سینئر صحافی ، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے والا “آر او” ان کے ضلع کا ایکسیئن ہائی وے ہے، جس نے کاغذات مسترد کرنے سے متعلق چار صفحات کا لمباچوڑا فیصلہ لکھ دیا لیکن اس کی قابلیت کا یہ حال ہے کہ وہ چار سطور نہیں لکھ سکتا۔روزنامہ دنیا میں اپنے تازہ کالم میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔بہرحال یہ تماشے ہو رہے ہیں اورہم دیکھ ہی سکتے ہیں۔ ہمارے وکیل صاحب کہہ رہے تھے کہ بیشتر کاغذات منظور کر لیے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اس ساری مشق کا مقصد کیا تھا؟ یوں بھی دیکھا جائے کہ جو دو بڑے مقاصد ہمارے کرم فرماؤں کے سامنے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ معتوب پارٹی اب بھی زندہ ہے‘ مری نہیں۔ اوپر کے پرندے ادھر اُدھر گئے ہوں گے‘ اس کے حامی وہیں کھڑے ہیں جہاں تھے اور اس پوزیشن سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ اور معتوب پارٹی کے لیڈر کے بارے میں جو کہا جا رہا تھا کہ ایک دن جیل میں نہیں گزار سکے گا‘ وہ بات بھی غلط ثابت ہو گئی ہے۔ قدغنوں اور تماشوں سے زیادہ طاقتور دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ کرم فرما الیکشنوں کے نتائج کے بارے میں مطمئن نہیں۔ مطمئن ہوتے تو اتنی قلا بازیاں لگانے کی ضرورت کیا تھی؟ وہ مزید لکھتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ جنہوں نے آخری فیصلہ کرنا ہے وہ انہیں بخوبی جانتے ہیں۔ ان کو اقتدار میں لانے کا رسک نہیں لیا جائے گا کیونکہ میاں صاحب کے بارے میں جاننے والے جانتے ہیں کہ اُن کی فطرت میں پھڈا لکھا ہوا ہے۔ان کے بارے میں تو وہ کہاوت مشہور ہے کہ تیر کہیں دور ہوا میں ہو تو ان کے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے کہ چھلانگ لگا کر اُسے پکڑا جائے۔ ویسے بھی یہ سارے چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ پاکستان کے مسائل گمبھیر ہو چکے ہیں۔ ان پرانی توپوں کو پھر سے استعمال میں لانے کا کیا فائدہ؟
نوازشریف چوتھی بار وزیراعظم نہیں بن رہے، ایازامیرکا تجزیہ۔۔
Facebook Comments