تحریر: روف کلاسرا
آپ کو حیرت ہورہی ہے کہ جس وقت نواز شریف اداروں کے سیاسی کردار پر برس رہے تھے اسی وقت یہ خبر سامنے آگئی کہ چند دن پہلے ہی شہباز شریف‘ بلاول بھٹو اورسراج الحق سمیت درجن بھر سیاستدانوں نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کی ‘ لیکن مجھے ہرگز حیرت نہیں ہوئی۔ ایک طرف بڑا بھائی پھر جمہوریت کی لڑائی لڑنے کے نعرے اور سیاست میں اداروں کے کردار پر تنقید کررہا تھا تو دوسری طرف چھوٹا بھائی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کرآیا اور قوم کو کانوں کان خبر بھی نہ ہونے دی ۔نواز شریف صاحب کو یہ فن آتا ہے کہ جب چاہیں ذاتی اور خاندانی مفادات اٹھا لیں اور جب چاہیں جمہوریت کے علمبردار بن جائیں اور پوری قوم کے دانشور انہیں کندھوں پر اٹھا لیں۔ ایمانداری سے پوچھیں تو لندن میں ایک برس کی رپورٹنگ میں مَیں نے بڑے قریب سے نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست کو دیکھا اور کوَر کیا تھا ‘ اس کے بعد مجھے دونوں بھائیوں سے نہ امید رہی اور نہ ہی میں کبھی مایوس ہوا ۔ اس لیے جب پوری قوم تالیاں بجا رہی تھی کہ دیکھیں نواز شریف نے کیسے پلٹا کھایا تو مجھے اپنے اندر ایسا احساس محسوس نہیں ہوا کہ پاکستان کو نیا چی گویرا مل گیا جو ستر برس کی عمر میں اب جمہوریت کی خدمت کرنا چاہتا ہے ۔
اب ذرا غور کریں اس سیاسی قیادت یا سیاستدانوں کی عزت ہمارے قومی ادارے کیوں کریں‘ جو اِن کی ایک کال پر دوڑ کر چلے جائیں ‘ کلاس روم میں بیٹھ کر ہدایات سنیں اور وہی کچھ کریں جو انہیں کہا جائے؟ آپ کی پارٹیاں پاکستان پر تین تین دفعہ حکومت کرچکی ہیں۔ آپ ہی برسوں سے سپہ سالار اور انٹیلی جنس آرمی چیف لگاتے آئے ہیں۔ آپ کے قلم ہی سے یہ سب اعلیٰ عہدے پاتے ہیں؛ چنانچہ جب خفیہ طور پر بلایا گیا تو کیا آپ کا یہ کہنا نہیں بنتا تھا کہ ہمارے پاس پارلیمنٹ آئیں اور جو بھی کہنا چاہتے ہیں ہمیں پارلیمنٹ میں بریفنگ دیں‘ اگر واقعی نیشنل سکیو رٹی ایشوز ہیں تو ہم آپ کو سپورٹ دیں گے۔ دنیا بھر میں جب اس طرح کے ایشوز ہوتے ہیں تو سیاسی قیادت عسکری قیادت کو پارلیمنٹ بلالیتی ہے جہاں سینیٹ یا کانگریس کے ارکان کو بریفنگ دی جاتی ہے۔ تو پھر یہ کام ہمارے سیاستدان کیوں نہیں کرسکتے؟
مجھے یاد ہے لندن میں دن رات یہی بات نواز شریف اور ان کے درباری کرتے تھے کہ ایک دفعہ نواز شریف کو آنے دیں ہم سب پاورز پارلیمنٹ کو دے دیں گے کہ وہ اعلیٰ سطحی تعیناتیاں کرے۔ ان کا خیال تھا کہ تین رکنی پینل سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹی کو بھیجا جائے گا جہاں وہ اعلیٰ عسکری عہدوں پرتعیناتی کیلئے اسی طرح انٹرویو کریں گے جیسے امریکی کانگریس میں کیا جاتا ہے۔ ان کی تعیناتی کی منظوری وزیراعظم کے بجائے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی ایک مشترکہ کمیٹی دے گی۔ نواز شریف یہ بھی فرماتے تھے کہ اگر یہ نہ ہوسکا تو پھر بھی وہ سب سے سینئر جنرل کو آرمی چیف بنا ئیں گے۔ ان کو اللہ نے موقع دیا ‘وہ تیسری دفعہ اس ملک کے وزیراعظم بنے اور انہیں دو سپہ سالار مقرر کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے ایک دفعہ بھی پینل بنا کر اسمبلی میں نہ بھیجا کہ وہ اس تعیناتی کو کنفرم یا مسترد کریں یا انہوں نے موسٹ سینئر جنرل کو نہیں لگایا۔ نواز شریف نے وہی کیا جو انہوں نے پہلے کیا تھا ۔ اپنی پسند کے دو آرمی چیف لگائے اور اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے چند ماہ کے اندر ان سے پھڈا ڈال لیا ۔ ایک جنرل کے دور میں ڈان لیکس کا شکار ہوئے تو دوسرے کے دور میں پانامہ آگیا اور جیل جا بیٹھے۔
سب پوچھتے ہیں کہ آخر پچھلے پانچ آرمی چیفس سے دیکھ لیں‘ نواز شریف ہی کی لڑائی کیوں ہوتی ہے؟ گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ شاہد خاقان عباسی کی کیوں نہیں ہوئی؟ نواز شریف کے حامی فرماتے ہیں‘ دراصل نواز شریف ایک جمہوریت پسند حکمران ہیں اور وہ عسکری قیادت کی سویلین افیئرز میں مداخلت برداشت نہیں کرتے ۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ اُس وقت انہوں نے کیوں سٹینڈ نہ لیا جب ڈان لیکس پر انہوں نے خودجے آئی ٹی بنائی جس میں دو فوجی افسران شامل کئے اور اپنے تین وزیروں سمیت درجن بھر صحافیوں کو اس انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش کیا اور ان کی سفارش پر اپنے ایک وزیر اور ایک مشیر کو برطرف کر دیا؟ اُس دن اے پی سی میں فرما رہے تھے‘ ایک خبر کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف محاذ کھڑا کیا گیا۔ مزے کی بات ہے نواز شریف نے خود ہی اس خبر پر کمیٹی بنائی اور وزیروں کی انکوائری کروائی۔
جب حامد میر پر حملہ ہوا تو اس چینل کے خلاف نہ صرف خواجہ آصف پیمرا میں گئے اور اسے ایک کروڑ روپے جرمانہ کروایا بلکہ پندرہ دن لائسنس بھی معطل کیا گیا ۔ کاشف عباسی کے شو میں جو زبان خواجہ آصف نے اس چینل کے خلاف استعمال کی وہ آج بھی سن سکتے ہیں کہ ملک سے غداری تک کا الزام لگا دیا۔ اب وہی نواز شریف اور خواجہ آصف اسی چینل کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پنجاب ہاؤس میں ایک دفعہ نواز شریف سے‘ جو ابھی وزیراعظم نہیں بنے تھے‘ پوچھا گیا کہ ان کے علم میں تھا کہ چوہدری نثار اور شہباز شریف جنرل کیانی سے درجن بھر ملاقاتیں کرچکے تھے‘ جس کی خبر روزنامہ دُنیا کے رپورٹر طارق عزیز نے بریک کی تھی؟ نواز شریف نے بھولے پن سے کہا تھا کہ ان کے علم میں نہیں کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار ملاقاتیں کررہے تھے۔ اندازہ کریں وہ کیسے پوری قوم کو بھولا سمجھتے ہیں ۔کیا یہ ممکن ہے کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار درجن بھر ملاقاتیں جنرل کیانی سے کر یں اور اس کی ہوا بھی نواز شریف کو نہ لگنے دیں؟
یہ بہت پرانا کھیل ہے جو دونوں بھائی کھیلتے ہیں ۔ دونوں مل کر ایک سکرپٹ تیار کرتے ہیں اور اس کے مطابق نواز شریف نے جمہوریت کا نعرہ لگا کر اعلانِ جنگ کرنا ہوتا ہے جبکہ چھوٹا بھائی فوج سے ملاقاتیں کررہا ہوتا ہے۔ جب ان سے گلہ کیا جاتا ہے آپ کے بڑے بھائی تو دھواں دھار تقریریں کررہے ہیں تو شہباز فرماتے ہیں کہ وہ بھائی صاحب کا منت ترلا کریں گے لیکن کچھ ان کی بھی باتیں مان لی جائیں تاکہ ان کو منانے میں آسانی رہے۔شہباز شریف وہاں یقین دلائیں گے وہ بھائی صاحب کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے لیکن کیا کریں مجبور ہیں‘لیکن اسی بھائی کیلئے وہ خفیہ ڈیل اور فائدے بھی لے کر ہی جائیں گے۔ اب بھی یہی کچھ ہوا۔ جب شہباز شریف عسکری اداروں سے ملاقات کرکے باہر نکلے تو انہیں احساس ہوا کہ اس دفعہ دوسری جانب سے لہجہ سخت تھا۔ شہباز شریف اور بلاول کو درجن بھر سیاستدانوں کی موجودگی میں بہت کچھ سننا پڑا۔ یہ سب باتیں نواز شریف کو بتائی گئیں کہ لگتا ہے جب تک جنرل باجوہ آرمی چیف ہیں اس وقت تک کوئی راہ نہ نکل پائے گی‘ حالانکہ چند ماہ پہلے تک انہی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ووٹ ڈال کر وہ سب بڑے خوش تھے کہ ہم نے فتح پا لی ہے۔ ووٹ کے بدلے نواز شریف لندن تو زرداری کراچی پہنچ گئے‘ لیکن اب نواز شریف خاندان مریم نواز کو لندن تو زرداری اپنے مقدمات کراچی شفٹ کرانا چاہتے تھے۔
دونوں خاندان مدتِ ملازمت میں توسیع کیلئے ڈالے گئے اس ووٹ کے بدلے مزید رعایتیں چاہتے تھے‘ لیکن اگلے مزید دینے سے انکاری تھے‘ بلکہ الٹا وہ نئی ڈیمانڈز رکھ کر بیٹھے تھے کہ گلگت بلتستان اور اٹھارہویں ترمیم پر وہی کریں جو مقتدرہ چاہتی ہے‘لیکن شہباز شریف اور بلاول کو اس خفیہ ملاقات میں ہونے والی سخت گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ تو ہاتھ ہوگیا۔ وہ تو اپنے تئیں حکومت کی لنکا ڈھائے بیٹھے تھے۔اس کے بعد نواز شریف اور زرداری کی سخت تقریریں تو بنتی تھیں کہ اُن کے حساب سے اُن کے ساتھ دھوکا ہو گیا۔ اس لیے آپ حیران ہوں گے‘ مجھے حیرانی نہیں ہوئی۔(بشکریہ دنیا)