہ ہے۔۔بس یہ سوچ بار بار آتی ہے کہ بہت سے میرے صحافی دوست نوکری کی تلاش میں ہیں اور ہر روز ایک امید اور اللہ توکل چینلز کے چکرلگا رہے ہیں ۔۔بیورو دفاتروالے صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ یہ بیورو آفس ہے، ہیڈآفس خرچہ نہیں دیتا آپ بھی کماؤ اور بیورو کو بھی کماکردو، پھرایسی صحافت کو کیا بولیں گے؟؟
میڈیا انڈسٹری کی جو صورتحال نظر آرہی ہے اس کے بعد ایک چھوٹی سی تجویز دینا چاہوں گا،ملک بھر کی جامعات میں ماس کمیونی کیشن ، میڈیا سائنسز وغیرہ کے کورسز کچھ عرصے کے لئے بند کردیئے جائیں، کیوں کہ جو ان مضامین میں ماسٹرز ڈگری لے چکے وہ پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں بیروزگار گھوم رہے ہیں، اور جو خو ش قسمتی سے نوکریوں پہ لگ گئے بدقسمتی سے تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں۔۔لابنگ سسٹم کا راج ہے، جب تک جان پہچان نہ ہو نوکری ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ میرٹ پہ نوکری ملنا ایسا ہی جیسے انگریز کے گھر مسلمان پیدا ہوجائے۔۔نئے چینلز کھولے جاتے ہیں تو وہی پرانے سینئرز وہاں پہلے سے ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔۔ جیسے خان صاحب تبدیلی کا نعرہ لگاکر آئے لیکن آس پاس وہی پرانے وزیر ہیں۔۔میرے ساتھ ساتھ آپ لوگ بھی حیران ہوئے ہونگے کہ خان صاحب ان بیس صحافیوں سے تین مہینے کا ٹائم مانگ رہے تھے،کہتے ہیں اس کے بعد میری حکومت پر تنقید کیجئے گا۔۔صحافیوں نے بات چیت بھی کی تو ہیلی کاپٹر فی کلومیٹر کتنے کا پڑتا ہے؟، تھپڑ، چوہان صاحب کی گالیاں۔۔ ڈی پی او پاک پتن اور سی ایم پنجاب کے علاوہ کوئی اور بات ہو نہ سکی ،پورے دوگھنٹے اسی میں نکل گئے۔۔کاش میرا کوئی سینئر وزیراعظم سے سودن کی پالیسی اور ملک میں اکنامک صورتحال پر وزیراعظم کا وژن لے کر آتا، اور کچھ نہیں تو میڈیا میں اپنے جونیئرز کی حالت زار سے متعلق ہی وزیراعظم کو آگہی فراہم کردیتا تاکہ نئے پاکستان میں میڈیا بھی نیا ہوتا۔۔تاکہ ملک بھر کے ہزاروں جونیئر صحافی بھی نئے پاکستان میں اپنا حصہ بٹاسکتے۔۔(ایازرانا)