تحریر: عمیرعلی انجم
مزار قائد اعظم محمد علی جناح سے چند قدم کے فاصلے پر ایک ایسے اخبار کا دفتر موجود ہے جس کے بغیر پاکستانی صحافت کی تاریخ نامکمل ہے ۔روزنامہ نوائے وقت کا شمار ان اخبارات میں ہوتا ہے جنہوں نے ملک میں شعبہ صحافت کو عروج پر پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔مرحوم حمید نظامی اور مجید نظامی کی سربراہی میں نوائے وقت نظریہ پاکستان کا علمبردار سمجھا جاتا تھا ۔ان بزرگوں کے دنیا سے گذر جانے کے بعد ۔۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ نوائے وقت ”گذرے ہوئے وقت” میں تبدیل ہوگیا ہے ۔چند روز قبل کچھ دوستوں کی دعوت پر نوائے وقت کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔۔۔اخبار کے حالات دیکھ کر مجھے جہاں نظامی برادران یاد آئے وہیں مشہور بھارتی شاعراقبال اشعر کا یہ شعر کانوں میں گونجنے لگا ”رکی رکی سی نظر آتی ہے نبض حیات۔۔۔یہ کون اٹھ کر گیا ہے میرے سرہانے سے ”نوائے وقت کی نبض ڈوب رہی ہے اور اس کے ”حکیم”نئے” معجون” کی تیاری میں مصروف ہیں ۔۔۔اخباری صنعت سے وابستہ افراد کے لیے یہ بات تو معمول بن چکی ہے کہ فلاں ادارے میں ایک ،دو یا تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں لیکن یہ کیا ہے ؟؟؟ نوائے وقت کے ملازمین گزشتہ چھ ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں اور کہیں سے بھی ان کے حق میں آواز بلند ہوتی نظر نہیں آرہی ہے ۔مجھے نوائے وقت کے ایک ساتھی نے اپنی داستان سنائی تو بے ساختہ وہ درویش شاعر ساغر صدیقی یاد آگیا جو وقت کے فرعونوں سے دلبردشتہ لاہور کی گلیوں میں صدا لگاتا تھا کہ ” زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے ۔۔۔جانے کس جرم کی پائی ہے ،سزایاد نہیں ۔۔۔۔ مجھے بھی علم نہیں کہ نوائے وقت کے ساتھی کس ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔نوائے وقت کے دوست نے بتایا کہ اب تو قرض دینے والوں نے بھی انکار کرنا شروع کردیا ہے ۔آخر آپ کب تک ادھار پر گھر کا راشن لے کر اپنے بچوں کا پیٹ پالیں گے ۔۔۔ہر مرتبہ دکاندار کو یہی آسرا دیتے دیتے تھک گئے ہیں کہ اس ماہ تنخوا مل جائے گی تو اس کا حساب چکتا کردیا جائے گا لیکن ”تنخواہ والا مہینہ” نصف سال پر محیط ہوچکا ہے ۔۔نوائے وقت کراچی کی کمان اس وقت جن ہاتھوں میں ہے وہ خودبھی ”رہنماؤں” کی صف میں آتے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے اس طرح کی صورت حال پرصرف نوحہ کناں ہی ہوا جاسکتا ہے ۔۔ ۔مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خود بھی بغیر تنخواہ کے گذارہ کررہے ہیں ۔۔۔لیکن وہ بغیر تنخواہ کے گذارا کرکیسے رہے ہیں اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے ۔۔۔۔نوائے وقت کے ایک اور دوست کا کہنا تھا کہ مالکان سے اگر اخبا ر نہیں چل رہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ادارہ خسارے میں ہے تو ہمارے بقایا جات ادا کرکے اخبار کو بند کردیا جائے ۔۔۔یہ کیا ہے کہ ہر روز ہمیں امید کی سولی پر لٹکادیا جاتا ہے ۔۔۔ایک مرتبہ میں ہی قصہ ختم کردیا جائے ۔۔۔میں نوائے وقت کے ملازمین کی دکھ بھری داستان سن کر جیسے ہی دفتر سے باہر نکلا۔۔۔میری نگاہیں بے ساختہ سامنے قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر گئیں اور مجھے ایسالگا کہ بابائے قوم کہہ رہے ہوں کہ میرے مزار کے سائے تلے تو یہ ظلم نہ کرو ۔۔۔۔”عظیم رہنماؤں” بابائے قوم کا مزار آپ کو پکاررہا ہے ۔۔۔جائیں اور جا کر نوائے وقت کے ساتھیوں کے سر پر ہاتھ رکھیں ۔۔۔(عمیر علی انجم)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)