تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، کالم کے عنوان سے یہ قطعی مت سمجھ لیجئے گا کہ پاکستان کا ”نواں“ پارٹ کوئی زیرتعمیر ہے۔ بلکہ یہ پنجابی میں نئے پاکستان کو کہاگیا ہے۔ جب سے کپتان کی حکومت آئی ہے۔ صرف دو چیزیں بار بار سننے کو ملتی ہیں۔ ریاست مدینہ یا پھر نیا پاکستان۔۔ لیکن ان دونوں کے آثار کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔ قوم پریشان ہے کہ نواں پاکستان کدھر بن رہا ہے؟ ریاست مدینہ کیوں اب تک غیرفعال ہے؟؟نئے پاکستان اور ریاست مدینہ کے ثمرات کب غریب عوام تک پہنچیں گے؟؟۔۔
پاکستان سوشل اینڈ لونگ سٹینڈرڈ سروے کے نتائج کا اعلان 2014-15 سے 2019-20 کے دوران (یعنی پانچ سال میں) انتہائی کسمپرسی کا شکار گھرانوں کی تعداد 7.24فیصد سے 11.94فیصد ہو گئی، موبائل فون سے استفادہ کرنیوالے 93فیصد، ذاتی گھر رکھنے والوں کی شرح 84سے کم ہو کر 81فیصد ہوگئی۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے سروے کے مطابق معاشی طور پر انتہائی کسمپرسی کے شکار گھرانوں کی تعداد 2014-15 میں مجموعی آبادی کا7.24فیصد سے بڑھ کر 2019-20 میں 11.94 گھرانوں تک پہنچ گئی، غذائی عدم تحفظ کا شکار آبادی کی شرح16فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ وہ گھرانے جن کی معاشی حالت میں فرق نہیں پڑا ان کی شرح44.08فیصد سے بڑھ کر45.73فیصد ہے، معاشی صورتحال میں بہتری والے گھرانوں کی شرح 16.48فیصد سے کم ہوکر12.7فیصد تک آ گئی ہے۔ پنجاب میں تعداد6.58فیصد سے بڑھ کر12.11فیصد، سندھ میں 5.98فیصد سے بڑھ کر10.66فیصد، خیبر پختونخوا میں 11.69فیصد سے کم ہوکر10.80فیصد، بلوچستان میں 11.49فیصد سے بڑھ کر19.60فیصد تک جا پہنچی ہے۔ پائپ سے پانی حاصل کرنے والی آبادی کی شرح 26.7فیصد سے کم ہوکر22.3فیصد، ہینڈ پمپ سے پانی حاصل کرنے والوں کی تعداد26.4فیصد سے کم ہوکر23.3فیصد، موٹر پمپ سے پانی حاصل کرنے والوں کی شرح32.5فیصد سے کم ہوکر30فیصد، فلٹریشن پلانٹ سے پانی حاصل کرنے والوں کی تعداد 3فیصد سے بڑھ کر4.3فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ گیس پر کھانا پکانے والوں کی تعداد41.34فیصد سے بڑھ کر48.24فیصد، بجلی کی سہولت والی آبادی کی شرح93.45فیصد سے کم ہوکر90.91فیصد، صاف ایندھن استعمال کرنے والوں کی تعداد 41.70فیصد سے کم ہوکر37.30فیصد، ذاتی گھر رکھنے والوں کی تعداد84.09فیصد سے کم ہوکر81.78فیصد ہو گئی۔ شہروں میں 73.23فیصد سے کم ہوکر70.13فیصد، دیہات میں شرح 90.19فیصد سے کم ہوکر89.12فیصد ہو گئی۔ بنیادی صحت مرکزکی سہولت 57.40فیصد سے بڑھ کر67فیصد ہو گئی، 86فیصد کو بہبود آبادی، 97فیصد کو سکول، 97فیصد کو ہسپتال، 96فیصد دیہی آبادی کو زرعی توسیع کی سہولیات دستیاب ہیں۔ شرح خواندگی60فیصد سے بڑھ کر70فیصد تک پہنچ گئی۔ پنجاب میں 64فیصد سے بڑھ کر72فیصد،سندھ میں 58فیصد سے بڑھ کر68فیصد، خیبر پختونخوا میں 71فیصد سے بڑھ کر72فیصد اور بلوچستان میں شرح خواندگی 61فیصد پر منجمد ہے۔ سکول سے باہر بچوں کی تعداد32فیصد سے کم ہوکر27فیصد پر آ گئی۔ پنجاب میں تعداد24فیصد سے کم ہوکر22فیصد، سندھ میں 44فیصد سے کم ہوکر39فیصد، خیبر پختونخوا میں 30فیصد سے کم ہوکر20فیصد، بلوچستان میں 47فیصد سے کم ہوکر38فیصد ہو گئی ہے۔ 15سال تک عمر کی بچیوں کی شرح خواندگی84فیصد سے بڑھ کر89فیصد ہوگئی۔ موبائل فون کی سہولت سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد93فیصد تک جا پہنچی، شہری آبادی میں 96.48 دیہاتی آبادی میں 91.06فیصد ہے۔ انٹر نیٹ کی سہولت استعمال کرنے والوں کی تعداد 32.74فیصد تک پہنچ گئی۔ موبائل فون کی ملکیت رکھنے والوں کی شرح 45.52فیصد ہے، شہری آبادی میں 65.02فیصد، دیہات میں 25.19فیصد ہے۔ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے پر دسترس رکھنے والوں کی شرح 62.69 فیصد ہے۔ بنیادی 7بیماریوں سے بچاؤکے ٹیکے اور حفاظتی قطرے پلانے کی سہولت والوں کی شرح 70فیصد پر برقرار رہی۔
ہمارے کپتان کا حال کچھ اس طرح سے ہے کہ۔۔میاں بیوی کسی پارٹی سے واپس آ رہے تھے، اچانک بیوی چلائی۔۔ سامنے دیوار ہے، گاڑی روکو۔۔ سامنے دیوار ہے،گاڑی روکو۔۔ اتنے میں گاڑی دیوار سے جا ٹکرائی۔۔ اگلے دن دونوں ہسپتال میں پڑے تھے۔۔بیوی نے پوچھا جب میں اتنی دیر سے آواز دے رہی تھی کہ سامنے دیوار ہے۔۔توپھر سُنا کیوں نہیں اور گاڑی کیوں نہیں روکی؟۔۔شوہر نے کراہتے ہوئے غصے سے جواب دیا۔۔اَنّی دیئے گڈی میں نہیں توں چلا رئی سی۔۔یعنی ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں لیکن مہنگائی سے لے کر کسی بھی معاملے پر ان کابیانیہ اپوزیشن لیڈر والا ہوتا ہے۔ آپ حکومت میں ہیں، معاملات درست کرنا آپ کا کام ہے۔۔ ٹائم ویسے بھی کم رہ گیا ہے۔ دوسال بعد نئے الیکشن آنے ہیں، ڈلیور نہیں کیا تو پھر اچھی طرح جان لیں کہ عوام سیانی ہوچکی ہے۔۔
حکومتی معاملات کس طرح چل رہے ہیں اس کا اندازہ آپ یوں بھی کرسکتے ہیں کہ۔۔ بیگم صاحبہ نے کہا۔۔سنیے، کچن کا بلب فیوز ہوگیا ہے، نیا لگا دیں۔۔شوہرنے کہا۔۔اچھا جی، فارغ ہوکے لگادیتا ہوں۔۔ دو دن بعد بیوی نے پھر کہا۔۔ بات سنیں، دروازے کا لاک ٹوٹ گیا ٹھیک کرا دیں۔۔شوہر کا حسب معمول رسپانس۔۔ اوہ کیسے؟ ڈونٹ وری۔۔۔تین دن بعد بیگم نے کہا۔۔ گیٹ کی گھنٹی نہیں بج رہی،دو دن سے اسے تو چیک کریں۔۔شوہر نے موبائل فون کی اسکرین سے چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے کہا۔۔شکر کرو سکون ہے، چلو دیکھتا ہوں اٹھ کے۔۔بیگم صاحبہ نے پھر کہا۔۔ چکی سے آٹا لادیں، ختم ہونے والا ہے۔۔ شوہر نے کاہلی سے جواب دیا۔۔اچھا شام کو لا دیتا ہوں۔۔ایک ہفتے بعد بیوی پھر بولی۔۔ پانی کی موٹر خراب ہے، مکینک کو بلائیں۔۔شوہر نے سرد آہ بھر کر کہا۔۔ ہوں، ٹھہر کے کال کرتا ہوں۔۔۔ دس دن بعد بیگم صاحبہ نے شوہر کو پھر یاد کرایا۔۔ اے سی کی سروس بھی کرانی ہے۔۔شوہر نے شانے اچکاتے ہوئے کہا۔۔ اوکے کل یاد کرانا۔۔۔مہینے بعد بیوی کا غصہ جواب دے گیا، دانت پیس کر چلائی۔۔ سنیے! بلب، لاک، موٹر، اے سی، گھنٹی، پنکھا، ٹیلی فون، استری، دماغ۔۔ سب خراب ہوئے پڑے ہیں آخر کب ٹھیک کرائیں گے؟؟؟ شوہر نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔اب اتنے ساری چیزیں میں کیسے ٹھیک کراؤں؟ ایک ایک کرکے بتاتیں تو اب تک ٹھیک بھی کرا دیتا۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مغربی ممالک میں امیروں کے ٹیکس سے غریب پلتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں غریب کے ٹیکس سے امیروں کی کفالت ہوتی ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