nawabshah train haadsa Ghair mehfooz safar

نوابشاه ٹرین حادثہ، غیر محفوظ سفر۔۔

تحریر:علی انس گھانگھرو
سرہاڑی کے قریب ہزارہ ایکسپریس حادثے میں اب تک 35 مسافر جاں بحق جبکہ 85 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں، ٹرین کی 10 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی، دیکھتے ہی دیکھتے مسافروں کی چیخیں نکلنا شروع ہوگئی. مسافر اپنے گھروں، دوستوں، رشتہ داروں اور کام کاج کے سلسلے میں ٹرین کے آرامده اور سستا سفر کر رہے تھے کیا پتا کہ یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ہوگا. لیکن کیا کر سکتے ہیں. یہاں تو انسان جان کی کوئی قیمت نہیں ہے. ہمارے ملک میں حادثہ ہوتا ہے کچھ دن بعد اب بھول جاتے ہیں اور ایک نیا حادثہ ہوتے ہی آنکھ کھلتی ہے. ٹرین حادثہ کے وقت سندھ کی عوام نے اپنی مہمان نوازی، ثقافت، کلچر کو برقرار رکھتے ہوئے بروقت اطلاع ملتے ہی سب سے پہلے ریسکیو کارروائی میں حصہ لیا. ایک ہزار سے زائد افراد نے زخمی مسافروں کیلئے خون کا عطیہ دیا جس میں نوابشاه یونیورسٹیز کی طالبات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور عطیہ دیا. لوگوں نے مسافر بچوں کیلئے دودہ، بڑوں کیلئے گھروں سے کھانا پکا کر کھلایا. ٹھنڈے پانی کا بندوبست کیا، ایک زندھ قوم مہمان نواز قوم کی طرح اپنے جیب سے سب کچھ کیا. سوشل میڈیا پر پوسٹ پڑھنے کو ملی ہیں کہ اگر کوہ مری ہوتا تو کھانے پینے جوس اور دودھ کی قیمتوں میں پانج گنا اضافہ ہوا ہوتا لیکن یہ سندھ ہے. سندھ میں کراچی سے لیکر کشمور صادق آباد تک ریلوے کے اپ ڈائون ٹریک زبون ہو چکے ہیں. آئے روز مال گاڑیوں اور مسافر ٹرینوں کی بوگیاں اترتی جاتی ہیں. کبھی جانی نقصان ہوتا ہے تو کبھی مالی نقصان ہوتا ہے. سندھ کی یہ بدقسمتی ہے کہ وفاقی اداروں اور وفاقی حکومت کی جانب سے ریلوے ٹریک اسٹیشنز پر کوئی بھی کام نہیں کرایا جاتا سوائی ریلوے کی زمینیں واپس کرکے قبضہ کرنے، لوگوں کو تنگ کرنے، کمرشل پلاٹ کی لیز کرنے اور کرپشن کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا. سکھر سے حیدرآباد تک موٹروے منصوبہ تاحال شروع نہ ہو سکا ہے. پی آئی اے کی حالت سب کے سامنے ہے. قومی شاہراہ جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے. آئے روز حادثے معمول کے مطابق ہوتے ہیں. میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے تصاویر اور ویڈیو کے مطابق جس جگہ حادثہ ہوا ہے وہاں فش پلیٹ کی جگہ لکڑی لگائی گئی ہے. اس سے پہلے بیگمانجی اسٹیشن اور دیگر جگہ پر بھی فش پلیٹ کی جگہ لکڑی استعمال کرنے کی وجہ سے حادثات رونما ہو چکے ہیں. وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ واقعہ تخریبکاری بھی ہو سکتا ہے، لیکن جہاں جس جگہ حادثہ پیش آیا ہے اگر آپ تصاویر کو غور سے دیکھیں گے تو آپ کو وہاں پانی برابر میں کھڑا ہوا نظر آئے گا. گزشتہ سال ہونے والی تباہ کن بارشوں کی وجہ سے قومی شاہراہ اور ریلوے ٹریک بری طرح متاثر ہوئے تھے، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی نہ ہی مرمت کی گئی تھی. انگریز کے دور سے بچھائے جانے والے ٹریک کے بعد ایک تو کوئی نئی لائن نہ بچھائی گئی ہے اور نہ ہی اس کی ٹھیک طریقے سے دیکھ بھال کی جا رہی ہے.