تحریر: سید بدرسعید۔۔
وہ ایک جاسوس تھا. جاسوس بھی ایسا کہ اگر اس کے کارنامے بتائے جائیں تو دنیا حیرت زدہ رہ جائے. اس نے دہشت گردوں کے خلاف انہی میں رہ کر ایسی کاروائیاں کیں کہ کوئی ذی ہوش سوچ بھی نہیں سکتا. اس کے ہینڈلرز کو بھی حیرت ہوتی تھی کہ وہ چند ہی سالوں میں کہاں سے کہاں چلا گیا ہے. انہیں فخر محسوس ہوتا تھا انہوں نے جسے تراشا وہ محض ہیرا نہیں نکلا بلکہ کوہ نور بن گیا ہے. پاکستان پر چند سال قبل طالبان نے اپنی دہشت قائم کر رکھی تھی. اسی دور میں کچھ لوگوں نے ایک عام سے شاعر کو ٹرینڈ کیا گیا. شدت پسند کمانڈرز جانتے ہیں کہ تنظیم میں شمولیت سے قبل وہ ایک ادیب تھا ،وہ قبائلی علاقے کی ایک ادبی تنظیم کا عہدے دار بھی رہا ۔ اسکو ایک صحافی کے طور پر بھی جانا جاتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ تنظیم میں شمولت کے بعد بھی اسے یہی ذمہ داری سونپی گئی ۔ وہ شدت پسند گروپ کی ویب سائیٹ اور میگزین کے لئے مواد تیار کرتا ، رپورٹس لکھتا، ڈاکومنٹریز تیار کرواتا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی ہر کارروائی کی تفصیل لکھ کران ویب سائیٹس کو بھجواتا جو شدت پسنوں کا مواد شائع کرتی تھیں ۔ یہ بی بی سی سمیت پاکستان کے کئی صحافیوں کے ساتھ بھی رابطے میں رہتا تھا۔ اس کے پاس تمام اہم صحافیوں کے نمبرز کی ڈاریکٹری موجود تھی ۔کسی بھی دھماکے کے فورا بعد سینئر صحافیوں کے موبائل پر اس کی جانب سے اس دھماکے کی تفصیلات پہنچ جاتی تھیں ۔ یہ ایک عام صحافی کی نسبت کئی گنا بہتر انداز میں میڈیا سیل چلا رہا تھا ۔ اس کا اصل نام کچھ اور تھا لیکن اس دور کی روایت تھی کہ جہادیوں کو نیا نام دیا جاتا تھا. جانے کس نے اس پر بھی یہی ” احسان” کیا. بہرحال اس کے ہینڈلرز کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ اس کی کور سٹوری ہے. ویسی ہی کور سٹوری جو ہر جاسوس کو بچانے کے لیے تیار کی جاتی ہے. اصل کہانی کچھ اور تھی. بم دھماکوں کی گونج میں ایک اور کہانی چل رہی تھی ۔ اسے پلاننگ کے ساتھ شدت پسندوں کی صفوں میں شامل کروایا گیا تھا ۔ دنیا بھر میں دہشت اور خوف کا نمائندہ بننے کے باوجود دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے کسی کو نہیں مارا تھا. اس کے ٹریک ریکارڈ پر کسی پاکستانی کا خون نہیں تھا. وہ خود جنگ نہیں لڑتا تھا ۔ اس نے کسی انسان کو قتل نہیں کیا کیونکہ وہ خفیہ مشن پر تھا ۔ یہ ڈاکومنٹریز اور ویڈیو پیغامات کی ریکارڈنگ کے نام پر شدت پسند کمانڈرز کے قریب ہوا اور پھر چھپ کر ان کی گاڑیوں میں ڈرون کی چپ لگانے لگا ۔ اسی طرح جب خودکش گاڑی تنظیم کی پناہ گاہ سے نکلتی تو یہ چھپ کر گاڑی اور بندوں کی تعداد کے بارے میں ذمہ داران کو میسج کر دیتا تھا تاکہ جس حد تک ممکن ہو ان حملہ آوروں کو روکا یا ختم کیا جا سکے ۔ چونکہ اس کا کام ہی صحافیوں سے رابطے میں رہنا تھا اس لیے ایک اور ایجنٹ کو صحافی کے روپ میں پلانٹ کیا گیا تھا. دہشت گردوں کے میڈیا سیل سے ایک صحافی پر خبروں کا احسان کرنے کے بہانے راز لیک کیے جاتے تھے. یہ اطلاعات انٹیلی جنس کی جانب سے محکموں اور محکموں سے اخبارات تک بھی پہنچتی رہیں. دہشت گرد بھی پریشان رہتے تھے کہ حملہ سے قبل ہی حملہ کی اطلاع، افراد اور گاڑی تک کی معلومات کیسے باہر جاتی ہے. ۔ بلاشبہ یہ ایک جاسوس تھا ۔ طالبان کا جو دھڑا کمزور ہوتا یہ اس سے الگ ہو کر طاقتور دھڑے کا حصہ بن جاتا اور پھر اسے کمزور کرنے کے بعد اگلے دھڑے میں چلا جاتا تھا ۔ جان جوکھوں میں ڈال کر اس نے یہ مشن مکمل کئے۔ المیہ یہ ہے کہ اس ہیرو کے ان کارناموں کو اوپن بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کی خدمات کا اعتراف بھی نہیں کیا جا سکتا اور اسے میڈل بھی نہیں دیا جا سکتا ۔ البتہ یہ جو سیکریٹ معلومات پہنچاتا رہا انہی کی بنیاد پر طالبان کے ٹھکانے تباہ ہوتے رہے ۔ اپنا مشن مکمل ہونے پر اسے واپس بلا لیا گیا اور اس نے گرفتاری دے دی ۔ گرفتاری کے بعد اس نے ایک ویڈیو بیان ریکارڈ کروایا اور شدت پسندوں کی حقیقت دنیا کو بتا دی ۔ کچھ لوگ اس کے ٹی وی انٹرویوز پر عجیب و غریب باتیں کرتے رہے . مشن مکمل ہونے تک اسے سیف ہاوس میں رکھا گیا اور پھر وہ جانباز ایک اور مشن پر چلا گیا. اس بار بھی طریقہ کار ایسا تھا کہ وہ اتنی بڑی کاروائی کے باوجود دشمنوں کا اعتماد جیتنے میں کا میاب ہو جائے گا.. کچھ لوگ اس تحریر کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ ان کو صرف یہ بتانا ہے کہ دہشت گردوں کا میڈیا سیل چلانے والا ماضی میں واقعی صحافی تھا اور ادبی تنظیم کا عہدے دار بھی تھا ۔ ان دو باتوں کے سوا یہ ساری کہانی فرض کی گئی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ایک سازشی تھیوری سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا سو اس تحریر کو سنجیدہ سمجھ کر لکھنے والے کے لیے مشکلات کا باعث مت بنیں. کبھی کبھی فکشن پڑھ کر محظوظ ہو جانا چاہیے (سید بدر سعید)