تحریر: رؤف کلاسرا۔
لندن میں نواز شریف کی صحافیوں سے گفتگو سنتے ہوئے مجھے 12 اکتوبر 1999 سے جڑا ایک واقعہ یاد آ گیا‘ جب انکی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔
میں نے لندن میں رپورٹنگ کرتے عرصہ گزارا ہے لہٰذا وہاں کا کچھ اندازہ ہے کہ نواز شریف صاحب صحافیوں سے کس قسم کے سوالات کی توقع رکھتے ہیں اور جو توقع پر پورا نہ اترے‘ ان کے ارد گرد موجود لوگ اسے دوبارہ قریب نہیں آنے دیتے۔ جب میں لندن رپورٹنگ کر رہا تھا تو اس وقت نواز شریف مستقل وہاں تھے اور بینظیر بھٹو کبھی کبھار دبئی سے آ جاتی تھیں لہٰذا اچھا خاصا سیاسی میلہ لگا رہتا تھا۔ تب پاکستان سے بھی سیاستدان لندن ایسے آتے جاتے تھے جیسے لاہور سے اسلام آباد آرہے ہوں۔ انہی دنوں جہاں مولانا فضل الرحمن وہاں آتے تھے وہیں ایک دن عمران خان بھی نواز شریف سے ملنے آکسفورڈ سٹریٹ میں واقع ان کے دفتر آئے تھے۔ تنہائی میں تھوڑی دیر ملاقات کے بعد دونوں نے پریس کانفرنس کی تو اس میں عمران خان نے میاں صاحب کو بار بار کہا کہ وہ پاکستان آ کر سیاست کریں۔ وہ دراصل نواز شریف کو سمجھانے آئے تھے؛ تاہم نواز شریف کے ہاتھ بندھے اور ہونٹ سلے ہوئے تھے۔ اس روز میں بھی کوریج کے لیے وہاں موجود تھا‘ تو عمران خان نے مجھے دیکھ کر کہا: رئوف تم بھی پاکستان واپس آئو‘ تمہاری ضرورت پاکستان میں زیادہ ہے نہ کہ لندن میں۔ میرا خیال ہے اب وزیر اعظم بننے کے بعد وہ اپنی اس بات پر پچھتاتے ہوں کہ بہتر ہوتا یہ پاکستان نہ آتا۔
خیر بات ہو رہی تھی نواز شریف کی لندن میں موجود پاکستانی صحافیوں سے ہونی والی گفتگو کی‘ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ صحافی بھی مزاحمت کریں اور دو تین ماہ جیل بیٹھنا پڑے تو خیر ہے۔بارہ اکتوبر 1999 کو جب وزیراعظم نوازشریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کر دیا تھا تو اس کے کچھ دیر فوجی دستوں نے وزیراعظم ہائوس اور پی ٹی وی ہیڈکوارٹرز کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ اس دوران تین جنرلز‘ جنرل محمود، جنرل جان اورکزئی اور جنرل عزیز وزیر اعظم ہائوس میں نواز شریف کو قائل کر رہے تھے کہ وہ جنرل مشرف کی برطرفی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیں اور استعفا دے دیں؛ تاہم نوازشریف راضی نہیں ہوئے۔ اس پر انہیں باقاعدہ گرفتار کرکے لے جایا گیا۔
اس سے پہلے نواز شریف نے جب جنرل مشرف کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تو ان کی کوشش تھی کہ فوری طور پر اسے پی ٹی وی پر چلایا جائے۔ اس وقت پرویز رشید وزیر جبکہ یوسف بیگ مرزا پی ٹی وی کے ایم ڈی تھے۔ اب پی ٹی وی والوں نے دو تین بار تو یہ خبر چلا دی کہ جنرل مشرف کو برطرف کرکے ان کی جگہ جنرل ضیاالدین بٹ کو نیا آرمی چیف لگا دیا گیا ہے‘ لیکن وزیر اعظم ہائوس سے اصرار ہو رہا تھا کہ یہ خبر بار بار چلائی جائے۔ اس دوران آرمی کے دستے پی ٹی وی کی عمارت کے اندر داخل ہوگئے تھے اور انہوں نے پی ٹی وی کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس دوران وزیر اعظم ہائوس سے حسین نواز کا بار بار یوسف بیگ مرزا کو فون آرہا تھا کہ آپ لوگوں نے جنرل مشرف کی برطرفی کی خبر چلانا کیوں روک دی ہے۔ وہ سب لوگ اس وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھے وزیراعظم ہائوس میں خبریں دیکھ رہے تھے۔ اس پر یوسف بیگ مرزا نے حسین نواز کو بتایا کہ نیوز روم پر اب فوجی دستوں کا کنٹرول ہے۔ اس پر حسین نواز نے کہا: جناب پھر کیا ہوا‘ آپ ایم ڈی ہیں‘ خبر چلوائیں۔ اس پر یوسف بیگ مرزا نے کہا: جناب‘ ان کے پاس بندوقیں ہیں اور وہ کسی کو قریب نہیں آنے دے رہے۔ اس پر حسین نواز نے ایک تاریخی فقرہ یوسف بیگ مرزا کو کہا ”بیگ صاحب یہ شہادت کا وقت ہے‘ آپ ان سے لڑ جائیں‘ کیا ہو جائے گا اگر وہ گولی مار دیں گے‘ آپ شہادت کے رتبے پر فائز ہوں گے‘‘۔اس واقعہ کی تصدیق بعد میں یوسف بیگ مرزا نے خود کی تھی۔یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جو 1999میں تھا اور وہی ذہن آج بھی ہے کہ لوگوں کو ان کے لیے گولیوں کے سامنے آ کر مرنا پڑے تو بھی مر جائیں لیکن انہیں جو حکم دیا جا رہا ہے وہ پورا ہونا چاہیے۔
اب نواز شریف خود بڑی مشکلوں سے پاکستانی جیل سے نکل کر لندن پہنچے ہیں اور وہاں تک پہنچنے میں انہوں نے جو کمپرومائز کیے‘ وہ ساری عمر ان کیلئے مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔ وہ تین سال تک ایک بیانیہ بنا کر چلتے رہے کہ ‘ووٹ کو عزت دو‘ اور انہوں نے کئی جلسے کئے‘ جلوس بھی نکالے کہ مجھے کیوں نکالا۔ دو سال تک وہ مسلسل تنقید کرتے رہے لیکن انہیں ایک موقع چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس وقت فراہم کیا جب انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے معاملہ پر یہ حکم دیا کہ پارلیمنٹ اس پر قانون بنائے کہ کتنا عرصہ مدت ملازمت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یوں حکومت کو اس نئے بل کے لیے نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی حمایت کی ضرورت پڑ گئی۔ نواز شریف اور زرداری پارٹی نے وہاں ایک لائن میں لگ کر مدت ملازمت کے حوالے سے ووٹ ڈالا جبکہ ان کے ورکرز کیلئے یہ بڑی پریشان کن خبر تھی کہ وہ تین سال سے یہ کہتے آرہے تھے کہ ووٹ کو عزت دو اور جب عزت دینے کا وقت آیا تو وہ اس میں ناکام رہے۔
بعد میں ان کے ناقدین کا کہنا تھا: دراصل نواز شریف نے کمپرومائز کر لیا تھا اور بعد میں وہ لندن جا پہنچے۔ اب وہ چاہتے تھے مریم نواز کو بھی لندن بھیجا جائے؛ تاہم اس پر وزیراعظم عمران خان راستے کی دیوار بن گئے اور یہیں سے سارے معاملات بگڑنا شروع ہوگئے۔
مزے کی بات یہ ہے صرف ایک ماہ پہلے تک نواز شریف کے تمام قریبی ساتھی خواجہ آصف، احسن اقبال، شہباز شریف خفیہ ملاقاتیں کررہے تھے بلکہ اصل خفیہ ملاقات تو محمد زبیر نے کی تھی جب وہ اعلیٰ عسکری قیادت سے ملے تھے۔ کسی کو خیال نہ تھا نواز شریف کی پارٹی جو کبھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہی تھی وہ دراصل خفیہ ملاقاتیں کررہی تھیں اور اپنے لیے کچھ فوائد اور رعایتیں مانگ رہی تھی۔ اور جب مزید رعایتیں دینے سے انکار کیا گیا تو نواز شریف اور مریم نواز نے براہ راست عسکری قیادت پر تنقید شروع کر دی۔
نواز شریف خود جیل میں بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنے بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کو بھی لندن سے آکر پاکستانی جیل میں بیٹھنے کا حکم نہیں دیتے۔ وہ سلمان شہباز کو بھی کچھ نہیں کہتے۔ شہباز شریف کے مفرور دامادوں کو بھی نہیں کہتے کہ تم لوگ بھی واپس لوٹ جائو اور پاکستانی جیل بھر دو۔ جب وہ پاکستانی صحافیوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ قربانی دیں اور جیل جا بیٹھیں تو اس وقت ان کی بغل میں ان کے سمدھی اسحاق ڈار کھڑے تھے جو برسوں سے مفرور اور اشتہاری ہیں۔ انہیں بھی نہیں کہا کہ ڈار صاحب آپ کو میں نے پوری حکومت ٹھیکے پر دی ہوئی تھی آپ بھی پاکستان جائیں اور جیل میں بیٹھیں۔ وہی بات جیلیں کاٹیں پاکستانی عوام اور صحافی لیکن دولت اور اقتدار انجوائے کریں نواز شریف، اسحاق ڈار، شہباز شریف اور ان کے داماد۔ پاکستانی قوم اسی کام کے لیے رہ گئی ہے کہ ہر پارٹی لیڈر کے لیے یہ جیلیں بھگتیں اور وہ سب عیاشی کریں اور دنیا بھر میں جائیدادیں بنائیں۔
نواز شریف کے قریبی لوگ کہتے ہیں: میاں صاحب بھولے ہیں‘ سادہ ہیں۔ وہ بھولے ضرور ہیں لیکن اتنے بھی نہیں۔ کمال دیکھیں اسحاق ڈار، حسن نواز اور حسین نواز سمیت لندن سے پاکستان آکر جیل میں بیٹھنے کے بجائے جیل جانے کا کام صحافیوں کے ذمے لگایا ہے۔(بشکریہ دنیا)۔۔