وفاقی حکومت اور ریلوے کی وزارت نے سندھ کی ریلوے ٹریک مرمت کی بجٹ بدقسمتی سے پنجاب میں خرچ کی ہے، پرویز مشرف سے لیکر، زرداری، نواز اور عمران خان تک یہ روایت برقرار رہی، صادق آباد سے لیکر کراچی تک ریلوے ٹریک زبون ہے. ٹرین چلانے کے قابل نہیں ہے، آئے روز سندھ میں ٹرین کی بوگیاں پٹڑیوں سے اترنا روز کا معمول ہے. سابق و موجودہ ریلوے کے وزراء، ریلوے چیئرمینز اور ڈی ایس ریلویز کے خلاف دہشتگردی ایکٹ یا آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے سزائیں دی جائے. ٹرین حادثہ اور ریسکیو اگر بروقت صوبائی حکومت اور ضلع انتظامیہ تحرک لیتی تو انسانی جانیں بچ سکتی تھی. سندھ میں 15 سال اقتدار کے باوجود کوئی ریسکیو، سرکاری مشینری، انتظامی طور پر کچھ نہیں ہے، ہزاروں اربوں روپے کاغذی کاروائی میں خرچ نہ ہوتے تو آج پاک فوج کے جوانوں، رینجرز اہلکاروں اور انصار کے رضاکاروں کو بلانا نہ پڑتا، سلام ہے مقامی لوگوں کو، طلبہ کو، غریب مسکین دیہاتیوں کو جنہوں نے ٹرین حادثہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا. سندھ کی ہسپتالوں میں تو نہ آکسیجن تھی نہ ڈاکٹر، نہ وینٹی لینٹر، نہ ادویات نہ آئی سی یو، بس ہر طرف تباہی بربادی کرپشن ہی کرپشن ہے. مگر محکمہ ریلوے کی غفلت بھی سازش نظر آ رہی ہے. بدقسمتی سے گزشتہ دو سے تین دہائیوں تک صادق آباد سے لیکر کراچی تک ریلوے کے اپ اور ڈائون ٹریک کی مرمت رنیو کا کام نہ ہوا ہے. بلکہ وہ بجٹ کا حصہ پئسے کاٹ کر پنجاب میں خرچ کئے گئے ہیں یا وفاق کھا گیا ہے. ٹرین حادثہ میں جاں بحق مسافروں کی تعداد 35 تک ہوگئی ہے، مزید بھی امکان ہے، وفاقی حکومت کو چاہیے کہ فوتی مسافروں کے ورثہ کو دیت کے برابر رقم کم از کم 45 لاکھ روپے، ایک ایک سرکاری ریلوے میں نوکری، اور زخمیوں کا سرکاری خرچ پر آغا خان ہسپتال، سائوٹھ سٹی ہسپتالوں میں مفت علاج اور 30،30 لاکھ روپے زخمیوں کو معاوضہ دیا جائے،! یہ حادثہ اتفاقی نہیں بلکہ محکمہ ریلوے اور وفاقی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ہوا ہے، سندھ میں تین دہائیوں سے ریلوے ٹریک پر مرمت کام نہیں ہوا ہے، وہ پئسے کرپشن ہوئے ہیں یا پنجاب میں خرچ ہوئے ہیں،!!
مسافروں کے جاں بحق اور زخمیوں دیگر مالی نقصان کا کیس ڈی ایس ریلوے سکھر، ڈی سی ریلوے، چیئرمین ریلوے، وفاقی وزیر ریلوے، چیف سیکرٹری پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان پر مقدمہ دہشتگردی ایکٹ کے تحت درج کیا جائے، یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے سینئر جسٹس محمد سلیم جیسر اور جسٹس عبدالمبين لاکھو نے ایک ماہ قبل ایک اپیل میں 31 سال قبل اوباوڑو ریلوے حادثے میں جاں بحق مسافروں کے ورثہ کو دیت کے بابر رقم معاوضہ دینا کا فیصلہ دیا ہے۔۔(علی انس گھانگھرو)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں