تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
عام تاثر یہ ہے کہ حکومت کا صحافت اور صحافیوں کے حوالے سے ریکارڈ اچھا نہیں۔ پہلے دن سے ہی حکومت نے میڈیا کو دبانے اور ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور عمل بھی کیا۔ میڈیا میں جو بحران پیدا کیا گیا وہ جان بوجھ کر کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق پچھلے کابینہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے جہاں ایک ارب روپے میڈیا کو ریلیز کرنے کا حکم دیا وہیں اس توقع کا اظہار بھی کیا اب ان کی میڈیا کے ساتھ گُڈوِل بہتر ہوگی۔ عقل اب آئی ہے جب ہزاروں لوگ بیروزگار ہو گئے، چینل بند ہو گئے، ٹی وی شوز بند کرائے گئے، میڈیا مالکان کو جیل میں ڈالا گیا اور بہت ساری سختیاں کی گئیں۔ لیکن سوال یہ ہے کیا نواز لیگ اور ان کے فیورٹ چیمپئن صحافی آج یہ دعویٰ کر سکتے ہیں انہوں نے اپنے دور میں صحافت اور صحافیوں کے خلاف کارروائیاں نہیں کیں؟ نجم سیٹھی، ملیحہ لودھی کی کہانی چلیں پرانی ہوئی جب بغاوت کے مقدمے نواز شریف نے قائم کیے تھے۔ دو تین سال پہلے کی بات کرتے ہیں جب ارشد شریف کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا تھا‘ایف آئی آر کاٹی گئی کہ اس نے حساس خبر کیوں دی‘ گرفتار کرنے کیلٗے اس کے گھر اور دفتر پر چھاپوں کا پروگرام بنایا گیا تھا اور ارشد کو اپنی جان بچانے کیلٗے اسلام آباد چھوڑنا پڑ گیا تھا۔ یہ مقدمہ ایک انٹیلی جنس ادارے نے کرایا تھا اور منظوری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دی تھی جو آج کل ٹی وی شوز پر آزادیٔ صحافت پر لیکچر دیتے سنبھالے نہیں جاتے۔ شہباز شریف ارشد شریف کیخلاف تقریریں اور پریس کانفرنسیں کرتے جبکہ محمد زبیر اور دانیال عزیز اس کے خلاف تبرے پڑھتے تھے۔ قصور کیا تھا؟ یہ کہ ارشد شریف نے ملتان میٹرو سکینڈل افشا کر دیا تھا۔ یہ بھی ملکی تاریخ کا عجیب سکینڈل تھا۔ ایک چینی کنٹریکٹر نے وطن واپس جاکر سوا تین ارب روپے کا منافع ظاہر کیا۔ پوچھ گچھ ہوئی تو کہا کہ اسے ملتان میٹرو میں چار ارب کا کنٹریکٹ ملا تھا‘ پچھتر کروڑ خرچ کیے‘ باقی پرافٹ ہے۔ یہ دنیا کا پہلا ٹھیکہ تھا جس میں ٹھیکیدار نے پچھتر کروڑ خرچ کرکے سوا تین ارب منافع کما لیا تھا۔
اسی طرح جب ڈان لیکس سامنے آئی تو یہی نواز شریف اور شہباز شریف تھے جنہوں نے ڈان کے کالم نگار سرل الیمڈا کا نام ای سی ایل پر ڈال کر اخبار پر مقدمہ قائم کرنے کا عندیہ دیا۔ اس وقت نواز شریف نے دیر نہیں لگائی اور فوراً ہی ڈان اور جیو کے صحافیوں کو حکم دیا گیا وہ ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوں‘ جس میں دو فوجی افسران بھی شامل تھے۔ اسی پر بس نہیں کی بلکہ اپنے تین چار وزیروں اور سرکاری افسران کو بھی اس جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیا کہ پتہ کریں خبر باہر کیسے نکلی اور میڈیا کو جرأت کیسے ہوئی اسے چلانے کی؟ اس رپورٹ کی روشنی میں ہی انہوں نے اپنے دو وزیروں اور ایک مشیر کو برطرف کر دیا جس میں پرویز رشید بھی شامل تھے۔ اس وقت کسی میں جرأت نہ ہوئی کہ میڈیا کی آزادی کے لیے کھڑے ہوتے کہ جناب ہم کسی پر مقدمہ قائم نہیں کریں گے، نہ نام ای سی ایل میں ڈالیں گے اور نہ ہی انکوائری کے نام پر اپنے وزیروں اور صحافیوں کو پیش ہونے دیں گے۔ کمال دیکھیں جس رپورٹر کا نام ای سی ایل میں ڈالا، اسے دنیا بھر کا جھوٹا قرار دے کر اس پر ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام لگایا، بعد میں اسے ملتان بلا کر نواز شریف صاحب نے (اپنے برطرف ہونے کے بعد) وہ سب باتیں انٹرویو میں کنفرم کیں جن سے ڈان لیکس میں وہ انکار کرتے رہے تھے اور اسی رپورٹر اور اخبار نے وہ چھاپیں بھی‘ جن کے خلاف سابق وزیر اعظم مہم چلائے ہوئے تھے۔
