تین روز پہلے جب اسلام آباد کی شاہراوں پر بھارت کے حوالے سے مخصوص بینرز لگے تو لوگوں نے پڑھے بغیر ہی ویڈیو اور تصویریں بناکر شیئر کیں اور وفاقی پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھانا شروع کردیا، جبکہ بینر زکے ٹاپ پر چھوٹے حروف میں یہ لکھا تھا کہ بھارت اکھنڈ ریل ٹیرر، خیر یہ الگ کہانی ہے، کہانی اس کرائم رپورٹر کی جو ان بینر زکی ویڈیو بنا رہا تھا اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر اسے روکنے کی کوشش کی تو موصوف نے دوڑ لگا دی، یوں پولیس پیچھے اور رپورٹر صاحب آگے آگے، رپورٹر نے حواس باختگی میں اپنی گاڑی پریس کلب کی پارکنگ میں کھڑی کی اور بھاگ کر پریس کلب کے اسپورٹس روم میں چھپ گیا، کلب کے عملے سے کہا کہ وہ گیٹ کو بند کردیں، یوں دو گھنٹے تک پولیس اہلکار اس رپورٹر کی مشکوک حرکت پر پریس کلب کے اندر رہے اور اسے پیش کرنے کا مطالبہ کرتے رہے، اس دوران صدر پریس کلب سمیت ممبران کی بڑی تعداد موقع پر پہنچ گئی جنہوں نے ان اہلکاروں کو بھگایا اور بعد میں انہیں معطل بھی کرا دیا۔ پولیس اہلکاروں کا سادا موقف تھا کہ انہیں کیا معلوم کہ ویڈیو بنانے والا کوئی رپورٹر ہی ہے، جب انہوں نے روکا تو موصوف رکے کیوں نہیں اور کیوں دوڑ لگائی؟، ایسے میں ہمیں کیا معلوم کہ وہ رپورٹر تھا ، وہ کوئی دہشتگرد بھی ہوسکتا ہے، ہمارا تو فرض تھا کہ ہم اس کو پکڑتے اور تحقیق کرتے۔پپو کے مطابق پولیس اہلکاروں سے غلطی ہوئی کہ پیچھا کرتے ہوئے انہوں نے اس واقعہ کی وائرلیس رپورٹ نہیں کی، جس کی وجہ سے انہیں معطل ہونا پڑا۔۔پپو کے مطابق ریڈ زون سے کسی کوروکنے پر تعارف کرائے بنا بھاگنا کتنا بڑا ایشو ہوتا ہے سکیورٹی والوں کے نزدیک انہوں نے پیچھا کرنا ہی تھا ، اس پورے کیس میں کلب اور صحافت کی آڑ کا فائدہ اٹھایا گیا اگر مذکورہ کرائم رپورٹر پلس بیوروچیف اور پریس کلب کا عہدیدار اگر پولیس کے روکنے پر وہاں رک کر اپنی تعارف کرادیتا تو اہلکا ر کون سا اسے پھانسی چڑھادیتے، لیکن اس نے جس طرح وہاں سے دوڑ لگائی پولیس اہلکار اسے مشکوک سمجھے اور اسکے پیچھے پیچھے پریس کلب میں جاگھسے جس سے موصوف کی تو بچت ہوگئی لیکن صحافت اور صحافی برادری کی ناک کٹ گئی۔
اسلام آباد پریس کلب میں پولیس کیوں گھسی؟؟
Facebook Comments