خصوصی رپورٹ
دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کا دعوید ار نوائے وقت آج اس دوراہے پر کھڑا ہے جس کا کسی نے سوچا تک نہیں تھا جب سے مجید نظامی کا انتقال ہوا ہے تب سے ان کی لے پاک صاحبزادی رمیزہ نظامی نے اخبار اور ملازمین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے المیہ تو یہ ہے کہ مجید نظامی نے جس محنت سے وقت نیوز چینل کا آغاز کیا تھا اُسے مکمل طور پر بند کر کے ہزاروں ملازمین کو بیروزگار کر دیا گیا8 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان ملازمین کو واجبات اور تنخواہوں کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں جب کبھی وہ دفتر واجبات کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں تو دفاتر کے گیٹ بند کردیئے جاتے ہیں۔
بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر قیام پاکستان کی تحریک آزادی کی جدوجہد کوبرصغیر تک پھیلانے اور ہندو پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے اخبار کے بانی حمید نظامی نے اخبار کا اجراءکیا جس سے تحریک آزادی پاکستان کی جدوجہد میں وہ ولولہ پیدا کیا جس کی بانی پاکستان خود تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے جب تک حمید نظامی اور مجید نظامی زندہ رہے اخبار کی پالیسی جوں کی تو ںبرقرار رہی اخبار میں کسی بھارتی ایکٹر کی تصویر تو دور کنار خبر تک لگانے کی اجازت نہیں تھی مگر افسوس صد افسوس مجید نظامی کے انتقال کے ساتھ ہی اخبار کے قیام کا نظریہ اپنی موت آپ مر گیا۔ آج مجید نظامی کی روح تڑپ رہی ہو گی ہائے میں نے اخبار رمیزہ کے حوالے کر کے کیا کیا کاش میں اپنی زندگی میں یہ فیصلہ نہ کرتا بلکہ اپنے حقیقی خون اور بھتیجے عارف نظامی کے حوالے کر دیتا تو دنیا کو آج یہ سب کچھ نہ دیکھنا پڑتا۔ اب ”پچھتاوے کیا ہو وئے ،جب چڑیا چگ گئیں کھیت“
رمیزہ مجید نظامی کی حقیقی اولاد نہیں اسی لئے انہوں نے اخبار کی پالیسی یکسر تبدیل کر کے اپنی من مانیوں سے اخبار کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اخبار میں آج وہ سب کچھ چھپتا ہے جس کا تصوربھی مجید نظامی مرحوم کی زندگی میں ممکن نہ تھا۔
قادیانیوں سے متعلق اشتہار میں انہیں شہید تک لکھا جاچکاہے‘ جس پر ملک گیر سطح پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا رمیزہ نے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دل پر صبر کے ساتھ معافی مانگ کر اپنی جان چھڑائی آج اخبار کی صورتحال یہ ہے کہ تمام اسٹیشنوں کا بوریا بستر گول ہو چکا ہے۔ فرنٹ اور بیک لاہور سے بن کر آرہا ہے ‘ ملازمین قیدی اور دفاتر بیگار کیمپ بن چکے ہیں جہاں ملازمین پچھلے 5ماہ سے بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور ہیں احتجاج پر نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ کئی کو نکالا جاچکا ہے باقی نکالے جانے کے خوف سے کام کرنے پر مجبورہیں۔ 20سے 25برس کی سروس کے باوجود ملازمین کا کوئی پرسان حال اور مستقبل محفوظ نہیں ہے افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ رمیزہ نے حکومتی رٹ کو بھی چیلنج کر رکھا ہے اپنی خودساختہ ریٹائرمنٹ پالیسی بنا کر بچے کچے ملازمین کو بھی نکالنا شروع کردیا ہے نئی پالیسی کے مطابق ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد 60برس کے بجائے 50برس کردی گئی ہے یا جن کی ملازمت کو 25سال ہو گئے ہوں جس کے تحت تمام اسٹیشنوں کے تقریباً سب ہی ملازمین اس کی زد میں آتے ہیں۔
رمیزہ نظامی کی آمرانہ سوچ کو تقویت دینے میں مبینہ طور پر حکومت اور عدلیہ کا بھی بڑا ہاتھ ہے رمیزہ نظامی کی ان ہٹ دھرمیوں کے خلاف ملا زمین سپریم کورٹ تک جا چکے ہیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی رمیزہ کو اپنی بیٹی بناکر ملازمین دشمن اقدامات کرنے کی کھلی چھٹی دی اور رمیزہ کے لیے رعاتیں دیکر ثاقب نثار نے اپنے منصب سے ناصرف غداری کی بلکہ انصاف کا قتل بھی کیا اللہ تعالیٰ ثاقب نثار کو کبھی معاف نہیں کرے گا کیونکہ ان کی آشیرباد کی بدولت اخباری صنعت سے وابستہ ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوکر فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے وقت کے حکمرانوں اور رمیزہ صاحبہ اللہ کے کہر سے ڈرو اس کی پکڑ سے آج تک کوئی ظالم نہیں بچ سکا اس کی ڈھیل ایک دن ان کے لیے خود پھانسی کا پھندا بنے گی۔
رمیزہ صاحبہ ملازمین کی بد دعاﺅں سے بچنے کے لیے ان کی تنخواہیں ریلیز کریں اور نام نہاد ریٹائرمنٹ کی پالیسی واپس لینے کا حکم دیں۔ ریٹائر اور جبری ملازمتوں سے فارغ کیے گئے ملازمین کے بقایاجات فوری طور پر ادا کئے جائیں ۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو آپ کی تباہی اور بربادی کودنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکے گی۔ انشا اللہ۔۔(متاثرین نوائے وقت ایکشن کمیٹی)
متاثرین نوائے وقت ایکشن کمیٹی کے خیالات اور تحریر سے ہماری ویب اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر۔۔