اس سے پہلے ایک نجی ٹی وی چینل کے خلاف خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ان کے پاس ان کی غداری کے ثبوت ہیں۔ وہی ثبوت لے کر پیمرا میں گئے اور وہاں سے اس چینل کو پندرہ دن کے لے آف ایئر کرایا اور ایک کروڑ روپے جرمانہ کرایا۔ آج اگر خواجہ صاحب کا وہ کلپ سن لیں تو کسی کو یقین نہ آئے کہ ایک چینل بارے میں کیا فرما رہے تھے۔ اللہ کی شان‘ آج وہ اسی چینل کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے 2016 میں چینل مالک کو فون جاتے تھے کہ میرے اور عامر متین کے ٹی وی شو کو بند کر دیا جائے۔ نواز شریف دور میں وزیراعظم ہائوس کو پتہ چلا ایک اور ٹی وی چینل ہمیں آفرز کررہا ہے تو اس کے مالک کو فون کیے گئے کہ انہیں شو مت دینا۔
اپنے ہر دور میں شریف خاندان والے اپنے دوست صحافیوں کا گروہ پیدا کرتے آئے ہیں۔ صحافیوں کا وہ گروہ بھی یہی سمجھتا ہے ان کے مشوروں پر ہی حکومت چل رہی ہے۔ جس دن نواز شریف پانامہ سکینڈل پر فارغ ہوئے تھے تو صحافیوں کی ایک فوج باقاعدہ پنجاب ہائوس میں نواز شریف کو مشورے دے رہی تھی کہ لاہور جی ٹی روڈ سے جانا ہے یا موٹروے سے۔ انہی صحافیوں کو شہباز شریف اور چوہدری نثار کی اس وقت کے جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتوں پر کوئی اعتراض نہیں تھا‘ نہ وہ اسے سیاست میں عسکری مداخلت سمجھتے تھے۔ شہباز شریف مان جائیں کہ وہ الیکشن سے پہلے اپنی کابینہ کے ممبران کے نام مقتدر حلقوں سے کلیئر کرا چکے تھے تو بھی ان کی جمہوریت اور ووٹ کی عزت کا نعرہ چلتا رہے گا۔ انکے کیمپ کا کوئی صحافی اسے بوٹ پالش سے تشبیہ نہیں دے گا۔
ایک دفعہ پریس کلب میں آزادیٔ صحافت کے حوالے سے ایک گفتگو تھی۔ میں عموماً ایسے فنکشن میں نہیں جاتا‘ لیکن پریس کلب کے صدر شکیل انجم کا حکم میں نہیں ٹال سکتا‘ لہٰذا چلا گیا۔ وہاں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ وہ صحافی جو نواز شریف اور زرداری دور میں اعلیٰ عہدے لے کر بیٹھے تھے اور صحافیوں کو دبانے پر مامور تھے وہی بیٹھے آزادیٔ صحافت پر تقریریں کر رہے تھے۔ میں چپ نہ رہ سکا اور کہا‘ یہی لوگ نواز شریف دور میں ہمارے خلاف کارروائیاں کرتے اور بڑھکیں مارتے تھے کہ میڈیا کو سیدھا کر دیں گے‘ اس وقت کسی کو خیال نہ آیا کہ انکے خلاف بھی جلوس نکال لیں یا سیمینار کر لیں۔ جب نواز شریف اور مریم نواز کو خوش کرنے کیلئے سب چینلز کو پیمرا سے روزانہ نوٹسز جاری ہو رہے تھے، چینلز کو جرمانے ہو رہے تھے، چینلز کو بند کیا جا رہا تھا، اینکرز کے شوز بند ہو رہے تھے‘ اس وقت کے پیمرا چیئرمین نے جو بھاری جرمانے تجویز کرکے سینیٹ کی کمیٹی کو بھیجے تھے اگر ان کے خلاف اس وقت کے سیکرٹری انفارمیشن احمد نواز سکھیرا سٹینڈ نہ لیتے تو آج ملک میں کوئی چینل کام نہ کر رہا ہوتا کہ سب کو معاشی طور پر تباہ کر دینے کا پلان تھا۔
شریف فیملی کا انداز بڑا نرالا ہے۔ پہلے یہ صحافیوں کی صفوں میں سے ایک جتھہ چنتے ہیں جس کے رکن ماسٹر کے حکم پر کچھ بھی کر گزرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، انہیں اپنا ملازم بنا لیتے ہیں اور پھر عہدے دے کر اپنے ہی صحافیوں اور میڈیا کے خلاف استعال کرتے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ صحافیوں کو کیسے گھیرنا ہے، کیسے انہیں استعمال کرنا ہے اور کرتے رہنا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہر جگہ اپنا بندہ ڈھونڈا‘ لیکن ہر جگہ اپنا بندہ لگانے کے باوجود وہ سب آج دربدر ہیں، تاحیات نااہل ہیں، لندن بھاگے ہوئے ہیں، ضمانتوں پر ہیں‘ پھر بھی اپنے وفاداروں کا تحفظ کرنا نہیں بھولے۔ یہ ان کی اچھائی ہے جو موجودہ حکمرانوں کو ان سے سیکھنے کی ضرورت تھی کہ کیسے صحافیوں کو استعمال کرنا ہے اور کرتے رہنا ہے اور پھر اگر ”اپنے صحافی‘‘ پھنس جائیں تو کیسے ان کیلئے آزادیٔ صحافت کا نعرہ بھی بلند کرنا ہے۔
ویسے داد دیں سکینڈل بریک کرنے پر جنہوں نے ارشد شریف کے خلاف مقدمے قائم کرائے، کئی چینلز آف ایئر کرائے، چینلز کے خلاف غداری کے سرٹیفیکٹ بانٹے، سرل المیڈا کا نام ای سی ایل پر ڈالا اور خبر لیک ہونے پر اپنے تین وزیروں سمیت درجن بھر صحافیوں کی انکوائری فوجی افسران سے کرائی تھی، وہی آج آزادیٔ صحافت کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔(بشکریہ دنیا)۔۔