khairsh ka khadsha

نئے چینلز کے مشروم

تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔

بہت سنا کرتے تھے ناں” بنانا اسٹیٹ” کا شور وغل  تو لیجیئے صاحب ،اب بنانا اسٹیٹ ڈھونڈھنے کے لیئے کہیں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہیں پہ سب  تیاریاں مکمل ہیں اور یوں عمران خان نے اہل تحقیق کو بڑی مشقت سے انہیں بچالیا ہے اوریوں وہ ایک ناکام و بے نیاز حکومت و ریاست کے لیئے بنانا اسٹیٹ کی جو پھبتی استعمال کرنے کے شائق تھے ، اب شاید اسکو ڈھونڈھنے کے لیئے ابن بطوطہ بننے کی ضرورت نہیں رہی ۔۔۔ اور پھر جبکہ یہ ہماری ریاست تو انگلش اصطلاّح والی بنانا اسٹیٹ بھی بننے جارہی ہے اور اردو والی بھی ، کیونکہ جہاں عوام کی فلاح کے لیئے کچھ کرنے کے جوکھم میں پڑنے کے بجائے انہیں بیوقوف بنانا ہی اسٹیٹ پالیسی بن چکی ہو اسےہم جیسے  اردو میڈیئم بھی بنانا اسٹیٹ کیوں نہ باور کریں ۔۔۔

بات صاف ہے تبدیلی سرکارعوام کے مسائل حل کرنے کی کاوشیں کرنے کی بجائے لایعنی اقدامات پہ بھرپور توجہ دے کر بنانا اسٹیٹ کے خدوخال بتدریج قابل ملاحظہ بناتی جارہی ہے ۔۔۔ کیونکہ اس دور میں جس طرح میڈیا کا ناطقہ بند کیا گیا ہے وہ اظہار کی آزادی کے داعیوں کی جانب سے اہل صحافت کو بھی ‘بنانا’ کی بہت گھناؤنی مثال ہے کیونکہ میڈیا کا مکو ٹھپنے کے لیئے حکومت کی ساری ‘بنانا’مہمات پوری رفتار سے جاری ہیں ، اشتہارات کے نرخوں میں بیحد کمی اور انکی بندش سے چینلز کی کمر توڑ ڈالنے کے بعد کے بعد اب انکی کوشش یہ ہے کہ  سرکاری میڈیا کے بنانا فارم میں بیشمار نئے چینلز کے مشروم اگائے جائیں اور یوں پہلے سے موجود چینلز کا مکو ٹھپ کے ان میں موجود زندگی کی بچی کھچی رمق کو بھی بے تدبیر مسابقت کے نام پہ نچوڑ لیا جائے – اس سلسلے میں انکی اس بےلگام بنانا کمپین کی پشتیبانی و دستگیری کے لیئے پیمرا کو مرغ دست آموز بنادیا گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اس بنانا ایجنڈے کے اہداف جلد سے جلد مکمل کردینے کے لیئے اب اسکی حیثیت ایک حکومتی آلہء کار سے زیادہ کی نہیں ہے ۔۔۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پہلے سے اپنی بقاء کو لاحق سنگین خطرات سے دوچار موجود چینلوں کے سروں پہ مزید بیشمار چینلوں کی افتاد لادنے کی مہم جوئی نہ کی جاتی کیونکہ اس وقت قیام کے منتظر نئے چینلوں کی ایک لمبی فہرست پیمرا کی میز پہ موجودہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ میڈیا مارکیٹ میں یہ چینل سبھی کے لیئے گزر بسر تو کیا بقاء تک کو ایک سوالیہ نشان بناڈالیں گے- سوال یہ ہے کہ جب اس وقت پہلے سے موجود مقبول تر میڈیا چینل بھی اپنے ملازمین کے لیئے بروقت تنخواہیں تک فراہم نہیں کرپارہے تو یہ  نئے چینل اپنے ملازمین کو کیا گھاس کھلائینگے یا کسی بیک ڈور رستے سے سے مسلسل نوازے جائیں گے  ۔۔

یہی وہ ستم ظریفانہ صورتحال ہے کہ جس میں میڈیا مالکان کی تنظیم پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن ( پی بی اے ) نے نئے چینلز کے یوں اندھا دھند اور بے تحاشا قیام کی شدید مخالفت کی ہے اور اسکی جانب سے  سیٹلائٹ ٹی وی براڈ کاسٹ اسٹیشنز کے نئے لائسنسوں کے اجراء کیلئے نیلامی کارروائیاں کرنے کے پیمرا کے فیصلےپر شدید اعتراضات کیئے گئے ہیں اور اس فیصلے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ پی بی اے کے مطابق پیمرا کی جانب سے یہ فیصلہ سیٹلائٹ ٹی وی براڈ کاسٹ اسٹیشنز کیلئے اس طرح کے لائسنسوں کے اجراء کے خلاف پی بی اے کی جانب سے فائل کی گئی نمائندگی طے کئے بغیر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اسکی یہ نمائندگی سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے فائل کی گئی تھی تاہم پیمرا نے ان احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے لائسنسوں کے اجراء کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پی بی اے کی نمائندگی کو التواء میں ڈال دیا ہے۔

میڈیا مالکان کے اس مؤقف کا مگر ایک اہم پہلو اور بھی ہے جو کچھ یوں ہے کہ چونکہ موجودہ کیبل نظام اینالوگ سسٹم  میں دئیے گئے ایک ہی وقت میں 80 چینلز رکھنے کی گنجائش ہے اور چونکہ حال ہی میں پیمرا پہلے ہی سیٹلائٹ ٹی وی براڈ کاسٹ اسٹیشنز کیلئے 121 لائسنس جاری کرچکا ہے لہٰذا مزید لائسنسوں کے اجراء سے چینلز کی ایک بڑی تعداد نشر نہیں کی جاسکے گی یعنی از خود آف ایئر ہوجائے گی جس سے میڈیا انڈسٹری برباد ہوکے رہ جائے گی جو کہ پہلے ہی ابتری اور زوال کا شکار چلی آرہی ہے صنعت کو ناقابل برداشت نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ ایک ہی وقت میں 40 سے زائد چینلز نشر نہیں کئے جاسکتے۔  پی بی اے کا یہ مؤقف بادی النظر میں بالکل صائب اور درست ہے کہ اینالوگ سسٹم کو ڈیجیٹل سسٹم پر تبدیل کرنے تک نئے لائسنسوں کا اجراء بالکل نہیں کرنا چاہئے ورنہ پیمرا کی اس اندھا دھند قسم کی کارروائی  سے مقامی براڈ کاسٹ انڈسٹری کا بیڑہ ہی غرق ہوجائے گا- اسی لیئے پی بی اے کے عہدیداران نے وزیر اعظم سے اصلاح احوال کے لیئے مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ وہ اس عمل کو فوری رکوائیں۔۔۔

یہ محض خدشہ نہیں بلکہ معروضی حالات میں ایک یقینی سی بات ہے کہ نئے چینلوں کے اندھادھند قیام سے یا بتو کالے دھن کو میڈیا انڈسٹری اپنے چنگل میں جکڑنے کا کھلا موقع مل جائے گا بصورت دیگر میڈیا کے ملازمین کے احتجاجی کیمپوں میں عنقریب بے پناہ اضافہ ہوجائے گا اور یوں حکومت کے کے لیئے معاشی طور پہ سسکتے کراہتے میڈیا کو ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بناڈالنے کام بظاہر تو آسان ہوجائے گا مگر اس سے آزادیء صحافت اور آزادی اظہار دونوں ہی  قصہء پارینہ بن کے رہ جائینگے ۔۔۔ لیکن یہ ایک مہذب جمہوری معاشرے کی فکری موت کے مترادف بھی ہوگا کیونکہ جمہوریت وہ پودا ہے کہ جو آزادی کی آکسیجن کے بغیر پنپ ہی نہیں سکتا اور حکومت شاید اسی بدترین نوبت کے آنے کی منتظر ہے۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔علی عمران جونیئر

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں