اکانومسٹ کا نیا شمارہ آگیا ہے جس میں حسب سابق اگلے سال کے بارے میں اندازے اور پیش گوئیاں شامل ہیں۔ پاکستان میں ہر سال یہ شمارہ جنگ گروپ کے زیر اہتمام ترجمہ ہوکر شائع ہوتا ہے اور اس کی ایڈیٹر ہماری دوست اور سابق کولیگ منزہ صدیقی ہیں۔ چونکہ انھوں نے کبھی ہماری مستقبل بینی کی صلاحیت سے فائدہ نہیں اٹھایا اس لیے ہم بطور احتجاج فیس بک پر اپنا اظہاریہ پیش کررہے ہیں۔
نئے سال کے آغاز پر جہاں پوری دنیا میں خوشیاں منائی جارہی ہوں گی، پاکستان غم میں ڈوبا ہوا ہوگا۔ سترہ جنوری کو ننگ اسلاف و انصاف، متعصب الملک، محسن یوتھ چیف جسٹس ثاقب نثار قوم کو داغ مفارقت دے جائیں گے۔ اگرچہ وہ زندہ سلامت رہیں گے لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کو ملک و قوم کے لیے بڑا سانحہ سمجھا جائے گا۔ خدشہ ہے کہ ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس ڈیم فنڈ کے بجائے انصاف کی فراہمی پر زیادہ توجہ دیں گے۔ نئے چیف جسٹس کی آمد کے بعد جاسوسی ناولوں کی اشاعت میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ قومی معیشت اندازوں کے عین مطابق ترقی کرتی رہے گی۔ قرضہ چونکہ لعنت ہوتا ہے اس لیے حکومت لعنت سے بچنے اور آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے کی ہرممکن کوشش جاری رکھے گی۔ قرضہ ملے یا نہ ملے، دونوں صورتوں میں ڈالر کی قدر گھٹتے گھٹتے ڈیڑھ سو سے پونے سو دو روپے تک پہنچ جائے گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کو خوشحال دیکھ کر اپنا پیسہ بھیجنے سے گریز کریں گے تاکہ افراط زر نہ ہوجائے۔ اسٹاک مارکیٹ حصص کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھنے کی وجہ سے دھڑام سے گر سکتی ہے۔
ملک میں میڈیا کی آزادی بین الاقوامی برادری کے لیے مثال بنے گی۔ میڈیا کے علاوہ سیکڑوں صحافی بھی ملازمت کے بکھیڑے سے آزاد ہوجائیں گے۔ باقی تنخواہوں سے آزاد اور بے نیاز رہیں گے۔ کئی میڈیا مالکان اپنی گناہوں کی زندگی اور کاروبار سے تائب ہوجائیں گے۔ کاغذ کی قیمت قابو سے باہر ہونے کی بدولت لفافہ جرنلزم کے علاوہ پرنٹ جرنلزم بھی ختم ہوسکتی ہے۔قومی میڈیا کے ایڈیٹروں اور نیوز ڈائریکٹروں کی نگاہ بدستور کمزور رہے گی اور انھیں پشتون تحفظ موومنٹ دکھائی نہیں دے گی۔ علاوہ ازیں وہ اکیسویں صدی میں بھی بلوچستان اور فاٹا دریافت نہیں کرپائیں گے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم سے اس سال بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ جنوبی افریقا اور آسٹریلیا کو پریکٹس کروانے کے علاوہ ٹیم ورلڈکپ میں بھی ٹامک ٹوئیاں مار سکتی ہے بشرطیکہ سکندر بخت اور ہمنوا اسے کھیلنے دیں۔ ورلڈکپ جیتنے کی صورت میں پاکستان کو ایک نیا وزیراعظم ملنے کی امید ہوجائے گی۔ ہارنے کی صورت میں کچھ قیمتی زر مبادلہ پاکستان منتقل ہوسکتا ہے۔
نئے سال میں ایک بار پھر مون سون بارشیں معمول کے مطابق ہونے کا امکان ہے۔ بڑا سیلاب نہ آنے اور کسی زلزلے کی پیش گوئی نہ ہونے کی وجہ سے عالمی امدادی اداروں سے ڈالروں کی اپیل نہیں کی جاسکے گی۔ ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے اہلکار حسب معمول سمندری طوفان کی جعلی خبروں سے بجٹ کو ٹھکانے لگائیں گے۔
قومی سیاست میں مسخروں کی اچھل کود جاری رہے گی۔ وفاقی اور صوبائی وزرا اسٹینڈ اپ کامیڈی پیش کریں گے۔ سابق صدر آصف زرداری کی گرفتاری کا اندیشہ ہے اس لیے وہ تیزوتند بیانات سے ماحول گرمائیں گے۔ شہباز شریف اسمبلی کے ارکان اور جیل کے قیدیوں کو حبیب جالب کی نظمیں یاد کروائیں گے۔ اپوزیشن کے دوسرے رہنما نیب سے بچنے کے لیے ستو پی کر سوتے رہیں گے۔
نومبر کی کسی تاریخ کو سیاہ آندھی چلے گی۔ ملک بھر میں اندھیرا چھا جائے گا۔ گناہگار گھبرا جائیں گے۔ نیکوکار خیر کی دعائیں مانگیں گے۔ قوم میں اضطراب پیدا ہوگا۔ سیاست دان سہمے رہیں گے۔ میڈیا سانس روک لے گا۔ شاہد مسعود قیامت برپا کرنے کی کوشش کریں گے۔ طاہر اشرفی، زید حامد، مبشر لقمان اور عامر لیاقت جانے کی باتیں جانے دو کے نعرے لگائیں گے۔
جانے والا رک گیا تو ملک بھر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگیں گے۔ باد صبا خوشبو بکھیرے گی۔ مسجدیں شکرانے کے نوافل ادا کرنے والوں سے بھر جائیں گی۔ سیاستدانوں کے چہرے پر پھٹکار میں اضافہ ہوگا۔ میڈیا وحشت میں باولا ہوجائے گا۔ موچی ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ دیں گے۔جانے والا نہ رکا تو کچھ دیر کو ملک میں سکوت ہوجائے گا۔ پھر قوم کے نئے مسیحا کا اعلان ہوگا۔ ملک بھر میں خیرمقدمی بینروں کی بہار آجائے گی۔ سیاستدان قدم بوسی کو قطار میں لگ جائیں گے۔ میڈیا کا تن مردہ قُم باذن اللہ کی صدا سننے کی آس لگائے گا۔ موچی نئے بوٹ کا نمبر معلوم کرکے خوشی سے بے حال ہوجائیں گے۔(مبشرعلی زیدی)۔۔
(سولفظوں کی کہانیوں کے خالق مبشرزیدی کے کاٹ دار جملے اپنا ثانی نہیں رکھتے، نئے سال کے حوالےسے ان کی پیش گوئیاں پیش خدمت ہیں جو ان کی وال سے اڑائی گئی ہیں۔۔جس سے آپ کا ،میرا اور ہماری ویب کا متفق ہوناضروری نہیں، علی عمران جونیئر)